ہوم << شریف خاندان کا آخری باب-ہارون الرشید

شریف خاندان کا آخری باب-ہارون الرشید

m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
سید الطائفہ جنیدِبغدادؒ نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا... حکمرانی مر جاتی ہے‘ زندہ فقط درویشی رہتی ہے۔
کس ٹھاٹ سے لیگی لیڈر نے تحریک انصاف کی ریلی والوں کے لیے گاڑیوں کا بندوبست کرنے اور مسافروں کو کرایہ عنایت کرنے کی پیشکش کی تھی ۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے فرمایا : عمران ایک بے روزگار آدمی ہے۔ اس کے بعد سے افتاد کا آغاز ہے۔
آزمائش کو دعوت دینے سے روکا گیا ۔ یہ تکبّر ہے‘ اپنی تقدیر پر گرفت کا دعویٰ۔ محترمہ نے جب بے روزگاری کی بات کی تو ایک اعتبار سے یہ حریف لیڈر کی ‘غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔ اپنی دولت مندی پر اظہارِ فخر۔
سرائیکی پٹی میں بسنے والے خاکوانی پٹھان خوب لوگ ہیں مہذب اور مرتّب۔ ایک تو وہی اپنے عامر خاکوانی‘ پھر تحریکِ انصاف کے اسحاق خاکوانی ۔ ناچیز کے زیادہ بے تکلف دوست۔ کبھی کبھی میں ان سے پوچھتا ہوں‘ پشتونوں کے اس قبیلے میں‘ ایسی عاجزی کہاں سے آ گئی؟ جواب میں‘ وہ میرے قبیلے سے منسوب جُز رسی کا ذکر کرتے ہیں۔ کل ان سے میں نے پوچھا : خاکوانی صاحب ‘ اگر ارشاد ہو تو آپ کی مہم کے لیے تھوڑا سا چندہ پیش کروں۔ بولے : تم لوگوں سے تو ایک روپیہ بھی غنیمت ہے۔ اس پر میں نے سوال کیا کہ خاکوانیوں نے کس قدر عطیات دیئے ہیں؟
بیس برس ہوتے ہیں کہ عیدالفطر کے لیے رحیم یار خان جاتے ہوئے خالد مسعود خان سے ملاقات کے لیے ملتان میں رکا۔ اب تو ماشااللہ بہت فراخ اور جمیل ہے‘ ان کا مکان تب مختصر سا تھا۔ شب بسری کے لیے وہ مجھے اپنے دوست اطہر خاکوانی کے ہاں لے گئے۔کشادہ مزاج لوگ‘ کشادہ صحن میں تراویح کا اہتمام۔ سحری کا کھانا ٹھیک ویسا ہی‘ جیسا کہ بی بی جی‘ میری والدہ مرحومہ بنایا کرتیں۔ چپڑی ہوئی روٹی اور انڈے کا سالن۔
خالد مسعود خاں نے ایک واقعہ سنایا : چھوٹے بھائی اویس خاکوانی نے اطہر صاحب سے ایک ملازم کی شکایت کی۔ درجن بھر ملازموں سمیت سبھی کے لیے گھر میں کھانا اکٹھا پکایا جاتا‘ دیگ میں۔ ملازم نے وضاحت کی‘ اویس سائیں نے کہا : تمہارے ہاں مہمان بہت آتے ہیں۔ میں نے جواب دیا : لالہ! اللہ نے تہاکوں جہڑے پیسے ڈتے ہن‘ اناں دے وچ ساڈا وی حصہ اے‘ تیڈی شکل ساڈے کولوں اچھی تے نئیں۔ ''اللہ نے جو روپیہ تمہیں دیا ہے‘ اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ تمہاری شکل‘ ہم سے اچھی تو نہیں‘‘۔ مقدمے کا فیصلہ ملازم کے حق میں ہوا۔
روپے پیسے اور اقتدار پہ فخر؟ دولت آزمائش ہے اور اقتدار بھی۔ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا : حکمرانوں سے شاعر اچھے کہ یادوں میں مستقل جگمگاتے رہتے ہیں۔ عالی مرتبتؐ کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب باردگر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باردگر آسودگی کے لیے دعا کی درخواست کی۔ فرمایا : اے میرے چچا‘ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے اس نے عافیت سے بہتر کوئی دعا نہیں مانگی۔ بیچارے امرا‘ جن کے پاس دولت ہے‘ اقتدار ہے‘ دور دور تک مگر عافیت کا سایہ تک نہیں۔
اخبار نویسوں کو موقع ملتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں جھانک سکیں۔ سولہ برس ہوتے ہیں‘ ملک کے امیر ترین آدمی کا حال پوچھا ‘ جس کے بیرون ملک اثاثے آٹھ ارب ڈالر کے ہیں اور اسی قدر وطن میں ۔ بولا : جب بھوک بہت لگتی تھی‘ روپیہ نہ ہوتا۔ آج دولت کی فراوانی ہے مگر بھوک نہیں لگتی۔ دولت کے باوجود آدمی اگر سکھ کی نیند سوئے‘ اور عزت نصیب ہو تو خوش بخت ہے۔ نسخہ اس کا بتا دیا گیا ہے : دن اور رات‘کھلے اور چھپے‘ اللہ کی راہ میں وہ خرچ کرتے ہیں۔ غم اور خوف سے وہ آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔ صوفی نے کہا : زندگی بھر‘ اہل دنیا میں سے کسی پر میں نے رشک نہ کیا۔ ایک دن اس فرمان پر غور کرتے ہوئے خیال آیا۔ فراوانی سے‘ مالک اگر دولت عطا کرے اور خرچ کی توفیق بھی تو کتنی آسانی سے مراد برآئے ۔ خوف اور غم سے آزادی کی نوید کا مطلب ہے ‘مقام ولایت‘ اللہ کی دوستی۔فرمایا : اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ تاریکی سے وہ انہیں روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان کفار کا دوست ہے‘ روشنی سے وہ انہیں تاریکی کی طرف لے جاتا ہے۔
اسلامک پارٹی آف نارتھ امریکہ کے بانی اور معمار وجیہ وشکیل سیاہ فام محمد مصطفی نے ایک دن مجھ سے کہا : اہل ایقانConfusion سے Clearity کی طرف جاتے ہیں۔
سکندر اعظم یونان کے درویش دیوجانس کلبی کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ کہا : میں آپ کی کیا خدمت کروں؟ ''تُم؟‘‘ دیوجانس نے کہا ''تم‘میرے غلاموں کے غلام؟‘‘ سکندر حیرت زدہ رہ گیا۔ کہا : اپنی خواہشات کے تُم غلام ہو‘ جب کہ میں نے اپنی خواہشات پر غلبہ پا کر انہیں اپنا غلام بنا ڈالا۔
دانشور تو اسے امریکی سازش کہتے ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک عوامی تحریک برپا تھی۔ ایک دن‘ ایک عجب عالم جلال میں انہوں نے کہا : میں کمزور ہوں لیکن میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ تب اس زوال کا آغاز ہوا‘ جس نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا۔ یہ الگ بات کہ لوگ غور ہی نہیں کرتے۔ سوچتے ہی نہیں کہ بھٹو خاندان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ وہ کنبہ‘ محترمہ نصرت بھٹو نے جس کے بارے میں کہا تھا: Bhuttos are born to rule ''بھٹو خاندان کے بچے حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ بھٹو اب کہاں ہیں؟ زرداری ہیں‘ شریف ہیں اور وہی افتادگان خاک۔
گیارہ برس گزر جانے کے بعد‘ فوجی حکمران نے ٹھیک وہی الفاظ کہے: ''میں کمزور ہوں مگر میری کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ فاروق گیلانی مرحوم نے کہا :جنرل محمد ضیاء الحق کا اقتدار ختم ہوا۔
کبریائی اللہ کی چادر ہے۔ شریف خاندان کس گمان میں ہے؟ اگر کوئی سوال کرے کہ عمران خان کی حکمتِ عملی کیا درست ہے؟ کیا وہ جیت جائے گا اور کیا نواز شریف سے نجات کلفت کا خاتمہ کر دے گی تو میرا جواب نفی میں ہے۔ شواہد یہ ہیں کہ نوازشریف ابھی اقتدار میں رہیں گے۔ چلے بھی گئے تو ملک کا مسئلہ حل نہ ہوگا۔ عمران خان کی ٹیم ان سے بھی کمتر ہے۔ امریکی اور عرب نواز شریف کے ساتھ ہیں‘ چین کو وہی گوارا ہیں۔ ملک کے کاروباری اور زمیندار طبقات بھی انہی کے ہم نفس ہیں۔ عمران کاذہن غیرسیاسی ہے اور مشیر ناقص۔ اس کی پارٹی بدنظمی کا شکار ہے اور اس کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں۔
اس کے باوجود کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ نسبتاً بہت کم سیاسی اہلیت کا آدمی شریف خاندان کے لیے ایک عظیم چیلنج بن چکا۔ حکمران طبقات کی لوٹ مار کا تاثر اس نے ایسا اجاگر کردیا کہ کبھی نہ تھا ۔ عمران خان اگر سیاست ترک کردے یا خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تب بھی وہ لاکھوں کارکن سو نہیں جائیں گے‘ جو اس کے طفیل سیاست میں آ چکے ۔ شریف خاندان کو اب کبھی قرار حاصل نہ ہوگا۔ عسکری قیادت یہیں ہے‘ آزاد اخبار نویس یہیں ہیں اور اس خاندان کے کارنامے سامنے افق پر جگمگا تے ہیں۔ مزید برآں اب عدالتِ عظمیٰ میں سماعت کا آغاز ہے۔
پاناما لیکس میںسپریم کورٹ انصاف کے سوا کیا کرے گی؟ کسی بھی ایسے معاملے میں عدل کے سوا وہ کیا کر سکتی ہے؟ شریف خاندان اگر بے گناہ ہے تو سبحان اللہ۔ قصوروار ہے تو بچ کر کہاں جائے گا؟ کبھی کوئی اور بچا ہے کہ وہ بچ نکلیں گے؟
اپوزیشن کا مذاق اڑایا جائے تو تحرّک اس میں بڑھ جاتا ہے۔ عمران خان کے کارکن اب زیادہ مستعد ہیں۔ عطیات بڑھ گئے اور خود اس نے چیلنج قبول کرلیا۔
ماہ جون میں دوپہر کا سورج سر پہ چمکتا ہے تو لگتا ہے کہ دن کبھی نہ ڈھلے گا‘ تمازت سے نجات کبھی نہ ہوگی۔ سورج مگر ڈوب جاتا ہے‘ جھٹ پٹے کے بعد سیاہ رات نمودار ہوتی ہے۔ شریف خاندان کے لیے یہ شب نمودار ہونے والی ہے ۔دولت کے ڈھیر اُسے بچا نہیں سکتے۔ ایک بیروزگار کے ہاتھوں نہ مارے گئے تو کوئی اور سیاسی طور پر انہیں ہلاک کر دے گا۔
سید الطائفہ جنیدِبغدادؒ نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا...حکمرانی مر جاتی ہے‘ زندہ فقط درویشی رہتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment