برہان وانی نے اپنی زندگی میں کبھی یہ سوچا نہ ہوگاکہ ایک دن پاکستان کا وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کا نام لے گا جس کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں کشیدگی اتنی بڑھے گی کہ دہلی میں پاکستان کے دریائوں کا پانی بند کرنے کی ترکیبوں پر غور ہوگا۔ جب سے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اکیس سالہ کشمیری حریت پسند برہان وانی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خراج تحسین پیش کیا ہے بھارتی میڈیا اپنی حکومت کو پاکستان پر حملے کی ترغیب دے رہا ہے۔ برکھادت سمیت کئی بھارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ برہان وانی ایک دہشت گرد تھا جو بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں ایک دہشت گرد کو ہیرو بنانے کی کوشش کی لہٰذا پاکستان کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ کچھ بھارتی ٹی وی چینلز پر کہا گیا کہ اگر پاکستان کی طرف سے ہمارے غدّاروں کو ہیرو بنایا جارہا ہے تو ہمیں پاکستان کے غدّاروں کو ہیرو بنانا چاہئے۔ گزشتہ دنوں جیو نیوز پر عائشہ احتشام کے پروگرام میں ایک بھارتی صحافی اوماشنکر سنگھ نے اقوام متحدہ میں برہان وانی کا نام لینے پر نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پاکستان کھلم کھلا دہشت گردوں کی حمایت کررہا ہے۔
جب میں نے پوچھا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس متنازع علاقے میں برہان وانی ایک قابض فوج کے خلاف مزاحمت کرتا ہے تو وہ دہشت گرد کیسے ہوگیا؟میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اوما شنکر سنگھ توں تڑاک پر آگیا تو میں نے پوچھا کہ بھگت سنگھ نے ایک انگریز پولیس افسر کو قتل کیا اور اسمبلی میں بم چلایا اسے بھارت میں حریت پسند کیوں کہا جاتا ہے؟ اگر بھگت سنگھ حریت پسند ہے تو پھر برہان وانی بھی حریت پسند ہے۔ بھارتی صحافی لاجواب ہوگیا لیکن اس واقعے کے بعد کئی پاکستانیوں نے مجھے پوچھا کہ بھگت سنگھ کون تھا اور آپ نے برہان وانی کو ایک غیر مسلم سے کیوں تشبیہ دی؟ ایک پولیس افسر نے کہا بھگت سنگھ تو غدّار تھا برہان وانی شہید کشمیر ہے۔ اس جملے پر میں سٹپٹا کر رہ گیا لیکن پھر برہان وانی کے والد مظفر وانی کا ایک انٹرویو سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ تاریخ میں میرے بیٹے کو بھی بھگت سنگھ کی طرح ایک حریت پسند کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مظفر وانی کی طرف سے بھگت سنگھ کے ذکر کے بعد کچھ پاکستانی کرم فرمائوں کے علم میں یہ لانا ضروری ہوگیا ہے کہ بھگت سنگھ کون تھے اور ان کو غدّار کیوں کہا گیا؟ آج میں اپنے ناقص علم کے مطابق آپ کو لفظ’’غدّار‘‘ کے پس منظر سے بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ کچھ لوگوں نے اس لفظ کو گالی بنادیا ہے لیکن بھگت سنگھ کے لئے یہ لفظ خراج تحسین تھا۔
لفظ غدّار دراصل غدّر سے نکلا ہے۔ غدّر کا مطلب بغاوت اور غدّار کا مطلب باغی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں غدّر کا لفظ1857ءمیں مقبول ہوا اور برطانوی حکومت نے1857ءکے غدّر میں حصہ لینے والوں کو غدّار کہنا شروع کردیا۔1913ءمیں کیلی فورنیا یونیورسٹی برکلے، سٹین فورڈ یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کچھ سکھ، ہندو اور مسلمان طلبہ نے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں غدّر پارٹی قائم کی۔ غدّر پارٹی کے قیام کا مقصد متحدہ ہندوستان میں مسلح جدوجہد کے ذریعہ برطانوی راج کا خاتمہ تھا۔ غدّر پارٹی نے سان فرانسسکو سے ہفت روزہ’’غدّر‘‘ کے نام سے ایک جریدے کا اجراء کیا جو بعدازاں گورمکھی میں بھی شائع ہوتا تھا۔ ہفت روزہ غدّر کی پیشانی پر واضح الفاظ میں لکھا ہوتا تھا ’’انگریزی راج کا دشمن‘‘ ۔1914ءمیں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو غدّر پارٹی نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ٹوکیو یونیورسٹی جاپان میں اردو کے استاد برکت اللہ بھوپالی کے ذریعہ کابل میں مقیم مولانا عبید اللہ سندھی سے بھی رابطہ کیا۔ 1915ءمیں غدّر پارٹی نے ایک جلا وطن حکومت قائم کی جس کا صدر راجہ مہندر پرتاپ، وزیر اعظم برکت اللہ بھوپالی اور وزیر داخلہ مولانا عبید اللہ سندھی کو بنایا گیا۔
