ہوم << خواب آنکھوں میں رہنے دو - جہانگیر بدر

خواب آنکھوں میں رہنے دو - جہانگیر بدر

جہانگیر بدر میں اپنی فائل لے کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جب چوتھی منزل تک پہنچا توتھک چکا تھا۔ میں نے جس عدالت میں جانا تھا وہ اسی چوتھے فلور پر تھی۔ ویسے یہ عمارت چھ منزلہ ہے۔ برقی سیڑھیاں بھی موجود ہیں لیکن وہاں رش اتنا ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا ہے ہمت کرکے سیڑھیاں ہی چڑھ لی جائیں تو بہتر ہے۔ میں ایل ڈی اے پلازہ اسلام پورہ لاہور کی بات کر رہا ہوں جہاں دیوانی اور فیملی عدالتیں ہیں۔
اس عدالت کے سامنے پہنچنے کے بعد جہاں میرے مقدمے کی آج پیشی تھی، میں نے سوچا مقدمے میں پیش ہونے سے پہلے تھوڑا سا آرام کرلوں۔ میں ابھی وہیں تھا کہ میری نظر پانچویں فلور کو جانے والی سیڑھیوں پر پڑی۔ ایک لڑکی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے اور اس سے ایک سیڑھی نیچے ایک پانچ چھ سال کی بچی اس لڑکی کی گود میں سر رکھ کر سو رہی ہے۔ لڑکی کے چہرے پر اداسی، افسوس اور تھکاوٹ عیاں تھی لیکن اس کی گود میں سوئی ہوئی بچی فرشتہ لگ رہی تھی۔ لڑکی حسرت کی تصویر لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا جیسے ان کی چمک کہیں کھو گئی ہو اور خواب کسی نے چھین لیے ہوں۔ میں کافی دیر اس ماں بیٹی کو دیکھتا رہا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں کیوں آئی ہوں گی۔ لیکن پھر میں نے سوچا آخر پوچھ تو لوں شاید اس کی کوئی مدد کر سکوں کیوں کہ وکالت کرتے ہوئے جتنا بھی عرصہ گزر چکا ہے، مجھے اس ماں بیٹی سے زیادہ کسی نے متاثر نہیں کیا۔
میں اس کے پاس گیا۔ سلام کیا۔ لڑکی نے سلام کا جواب دیا۔ میں نے پوچھا آپ یہاں سیڑھیوں پر کیوں بیٹھی ہیں۔ سامنے کرسیاں اور بنچیں پڑی ہیں وہاں بیٹھ جائیں اور بچی کو کسی بنچ پر سلا دیں۔ اس نے جواب دیا کہ جب وہ آئی تھی تو اور کہیں جگہ نہیں ملی اس لیے یہاں بیٹھ گئی۔ اس کی بیٹی کو نیند آگئی تو پھر وہاں سے نہیں اٹھی۔ میں نے پوچھا آپ کا کوئی مقدمہ ہے؟ اس نے کہا ہاں اور وہ اپنے وکیل کا انتظار کر رہی ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنے وکیل کا انتظار کر رہی ہے تو مجھے اور بھی افسوس ہوا کہ پتا نہیں اس کا وکیل کہاں ہوگا اور کب آئے گا۔خواہ مخوا انتظار کروانا اور لوگوں کو بلا وجہ عدالتوں میں روکے رکھنا، ہمارے بہت سارے وکیل بھائی اسی کوحقیقی وکالت سمجھتے ہیں۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟۔ اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ایسے کیوں دیکھ رہی ہے۔ اس نے شاید یہی سوچا ہوگا کہ میں فیس کے چکر میں ہوں۔ وہ ابھی مجھے دیکھ ہی رہی تھی کہ میں بولا دیکھیں آپ کی بیٹی کو اس طرح سوتے ہوئے دیکھ کر مجھے ترس آگیا۔ آپ بتائیں میں آپ کی اگر کوئی مدد کر سکا تو مجھے خوشی ہوگی۔ اگر آج صرف تاریخ لینی ہے تو میں یہ کر سکتا ہوں، اس کے بعد آپ گھر چلی جائیں۔
اس نے کہا کہ نہیں تاریخ نہیں لینی، آج اپنی بیٹی کی اس کے باپ سے ملاقات کرانی ہے اور پچھلے تین مہینے کا خرچہ نہیں ملا، وہ بھی لینا ہے۔ وکیل صاحب نے کہا تھا کہ وہ آج کی پیشی پر ضرور خرچہ لے کر دیں گے۔ انھی کا انتظار کر رہی ہوں۔ آپ کا شکریہ۔ میں نے سلام کیا اور اپنے مقدمے میں پیش ہونے چلا گیا۔ میں واپس آیا تو وہی لڑکی ایک وکیل صاحب کے پیچھے جا رہی تھی، اس نے اپنے بیٹی کو اٹھایا ہوا تھا اور اسے بار بار جگانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ بچی مشکل سے آنکھیں کھولتی، سر اوپر اٹھاتی اور پھر اپنی ماں کے کندھے پر گر پڑتی اور آنکھیں بند کر لیتی۔ اسے شاید خوب نیند آئی ہوئی تھی اور وہ ابھی سونا چاہتی تھی۔ میں وہاں سے چلا آیا لیکن میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کہ آخر کس ظالم کی نفرت، ہٹ دھرمی اور جہالت نے اس لڑکی کی جوانی و خوشی، اور اس معصوم بچی کا بچپن چھین لیا ہے۔ ہر وہ شخص ظالم اور مجرم ہے جو ان دو ماں بیٹیوں کی آنکھوں سے خوشی اور روشنی چھن جانے کی وجہ بنا۔
وہ دونوں چہرے آج بھی میری نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں اور مجھے اپنے معاشرے کی پست اقدار سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ یہ صرف ایک کہانی ہے، روزانہ ایسی سینکڑوں کہانیاں عدالتوں میں ملتی ہیں۔ اللہ نے جس چیز کی اجازت دے کر سب سے زیادہ ناپسند کیا وہ طلاق ہے۔ آخر اس حد تک ہم بےحس کیوں ہو گئی ہیں۔ ایک چھوٹی سی بات سے ناراضی شروع ہوتی ہے اور طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ میں نے طلاق کے بعد تقریبا اسی فیصد لوگوں کو پچھتاتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ بعد میں آکر کہتے ہیں کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ان ماں باپ پر جن کے ضد کی وجہ سے ان کی اولاد کا یہ حال ہوجائے کہ ان کی جوانی عدالتوں کے چکر لگانے میں گزر جائے اور ان کے بچے عدالتوں ہی میں ہر پیشی پر باپ یا ماں سے قیدیوں کی طرح ملاقتیں کر کے جوان ہوں۔
ممکن ہے کہ طلاق میں کوئی معقول وجہ بھی ہو لیکن اگر ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر لیں اور ہر اس طرح کے معاملے کو الجھانے کے بجائے صحیح نیت سے سلجھانے کی کوشش کریں تو تقریبا ہم اسی فیصد سے زیادہ زندگیاں تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک برقرار رکھ سکتے ہیں اور خواب چھن جانے سے بچا سکتے ہیں۔ اس معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دار کوئی فرد واحد یا واحد گھرانہ یا کوئی خاص طبقہ نہیں ہے بلکہ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں اور ہم سب نے مجموعی کوشش سے اسے ٹھیک کرنا ہے۔ خدارا خواب آنکھوں میں رہنے دو۔

Comments

Click here to post a comment