ہوم << آپ ہمیں روٹی پھینک کر کیوں دیتے ہیں - صائمہ بتول

آپ ہمیں روٹی پھینک کر کیوں دیتے ہیں - صائمہ بتول

ڈوبتا سورج اس کے جھریوں زدہ چہرے پر چند لکیروں کا اضافہ کر رہا تھا۔ جونہی اس کی نظر کسی بچے کے زرد چہرے پر پڑتی اس کی مامتا گویا چھلنی ہو جاتی اور گھر کے در و دیوار کی خستہ حالی کی کہانی بچوں کی چیخوں کی زد میں آ کر دب جاتی۔ لیکن وہ جس دور میں زندہ تھی اس دور کو انسانیت کی رہنمائی کرنا تھی، قیامت تک رہنمائی۔ اسے ہمت دکھانی تھی۔ اپنے شکستہ وجود کو سمیٹ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کئی دن کے سرد چولہے میں چند لکڑیاں جھونک کر آگ جلائی تاکہ چولہے سے اٹھتا دھواں بچوں کی بھوک کو تسلی دے۔ لکڑیاں چنتے ہوئے وہ بچوں کی نظروں سے بچا کر کچھ پتھر بھی اٹھا لائی تھی۔ وہ پتھر مٹی کی ہنڈیا میں ڈال کر اس نے چولہے پر چڑھا دیے، تمام کرب و الم کو مسکراہٹ میں چھپا کر بولی، بچو! ابھی کھانا تیار ہو جائے گا اور تم سب پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوگے۔ تین دن کے مسلسل فاقے کے بعدچولہے سے اٹھتا دھواں اور اس پر چڑھی ہنڈیا بچوں کے زرد چہرے پر مسکراہٹ لے آئی۔ بچوں کو مسکراتا دیکھ کر اس کی مامتا کو بھی سکون آ گیا لیکن اگلے ہی لمحے ہنڈیا میں پکنے والے پتھروں کا خیال اس کے قرار کو کرب میں بدلنے کو کافی تھا۔
کھانے کی امید نے بچوں میں ایک توانائی بھر دی تھی اور وہ خوشی میں کھیلنے لگے تھے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کھیل پائے تھے کہ آنتیں بھوک سے مڑنے لگیں اور بھاگ کر ماں کے پاس آ کر پوچھتے کہ کھانا کب پکے گا۔ آنکھوں کی نمی کو پلکوں سے پیچھے دھکیلتے ہوئے وہ مسکرا کے انھیں تسلی دیتی، بس تھوری دیر میرے بچے! لیکن کب تک دن ڈھلتے ڈھلتے آخر غروب ہو گیا۔ ہر طرف تاریکی چھا گئی۔ رات کے سناٹے میں بچوں کی سسکیوں کی آوازیں اس کے دل پر آرے کی طرح چلنے لگیں۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو بچوں پر ہی برس پڑی۔ بھوک کے ستائے بچے ماں کی ڈانٹ سن کر زور و شور سے رونے لگے یہاں تک کہ ان کے رونے کی آواز گھر سے باہر جانے لگی۔ یکایک گھر کا دروازہ زور سے بجا۔ وہ دروازے پر پہنچی تو اپنے سامنے ایک پر ہیبت اجنبی کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ ”رات کے اس پہر بچوں کو کیوں رلاتی ہو؟“، اجنبی کی بارعب آواز گونجی۔ اجنبی کے سوال میں رعب کے ساتھ کچھ ایسی شفقت تھی کہ جس ہمت کی دیوار کو وہ بچوں کے سامنے تھام کر کھڑی تھی، دھڑام سے گر گئی، کانپتے لہجے مین بولی، ”حاکم وقت کی جان کو روتے ہیں، تین دن سے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، ان کی تسلی کو ہنڈیا میں پتھر ڈال کر چولہے پر چڑھا رکھا ہے تاکہ پرامید ہو کر کم از کم سو ہی جائیں، لیکن آج تو نیند بھی ان کی آنکھوں سے روٹھ گئی ہے“۔ اس کے الفاظ نے اجنبی کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا۔ یہاں تک کہ اسے دروازے کا کواڑ پکڑ کے خود کو سہارا دینا پڑا۔ اگلے لمحے اجنبی پلٹا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا رات کی تاریکی میں غائب ہوگیا۔ اس نے پلٹ کر بچوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور آنسو بہت تواتر سے اس کے چہرے پر بہنے لگے۔
دروازہ دوبارہ بجا۔ وہی اجنبی کاندھے پر ایک بڑی بوری اُٹھائے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ حیرت سے اجنبی کو دیکھنے لگی۔ اجنبی اندر آنے کی اجازت چاہ رہا تھا۔ اجنبی کی پر ہیبت اور شفیق شخصیت میں نہ جانے ایسا کیا اثر تھا کہ وہ بغیر کسی توقف کے اس کے سامنے سے ہٹ گئی۔ اجنبی نے جلدی سے بوری کو کھولا، اسے آٹا گوندھنے کی ہدایت دیتے ہوئے خود سامان خورد و نوش نکالنے لگا۔ وہ تیزی سے سامان نکالنے کے ساتھ ساتھ اسے کھانا پکانے کی ہدایت دیتا جا رہا تھا اور وہ کسی ہپناٹائز کیے ہوئے معمول کی طرح اس کی ہدایت پر عمل کرنے لگی تھی۔ سامان نکال کر وہ جلدی جلدی سبزی کاٹنے لگا۔ جس روانی سے اس کی چھری سبزی پر چل رہی تھی اسی روانی سے اس کی آنکھوں کا جھرنا آنسوؤں کی برسات کر رہا تھا۔ بچے حیرت کی تصویر بنے اس اجنبی کو دیکھ رہے تھے جو ایک طرف تو کسی ہمالہ کی طرح مظبوط اور سنگلاخ نظر آتا تھا، دوسری طرف اس کے آنسو اس کے دلی گداز کو ظاہر کر رہے تھے۔ جیسے ہی آگ ذرا ہلکی ہونے لگتی وہ اپنے لمبے وجود کو سمیٹ کر زمین کے ساتھ لگ کر چولہے میں پھونکیں مارنے لگتا مبادا کھانا پکنے میں لمحے بھر کی دیر ہو جائے۔ ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتا جس کو دیکھ کر بچے ہنسنے پر مجبور ہو جاتے۔ اب کھانا بس پکنے ہی والا تھا۔ اس کی تسلی ہوئی تو حاکم وقت کی شکایت کے دفتر کھول کر بیٹھ گئی، ”وہ حاکم ہے، اسے ہمارا کفیل بنایا گیا ہے تو پھر وہ ہمارے دکھوں سے ناواقف کیوں ہے؟“ اس کے سوالات اجنبی کے دماغ پر کوڑے کی طرح برس رہے تھے۔ یہاں تک کہ اجنبی کا پورا وجود ان ضربوں سے لرزنے لگا۔
لو جی! کھانا پک گیا! جب اس نے اعلان کیا تو بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ اجنبی کبھی پلیٹ میں کھانا ڈالتا، کبھی ایک بچے کے منہ میں نوالہ ڈالتا کبھی دوسرے کے۔ یہاں تک کہ بچے خوب سیر ہو گئے۔ ان کے زرد چہرے اب بہت پر سکون لگ رہے تھے۔ انھیں پر سکون دیکھ کر اجنبی بھی بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگی، ”تم اس قابل ہو کہ تمھیں ہمارا حاکم بنایا جائے“۔ اجنبی ہاتھ باندھ کر اٹھ کھڑا ہوا، اور التجا کرنے لگا کہ حاکم وقت کو معاف کر دو۔ لیکن وہ تنک کر بولی، ”نہیں، ہرگز نہیں، میں اس شخص کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ روز قیامت اس کا گریبان ہوگا اور میرا ہاتھ، میں اس سے اپنے بچوں کی بھوک، ایک ایک سسکی کا حساب مانگوں گی“، یہ سن کراجنبی کا رنگ متغیر تھا۔ لرزتے وجود سے بولا۔ جو سزا دینا چاہو اسی دنیا میں دے لو، خدا را میں حاضر ہوں، روز قیامت معاف کر دینا۔ اس کی زبان گنگ ہوگئی، اظہار تشکر میں اس کے آنسو زبان بن گئے۔
آج ایک فوٹیج نظروں سے گزری جس میں ایک آٹھ دس سالہ بچی وزیراعظم سے پوچھ رہی تھی
”آپ ہمیں روٹی پھینک کر کیوں دیتے ہیں.“
اور وزیر اعظم اس معصوم سوال پر لاجواب ہو کر رہ گئے تو حضرت عمر کے زمانے کا یہ واقعہ کسی فلم کی طرح میری نظروں میں چلنے لگا۔ جی ہاں! وہی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جن کے بارے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.

Comments

Click here to post a comment