غدّر پارٹی کے ارکان امریکہ اور کینیڈا سے ہندوستان آئے اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر برطانوی فوج میں موجود مقامی سپاہیوں کو بغاوت پر اکسانے لگے۔غدّر پارٹی کی قیادت نے لاہور کے علاقے میاں میر کی فوجی چھائونی اور فیروز پور کی فوجی چھائونی پر حملہ کرکے اسلحہ قبضہ میں لینے کا منصوبہ بنایا تاکہ دہلی پر حملہ کیا جائے لیکن لاہور میںغدّر پارٹی کے خفیہ مرکز پر چھاپہ مارکر کرتار سنگھ، حافظ عبداللہ، ہرنام سنگھ سیالکوٹی، بابورام اور دیگر کو گرفتار کرلیا گیا۔ بھگت سنگھ کے والد اجیت سنگھ بھی غدّرپارٹی میں شامل تھے۔ انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ سینٹرل جیل لاہور میں کرتار سنگھ اور حافظ عبداللہ وغیرہ پر مقدمہ چلا کر ان سب کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔غدّر پارٹی کے یہ بہادر قائدین بھگت سنگھ کا آئیڈیل تھے۔ بھگت سنگھ نے نوجوان بھارت سبھا قائم کی اور پھر ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہو کر انگریزی راج کے خلاف جدوجہد میں شریک ہوگئے۔ 1928ءمیں بھگت سنگھ نے ایک انگریز پولیس افسر کو قتل کردیا۔ 8اپریل1929ءکو بھگت سنگھ نے سینٹرل اسمبلی میں دو بم پھینکے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح اسمبلی میں موجود تھے لیکن وہ اس حملے میں زخمی نہ ہوئے۔ بھگت سنگھ کو گرفتار کرلیا گیا۔ جیل میں امتیازی سلوک کے خلاف بھگت سنگھ نے بھوک ہڑتال شروع کردی تو ایک تین رکنی ٹربیونل نے بھگت سنگھ کو عدالت میں پیش کئے بغیر ان کے غلاف مقدمے کی سماعت شروع کردی۔ 12ستمبر 1929ءکو قائد اعظم نے سینٹرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھگت سنگھ نے جو کیا اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن سوچا جائے کہ اس نے یہ سب کیوں کیا۔
انہوں نے بھگت سنگھ کے ساتھ ناانصافی کی مذمت کی اور اسے آزادی پسند قرار دیا۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ بار نے بھگت سنگھ کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے ٹریبونل کو غیر قانونی قرار دے دیا کیونکہ ٹربیونل کے ایک مسلمان جج کو ہٹا دیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ بار کے اس بیان پر علامہ اقبال نے بھی دستخط کئے۔23مارچ 1931ء کو 23سالہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو لاہور میں پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ یہی وہ سال تھا جب جموں و کشمیر میں تحریک آزادی نے زور پکڑا۔ اپریل 1931ءمیں مفتی محمد اسحاق جموں کے میونسپل پارک میں عید کا خطبہ دے رہے تھے۔ خطبے کے دوران انہوں نے فرعون کے بارے میں تنقیدی الفاظ کہے تو ایک ہندو انسپکٹر نے انہیں تقریر سے روک دیا۔ یہاں سے احتجاج شروع ہوا اور سرینگر پہنچا۔ سرینگر کی جامع مسجد میں انگریزوں کے خلاف تقریر کرنے والے ایک نوجوان عبدالقدیر کو گرفتار کرلیا گیا اور اس کو بھی بھگت سنگھ کی طرح غدّارقرار دیا گیا۔ عبدالقدیر کی گرفتار کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان مظاہروں میں’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘‘ کو ترنم سے گایا جاتا تھا۔ عبدالقدیر کے خلاف مقدمے کی سماعت سینٹرل جیل سرینگر میں ہورہی تھی۔ 13جولائی 1931ءکو اس جیل کے باہر کشمیریوں نے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین پر فائرنگ میں22کشمیری شہید ہوگئے اور یوں وہ تحریک شروع ہوئی جسے 14اگست1931ء کو علامہ اقبال نے موچی دروازہ لاہور کے جلسے میں تحریک آزادی قرار دیا۔ یاد رکھیئے، پاکستان1947ءمیں قائم ہوا اور کشمیریوں کی تحریک آزادی1931ءمیں شروع ہوئی۔ 13جولائی آج بھی کشمیریوں کا یوم شہداء ہے۔
انگریزی حکومت نے بھگت سنگھ اور عبدالقدیر جیسے حریت پسندوں کو غدّارکہا حالانکہ وہ ملک دشمن نہیں بلکہ اپنے ملک پر غیر ملکی قبضے کے خلاف تھے۔ پھر انگریزی فوج کی باقیات نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ اور افضل گرو کو غدّارقرار دے کر پھانسی پر لٹکایا۔ آج بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا برہان وانی کو غدّاراور دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔
ذرا سوچئے کہ 21سالہ برہان وانی اور 23سالہ بھگت سنگھ میں کیا فرق ہے؟ صرف نام اور زمانے کا فرق ہے۔ دونوں غیر ملکی تسلط کے خلاف نبرد آزما تھے۔ دہلی میں بم چلانے والے بھگت سنگھ کے نام پر دہلی میں ایک یونیورسٹی قائم ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پلوامہ اور سرینگر میں بھی برہان وانی کے نام پر تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے۔ سامراجی طاقتیں اور ان کے ایجنٹ ہر دور میں حریت اور آزادی کے متوالوں کو غدّار قرار دیتے ہیں لیکن تاریخ ان غدّاروں کو ہیرو بنادیتی ہے اور انہیں غدّار قرار دینے والے وطن دشمن کہلاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے