سٹینڈفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈو کا خیال ہے کہ’’ دہشت گردی میں عام آبادی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے، لوگوں کے خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ و آرام دہ دنیا کو خار زار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘
دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہم سب کی واقفیت ہے اور پاکستانی اسے کئی بار سن چکے ہیں۔ ہم دہشت گردی کو قرآن مجید کی رو سے فساد فی الارض سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اسلام بمعنیٰ سلامتی ہے۔ پیغمبر اسلام رحمۃ اللمسلمین نہیں بلکہ رحمۃ اللعالمین بن کر آئے۔ اسلام ساری دنیا میں امن وسلامتی کا داعی ہے۔ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو امن دیتا ہے وہیں غیر مسلموں کے ایسے حقوق رکھے ہیں جن سے ان کی جان، مال، عزت اور آزادی محفوظ رہتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ خبردار جس نے ذمی کافر پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا، اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لیا یا اس سے کوئی تھوڑی سی چیز بھی بغیر اس کی رضا کے لی تو کل قیامت کے دن میں ایسے شخص سے جھگڑوں گا۔جس نے کسی ذمی کافر کو اذیت پہنچائی تو میں اس کا مخالف ہوں اور جس کا میں مخالف ہوا قیامت کے دن اس کی مخالفت ہو گی۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے’’ جو کسی جان دار (انسان یا جانور) کو مْثلہ کرے (شکل و صورت یا حلیہ بگاڑے) اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور بنی آدم سب کی لعنت ہے۔‘‘
مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ایشیا کے علاقوں میں غالب اکثریت اسلام کے ماننے والے ہیں جبکہ چین، مشرقی یورپ اور روس میں بھی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی آباد ہے۔مسلم مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ میں آباد ہے۔ جہاں عیسائیت کے بعد سب سے بڑا مذہب اسلام ہے اور مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت جلد اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ مغربی ممالک میں دیگر مذاہب کے لوگ بڑی تیزی سے اسلام کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک اگر ایک طرف اسلام کی اشاعت سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف عالم اسلام میں معدنیات کے خزانے ان کی حریصانہ نظروں میں ہیں۔ سید عاصم محمود 1990-91 کے سالوں کے متعلق لکھتے ہیں’’ابھی مغرب اور القاعدہ کا باقاعدہ تصادم شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے ناپسندیدگی و نفرت کے ملے جلے جذبات پائے جاتے تھے۔‘‘ تاہم اس وقت ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ لیکن اس وقت یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اسلام مخالفت میں جہاں انفرادی طور پر لوگ مصروف عمل ہیں وہیں باقاعدہ طور پر یورپ میں اسلام مخالف تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جو وقتا فوقتااسلام کے مختلف اصولوں پر طعن و تشنیع اور پابندیوں کا مطالبہ کرتے اور اسلام کو دہشت گرد مذہب گردانتے نظر آتے ہیں۔ ہالینڈ کا اسلام مخالف Greet Wilders جو کہ چوتھی بڑی سیاسی پارٹی کا بانی اور سربراہ ہے، اٹھتے بیٹھتے اسلام مخالف زہر اگلتا رہتا ہے اور قرآن مجید کو ہٹلرکی آپ بیتی سے تشبیہ دیتا ہے (نعوذباللہ )۔
اسلام اور اس کے ماننے والے امن کے داعی ہیں جبکہ بڑے بڑے حادثات میں غیر مسلم ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہوتے ہیں۔ اگر ہم پہلی جنگ عظیم کی بات کریں جو 28جون 1914ء کو آسٹریا ہنگری کے ولی عہد اور شہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ کو سلاو دہشت گرد کی طرف سے گولی مارنے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ میں 1 کروڑ ہلاک ہوئے. ’’پچھلے ایک سو برس میں ہوئی لڑائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ‘‘ اور دو کروڑ دس لاکھ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ یکم جولائی 1916ء کو ایک دن کے اندر اند ر 57 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جرمنی کے 17 لاکھ 73ہزار سے زائد، روس کے 17 لاکھ کے قریب اور فرانس کو اپنی 16 فیصد فوج سے محروم ہونا پڑا۔ کیا یہ جنگ اسلام اور اسلام کے نام لیواؤں نے انسانیت پر مسلط کی تھی؟ دوسری جنگ عظیم میں 13 سے 15 فروری 1945ء تک 3 ہزار 900 ٹن کے قریب بارود اور دیگر دھماکہ خیز مواد انسانیت پر برسایا گیا۔ یہ جنگ بھی اسلام نے انسانیت پر مسلط نہیں کی تھی۔ 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے والا ایڈولف ہٹلر بھی مسلمان نہیں تھا۔ یورپ اور جرمنی میں آج بھی ہٹلر کی حمایت اور ہولوکاسٹ کی مخالفت کرنا جرم ہے۔ شاہ لیوپولڈ ثانی کے ہاتھوں مرنے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ 1880ء سے 1920ء کے دوران اس کے زیر قبضہ علاقے کی 50 فیصد آبادی کم ہوئی۔ شاہ کے جبری مزدوری فلسفے کو بعد میں فرانس، جرمنی اور پرتگال نے اپنے نوآبادیاتی نظام میں اپنایا۔ میسولینی ایتھوپیا پر قبضہ کے دوران وہاں کی 7فیصد آباد ی کو قتل کیا اور 1936ء میں ہٹلر کے ساتھ اتحاد کے بعد جنگ عظیم میں کود پڑا اور جوزف سٹالن کے ہاتھوں 8 لاکھ افراد کو موت دی گئی، جبری کیمپوں میں 17لاکھ کے قریب افراد مارے گئے اور جبری ہجرت کے دوران مرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ 90 ہزار سے زائد تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے چین، کوریا، گوئٹے مالا، انڈونیشیا، کیوبا، بلجن کانگو، پیرو، لاؤس، ویتنام، کمبوڈیا،گریناڈا، سوڈان، یوگوسلاویہ، افغانستان، عراق اور شام سمیت دیگر ممالک کے ساتھ جنگ کی یا پھر اتحادی ہونے کی صورت فضائی بم باری میں حصہ لیا۔ مصنف ایلیٹ لیٹن نے نکتہ اٹھایا کہ 'تناسب کے اعتبار سے امریکہ، دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قاتل پیدا کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان قاتلوں کے ذاتی، سیاسی اور مذہبی نظریات ہوں مگر یہ نہ تو کسی منظم سیاسی یا مذہبی جماعت کے رکن ہوتے ہیں اور نہ ان کی سرگرمیاں کسی پارٹی کے ایجنڈے کا حصہ، جیسا کہ آج کل دہشت گردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
ایرن ملر کا کہنا ہے کہ’’2004ء سے 2013ء کے درمیان ہونے والے تمام دہشت گرد حملوں میں سے نصف حملے عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہوئے اور 60 فی صد ہلاکتیں انھی ممالک میں ہوئیں اور یہ تینوں مسلم ممالک ہیں۔‘‘ دنیا میں دہشت گرد حملوں میں مرنے والے 95 فی صد مسلمان ہیں جیسے دعووں پر شک ہے، تاہم ان کے خیال میں یہ دعویٰ سچ سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ ایرن ملر نے اس حوالے سے کہا’’مسلم اکثریتی ممالک میں زیادہ تر حملے مرکوز ہونے کی صورت حال میں یہ دعویٰ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔‘‘ 2004ء سے 2013ء کے درمیان برطانیہ میں 400 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر شمالی آئرلینڈ میں ہوئے لیکن زیادہ تر میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ اسی درمیان امریکہ میں 131 حملے ہوئے اور 20 سے بھی کم ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس میں اس مدت میں 47 حملے ہوئے جبکہ اس دوران عراق میں 12 ہزار حملے ہوئے اور ان میں 8ہزارسے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ذرا مزید ماضی بعید میں جائیں تو یورپی ممالک اور شمالی امریکہ باقی دنیا کو سینکڑوں برس سے تشدد، جنگ وجدل، قتل وغارت گری اور دیگر ہتھکنڈوں سے فتح کیے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے فلپائن پر چڑھائی کی اور فلپائنی عوام کو قتل کیا، انگلستان نے ہندوستان پر قبضہ کیا، فرانس نے الجزائر پر چڑھائی کی اور بیلجیئم نے افریقہ کے لاکھوں افراد کو قتل کیا. یورپ کی تاریخ تو خانہ جنگی سے بھرپور تاریخ ہے۔ برطانیہ نے واشگٹن کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ سترہویں صدی کی ایک جنگ میں جرمنی کی ایک تہائی آبادی ہلاک کر دی گئی تھی اور بیسیویں صدی کے بارے میں توکچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جس میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم اور ہٹلر، میسولینی اور جوزف سٹالن جیسی شخصیات پیدا ہوئیں۔ افغانستان کے اوپر مسلط ہوئی جنگ میں 1ل اکھ 73ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور حملہ کرنے والا کوئی اور نہیں امریکہ اور نیٹو اتحاد ہے۔ اس سے پہلے افغانستان پر روس گرم پانیوں کی تلاش میں یلغار کرچکا ہے۔ عراق پر امریکی حملے کی صورت میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے محتاط اندازے کے مطابق 1لاکھ 10ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں امریکہ و روس جیسی طاقتوں کی پراکسی وار سے 4 لاکھ 70کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے اور مہاجرین کی تعداد اس کے ماسوا ہے جو در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور بھوک،گرمی، سردی اور بیماری سے جوہلاکتیں ہوئیں وہ الگ ہیں۔
پاکستان، سعودی عرب، اور ترکی سمیت دیگر اسلامی ممالک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیاں اس کے علاوہ ہیں۔ جس میں نام نہادمسلمان (انہیں مسلمان کہنا بھی لفظ مسلمان کی توہین ہے ) جنہیں پورے عالم اسلام میں سے کسی بھی اسلامی رہنما یا معروف اسلامی سکالر کی حمایت حاصل نہیں ہے ملوث پائے جاتے ہیں۔ جن کے متعلق خبریں اور انٹیلی جنس رپورٹس کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ داعش کے متعلق تو میڈیا میں خبریں آچکی ہیں کہ اس کو بنانے میں امریکہ و مغرب کا کردار ہے۔ فلسطین وکشمیر میں یہود و ہنود کس کی ملی بھگت سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں؟ فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور کشمیریوں کی حمایت تک کرنے والوں کو بھارت دہشت گرد ڈکلیئر کروا دیتا ہے۔ پچھلے 75دن سے بھارت کشمیر میں مسلمانوں پر جدید ترین ٹیکنالوجی آزما رہا ہے۔ اسرائیلی ڈرونز، پیلٹ گنز اور دیگرجدید اسلحہ ان کشمیری حریت پسندوں پر چلایا جا رہا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ برما میں مسلمانوں کو بدھ مت گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہیں، جہاں بھر کا ظلم ان پر برما کی حکومت روا رکھے ہوئے ہے،گلیوں، بازاروں اور گھروں میں برمی مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل بیت المقدس کے محافظ نہتے فلسطینیوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں اکٹھا کرکے شہید کر رہا ہے۔ کبھی غزہ کا پانی بند کردیا جاتا ہے تو کبھی عین سکول کی چھٹی کے وقت بمباری کرکے معصوم فلسطینی بچوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ دنیا میں فساد کی جڑ اسلام کے نام لیوا بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مسلم ممالک میں خانہ جنگی کروائی۔ کہیں خود جنگ مسلط کی اور کہیں اپنے ایجنٹس کے ذریعے خانہ جنگی کروادی۔ عالم اسلام اس وقت جس اضطراب کی کیفیت سےگزر رہا ہے، اس میں عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی روش چھوڑنی ہوگی۔ دہشت گرد کسی بھی روپ میں ہو، اسلام پسند بالکل نہیں ہوسکتا۔ دنیا پر جو جنگ مسلط ہوچکی ہے یا مستقبل قریب میں ہوگی اس میں عالم اسلام کی پالیسیوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی ہٹ دھرمی اور عالم اسلام کی دولت پر قبضہ کرنے کی خواہش اس کی بنیادی وجہ ہوگی۔ جدید ترین جنگوں میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم ممالک کو اپنے میڈیا کو اس حوالے سے تیار کرنا ہوگا تاکہ اسلام اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ذرائع ابلاغ اپنا کردار ادا کرسکے۔ عالم اسلام کو اتحاد عالم اسلامی کی جانب جلد سے جلد بڑھنا ہوگا تاکہ جو جنگ اسلام کے نام پر حرمین شریفین کے دروازوں پر پہنچ چکی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔
تبصرہ لکھیے