انسان اپنی موجودہ شکل میں تقریباً دو لاکھ سال سے اس کرہ ارض پر موجود ہے اور زرعی دور کے چند ہزار سال چھوڑ کر باقی تمام وقت اس کی خوراک کا بنیادی ذریعہ جانوروں کا گوشت رہا ہے۔ انسان جسمانی طور پر ایک ایسی کمزور مخلوق ہے جسے زندہ رہنے کے لیے اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور اور تیز رفتار جانوروں کا شکار کرنا پڑا جس کی وجہ سے نسل انسانی کو ہمیشہ معدوم ہو جانے کا خطرہ لاحق رہا۔ اس طویل جدوجہد کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو تقریباً تمام انسانی کاوشوں کا محور خوراک کی تلاش نظر آتا ہے۔ اگر چند دن شکار نہ ملتا تو موت کا فرشتہ آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتا تھا۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے جسم بیماریوں کے خلاف مدافعت نہیں کر پاتا تھا جس کی وجہ سے اوسط عمر بہت کم تھی۔ نسل بڑھانا بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ شیر خوار بچوں میں شرح اموات خوفناک حد تک بڑھی ہوئی تھی۔ اندھیرے میں رینگنے والے کیڑوں سے لے کر چیر پھاڑ دینے والے درندوں تک سب اس کی تاک میں تھے۔ دشمن قبیلے کے شب خون کا خطرہ اس تمام پر مستزاد تھا۔ کسی رات شکار کی مہم اس لیے ترک کرنا پڑتی تھی کہ شدید بارش شروع ہو جاتی تو بہت دفعہ ساری رات گھومنے کے باوجود مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آ تا تھا۔
پھر انسان زرعی دور میں داخل ہوا جس کی وجہ سے خوراک میں تو اضافہ ہوا مگر ساتھ ہی آبادی بھی بڑھ گئی۔ خاندان اور قبیلے کے بجائے سماج نے ایک پیچیدہ شکل اختیار کی اور بہت سے ایسے ادارے وجود میں آ گئے جنھوں نے تحفظ فراہم کرنے کے بدلے عام آدمی سے اس کی خوراک کا بہت سا حصہ ہتھیا لیا۔ اس دور کے انسان کی قسمت کا فیصلہ زراعت کرتی تھی جس کا اپنا انحصار پانی پر تھا۔ فصل کو بارشوں کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی تھی یا پھر خودسر دریا اس کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔ کبھی یہ خشک ہوتے تھے تو کبھی بپھر کر کناروں سے باہر آ جاتے۔ دونوں صورتوں میں کسان آسمانی طاقتوں کی من مانی کا خراج بھوک اور مفلسی کی صورت میں ادا کرتا۔ قحط اور وبائیں ایک معمول تھیں۔ وسیع ہوتے سماج نے ریاست کی شکل اختیار کی تو ان کا آپسی تصادم ایک مستقل نوعیت اختیار کر گیا۔ جنگ ہارنے کی صورت میں ساری آبادی کو یا تو قتل عام کا سامنا کرنا پڑتا تھا یا پھر تمام عمر غلام بن کر ایک اذیت ناک زندگی گزارنی پڑتی تھی۔ ان تمام عوامل نے مل کر انسان کے دل میں ایسی ان دیکھی قوتوں کی ہیبت طاری کر دی جو حیات و ممات کے فیصلے کرتی تھیں اور خوشحالی و بربادی، دونوں پر قادر تھیں۔
اس قدر وسیع پیمانے پر پھیلی خوف اور بے یقینی کی فضا نے دو طبقوں کو جنم دیا۔ ایک وہ لوگ تھے جن کا دعوی تھا کہ وہ اپنی روحانی صلاحیتوں کی بدولت دور آسمانوں پر بیٹھی طاقتور ہستیوں تک رسائی کا ہنر جانتے ہیں، جبکہ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے ایسے خفیہ علوم پر اجارہ داری کا اعلان کیا جس کے ذریعے ان مابعدالطبیاتی قوتوں کو رام کرنا ممکن تھا۔ ایک طبقہ صوفیا، جوگی یا راہب کے نام سے پکارا گیا تو دوسرا عالم، پنڈت اور پادری کے رنگ میں سامنے آیا۔ یہ دونوں گروہ تاریخی طور پر نسل انسانی کے لیے کس قدر نافع ثابت ہوئے یا نہیں ہوئے، یہ الگ بحث ہے تاہم جدید سائنسی دور سے پہلے تک انہوں نے ہمیشہ انسانی روح پر حکمرانی کی ہے۔ تاہم یورپ سے اٹھنے والی نشاۃ ثانیہ کی آندھی نے پوری صورتحال بدل ڈالی۔
سب سے پہلے تو جدید سائنس نے خوراک کی کمی کو بہت حد تک قصہ پارینہ بنا دیا۔ تاریخ میں پہلی بار انسان اتنے بڑے پیمانے پر بھوک کے خوف سے آزاد ہو کر جی رہا ہے۔ دو وقت کی روٹی کی دعا اب ہماری روزمرہ گفتگو سے ختم ہو تی جا رہی ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں بھوک اس کرہ ارض سے مکمل طور مٹ جائے گی۔ اس کی وجہ سے بھی انسان کا مذہبی طبقے پر انحصار کم ہوا ہے۔ تاہم انسانی روح کی آزادی کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔
انسان نے زراعت سے قدم آگے بڑھا کر صنعتی دور میں قدم رکھا تو مزدور کے لیے کارخانے کا مالک، ملازم کے لیے دفتر کا باس اور دکاندار کے لیے اس کا گاہک بنیادی اہمیت اختیار کر گیا۔ یہ تمام لوگ پراسرر آسمانی طاقتیں نہیں تھیں کہ مستی کے ایک لمحے میں پورے قبیلے میں قحط کی کیفیت پیدا کر دیتیں یا اپنی ناراضگی کا اظہار بادلوں کو روک کر کرتیں، یا زمین کو لرزا کر بستیاں تہہ و بالا کر دیتیں۔ یہ تو جیتے جاگتے انسان تھے جو ایک خاص قاعدے کے تحت کام کرتے تھے۔ اب عام لوگوں کے لیے بارش کے بجائے باس کی جنبش ابرو اہم ہو گئی۔ اسی طرح ایک دکاندار کے لیے گاہک کی خوشنودی کا حصول ایک اعلی قدر بن گیا۔ اس نظام میں علت و معلول کے سادہ کلیے عمومی طور پرکارفرما ہیں۔ اگر آپ نے اچھا کام کیا تو آپ کا باس خوش ہو گا۔ اسی طرح اگر آپ چند شرائط پر عمل کریں گے تو کاروبار کامیاب ہو جائے گا۔ اس نئی صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو طبقہ اپنے روحانی ارتفاع کے زور پر آسمانی قوتوں کو رام کرنے کا دعویدار تھا، وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھا کیونکہ عام آدمی کے لیے سود و زیاں کے تمام پیمانے پراسرار آسمانی طاقتوں کے بجائے اپنے جیسے انسانوں سے جڑ گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ سائنسی اکتشافات نے فطرت کی بے مہار قوتوں کی حقیقت انسانوں پر آشکار کر دی۔ ان پر چھائی پراسراریت کی دھند چھٹ گئی۔ پہلے چھاپہ خانہ اور اب انٹرنیٹ نے ان حقائق کو عام آدمی کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ اب ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ بارش کیوں ہوتی ہے اور زلزلے کس لیے آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ہوا بلکہ وہ الہامی کتب جو اب تک پادری، عالم، ربی اور پنڈت کی دسترس میں تھیں، وہ مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر عام انسانوں تک پہنچ گئیں۔ اپنی اصل زبان سے مقامی زبان میں ترجمہ کی گئیں۔ شروع میں اس طبقے نے ہر جگہ مزاحمت کی مگر علم کا جو چشمہ گٹن برگ کی ایجاد نے رواں کیا تھا، اس پر بند باندھنے کا کوئی رستہ باقی نہ رہا۔ اس نئے منظرنامے نے دھیرے دھیرے اس فرد کا وجود غیر ضروری کر دیا جو تحریری علم پر اپنی اجارہ داری کی وجہ سے خالق اور مخلوق کے درمیان پل کا کام کرتا تھا۔
مغرب میں کلیسا کے زوال کی بنیادی وجہ ان کا جبر یا بےاعتدالیاں نہیں تھی بلکہ عام لوگوں کی علم تک رسائی تھی۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اگلے ہزار سال تک کلیسا کا زوال ممکن نہیں تھا۔ یہی صورتحال پچھلی دو صدیوں سے مسلمان، یہودی، ہندو اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں کو درپیش ہے۔ اگر آپ غور کریں تو چند صدیاں پہلے تک ایک عام مسلمان کو قدم قدم پر صوفی اور عالم کی ضرورت پڑتی تھی کیونکہ اسے اپنی روزمرہ زندگی میں جو معاشی، سماجی اور انفرادی مسائل پیش آتے تھے ان کی مابعد الطبعیاتی جہت سب سے اہم ہوتی تھی۔ اگر بچہ پیدا نہیں ہو رہا تو تعویذ گنڈوں اور دعاؤں کا آسرا تھا۔ کبھی اسے بارشوں کی ضرورت ہوتی تھی اور کبھی بیماری کو ٹالنے کے لیے اور اپنی حاجات خدا تک پہنچانے کے لیے وسیلوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ چونکہ تعلیم کا سارا شعبہ مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھا اس لیے عام انسان کو ہر معاملے میں ان کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی تھی۔
اس کے برعکس آج کا انسان اپنی روزمرہ زندگی میں غیرمذہبی یا سیکولر تعلیم کا محتاج ہے۔ اس کے مسائل کا حل آسمانوں سے اتر کر زمین پر آ چکا ہے۔ اچھی تعلیم سے بہتر ملازمت مل سکتی ہے۔ بیماریوں کی وجوہات بھی زمین پر موجود ہیں اور ان کے ممکنہ علاج بھی یہیں میسر ہیں۔ کاروبار کا آغاز کرنے کے لیے کسی صوفی کی جگہ بنک مینیجر نے لے لی ہے جس سے قرض لیا جا سکتا ہے۔ بارشوں کے ہونے یا نہ ہونے کی پیشگی اطلاع موبائل کے ایک ٹچ کی محتاج ہے۔ اس سب کے باوجود اگر کہیں مذہبی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے تو کتب بھی موجود ہیں اور گوگل بھی رہنمائی کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔ مذہبی طبقہ اس تبدیلی سے آگاہ ہے اور اپنی بقا کی جنگ مختلف شکلوں میں لڑ رہا ہے۔ سیاسی اسلام کے جمہوری تصور سے لے کر داعش اور القاعدہ کی جنگجویانہ حکمت عملی تک، سبھی معاشرے پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی جدوجہد کی مختلف صورتیں ہیں۔ تاہم یہ بجھتے چراغ کی ٹمٹماتی لو ہے جو ایک نئی صبح امید کی نوید سنا رہی ہے۔ آج ایک عام مسلمان کو اپنی پوری زندگی میں جتنی دفعہ کسی مذہبی عالم کے پاس جانا پڑتا ہے، اس سے بہت زیادہ مرتبہ تو اسے پلمبر اور مستری کی ضرورت پڑتی ہے۔
مذہبی طبقے کے تیزی سے محدود ہوتے اثر و رسوخ نے مسلمان معاشروں میں جو خلا پیدا کیا اس نے بہت سی فکری تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ مسلمانوں کے بہترین افراد نے اپنی پوری زندگیاں اس نئے چیلنج کا جواب دینے میں صرف کر دی ہیں مگر ابھی تک کوئی بھی نسخہ کیمیا ہمارے سامنے نہیں آ سکا۔ اس حوالے سے نئے رستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ یہ کہ بڑے پیمانے پر اس حوالے سے بات کی جائے۔ کسی بھی فرد کے پیش کردہ نظریات کو حتمی تصور کرنے کے بجائے نئی راہیں ڈھونڈی جائیں۔ اگلے چند مضامین میں اسی حوالے سے اپنی معروضات پیش کروں گا۔ تاہم اس سے پہلے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تاریخی طور پر مذہبی طبقے کا کردار کیا ہے۔ یہ میرے اگلے مضمون کا موضوع ہے۔
تبصرہ لکھیے