ہوم << حاشر کو ”مذاق“ پسند ہے - ابوالاعلی صدیقی

حاشر کو ”مذاق“ پسند ہے - ابوالاعلی صدیقی

ابوالاعلی صدیقی فیس بک کے لیے عجلت میں لکھے گئے مضمون، جس کا موضوع خواجہ سراؤں کا پاکستانی معاشرے میں کردار تھا، کو ہمارے ایک دوست نے بلاگ کی شکل دی اور دلیل پر اشاعت کےلیے بھجوانے کو کہا۔ تحریر اشاعت پذیر ہوئی تو ایک طرف تو اسے بغیر کسی سپانسرشپ کے کافی پذیرائی ملی مگر دوسری طرف ایک مخصوص گروہ کی جانب سے اس پر کڑی تنقید بھی کی گئی۔ کسی بھی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور نفس مضمون پر تنقید ہو سکتی ہے مگر افسوس کہ تحقیق کا درس دینے اور اخلاقیات سکھانے والوں کی زیادہ تنقید ذاتیات پر مشتمل رہی۔ کچھ سوالات اور اعتراضات کا جواب عامر خاکوانی صاحب کی وال پر دیا، مگر بحث برائے بحث کا رویہ دیکھ کر مناسب سمجھا کہ جو کچھ کہنا ہے وہ الگ سے ایک پوسٹ میں کہہ دیا جائے۔
مضمون کے پہلے جملے کو اچک کر کہا گیا کہ لکھنا مشکل ہے، تو نہ ہی لکھتے، اور یہ ماشاء اللہ ان کی طرف سے کہا گیا جو صبح شام اسلامی شعائر سے مقدسات اور نظریہ پاکستان سے شخصیات تک، پر آزادی اظہار رائے کے عنوان سے تنقید کا حق مانگتے نظر آتے ہیں، افسوس کہ ان سے خود پر ذرا سی تنقید برداشت نہیں ہوتی۔ سیکولر اور کمیونسٹ حضرات کی طرف سے تو مقدمہ ہی یہ پیش کیا جاتا ہے کہ دین سے نظریے اور وطن سے شخصیات تک، کسی کو ”تقدس“ حاصل نہیں ہے، سوال سب کے بارے میں ہوگا، اسی سے علم اور سائنس میں ترقی کی راہیں کھلیں گی، اب چاہے آپ کی اپنی تحقیق اور سوال غلط در غلط کی صورت کیوں نہ لیے ہوئے ہو، اور اس سے لاکھوں انسانوں کے جذبات مجروح کیوں نہ ہو رہے ہوں، وہ تو جائز ٹھہرتا ہے، مگر غامدی صاحب کے ذرا سے ذکر اور کسی افسانے و جنس پر دو لفظوں سے ہنگامہ سا مچ گیا۔ حیرانی ہی حیرانی ہے۔ یادش بخیر یہ وہی طبقہ ہے جو توہین باری تعالی اور توہین رسالت مآب ﷺ پر بھی صبر، برداشت اور مکالمے کا علم لیے کھڑا ہوتا ہے. اگر تنقید غلط تھی، یا اعداد و شمار درست نہیں تھے تو اپنے طے کردہ اصول اور اخلاقی معیار کے مطابق تو حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جواب دینا چاہیے تھا کہ غلط فہمی دور ہوگی، نئے در وا ہوں گے مگر آپ تو تحقیر و طنز کا لٹھ لے کر دوڑ پڑے۔ آپ کے دو لفظ مقدس ٹھہرتے ہیں، اور دوسرے کو جان سے پیارے نظریات و شخصیات پر صبر کی تلقین، جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے۔
سوشل میڈیا پر لکھنا مشکل ہے، اس تناظر میں کہا تھا کہ ہر کوئی اپنے بیانیے کو حق سمجھتا ہے اور اس پر ڈٹا ہوا ہے، حقیقت اس میں کہیں گم ہو جاتی ہے، مکالمے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے. یہ نہیں کہا گیا تھا کہ غامدی طبقہ پاپولر بیانیے کا نقیب ہے، بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ وہ پاپولر بیانیے کے مطابق خیالات پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ غامدی صاحب سیکولر بیانیے کی علامت بن کر سامنے آئے ہیں، اس لیے آپ کا ان کے حق میں آنا اور تڑپ تڑپ کر رہ جانا سمجھ میں آتا ہے، مگر کیا یہ وہی غامدی صاحب نہیں ہیں جو چودہ سو سالہ علمی روایت کو یہ کہہ کر مسترد کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ سب بھی ہمارے جیسے آدمی تھے، تو غامدی صاحب کے چاہنے والوں کے نزدیک وہ کب سے فرشتہ اور تنقید سے مبرا ہو گئے۔ درست یا غلط کی بحث میں پڑے بغیر کہ امت کا سواد اعظم غامدی صاحب کی تنقید کو غلط ہی سمجھتا ہے، میں نے جو درست سمجھا، اسے بیان کر دیا۔ معلوم نہیں تھا کہ آزادی اظہار رائے کا حق کسی مخصوص ٹولے کے ساتھ مخصوص ہے. البتہ یہاں اپنی ایک غلطی کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت نہیں، غامدی طبقہ پاپولر بیانیے کے مطابق نہیں بلکہ سیکولر بیانیے کے مطابق خیالات پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے، اور بجا طور پر اسے مقبول سمجھتا ہے، مگر تمام تر ریاستی سرپرستی اور ہر ٹی وی چینل پر موجود ہونے کے باوجود معاشرے میں اس کی مقبولیت اتنی ہی ہے جتنی خود سیکولرازم کی۔
یہ کہا گیا کہ غامدی صاحب پر اعتراض بلاوجہ اور موضوع سے غیر متعلق ہے: یہ سب سے زیادہ کیا جانے والا اعتراض ہے اور اصلا اکثر دیگر اعتراضات کی بنیادی وجہ بھی۔ http://www.monthly-renaissance.com/issue/content.aspx?id=187 یہ لنک غامدی صاحب کے آفیشل انگریزی میگزین کا ہے جس میں کھلے عام ہم جنس پرستی کا دفاع کیا گیا ہے۔ ایسے مضامین، خیالات، مباحث دیگر جگہوں پر بھی آئے ہیں، اور اس کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مضمون غامدی صاحب کا تحریر کردہ نہیں ہے، مگر بہرحال ایک رجحان کی طرف تو ضرور اشارہ کرتا ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی اشاعت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اگر غامدی صاحب اتنے ہی کھلے دل کے مالک ہیں کہ ہر موضوع کو اپنے ترجمان رسالے میں جگہ دیتے ہیں تو ان کی سب سے زیادہ علمی مخالفت اسلامی ریاست اور سود کے مسائل میں کی گئی، اس پر ان کے مخالف مؤقف کو آج تک کیوں جگہ نہ ملی؟ صرف یہ نہیں، بلکہ اس مضمون کے رد میں ہی کوئی مضمون شائع کر دیا جاتا؟ سوشل میڈیا پر ایک مباحثہ بھی ہم جنس پرستی کے حق اور رد میں گردش میں رہا ہے. اگر آپ ان مباحث پر نظر رکھے ہوئے ہوں تو اجمالی طور پر حوالہ دے سکتے ہیں. جن کی نظر سے یہ سب نہیں گزرا تو دوسروں کو جہالت کا طعنہ دینے کے بجائے وہ اپنے ”علم“ پر نظرثانی یا اس کے حصول کی کوشش فرمائیں. غامدی صاحب کا افسانے سے تعلق اس تناظر میں تھا، غلطی کا امکان اس میں موجود ہے، ممکن ہے مجھے ان کا مدعا سمجھ نہ آیا ہو تو جواب میں غلطی واضح کی جائے گی یا مجھے رائے کے اظہار سے محروم کرنے پر زور صرف کیا جائے گا. نیوز فیڈ میں غامدی صاحب سے متاثرہ احباب کو اسے شیئر اور ایک لحاظ سے اپنے بیانیے کے نمائندہ افسانے کے طور پر آگے بڑھاتے دیکھا، تو محسوس ہوا کہ ہم جنس پرستی اور خواجہ سرا کے مسائل کا تجزیہ غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی جرم ہوتا ہے، اس کا معلوم نہیں تھا، سو درگزر کیجیے۔
یہ دعوی کیا گیا کہ خواجہ سرا کا ماں کے نام خط معاشرے کا عکاس ہے. کس معاشرے کا، اس کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی، پاکستان کے تناظر میں تو یہ نہیں کہا جا سکتا، اس لیے اس کے رد کی ضرورت محسوس کی گئی، کسی طبقے کا دکھ کم کرنا مقصود نہیں تھا، بلکہ یہ بتانا تھا کہ کسی مخصوص واقعے یا مخصوص صورت کو پورے معاشرے پر چسپاں کرنا یا اس کا عکاس قرار دینا درست نہیں ہے۔ مگر خیر، جو پہلے نہیں مان رہے، وہ اب کیوں مانیں گے؟ جس واقعے کا حوالہ دیا گیا (پشاور میں زخمی خواجہ سرا کو علاج میں فراہمی میں لاپروائی)، وہ بھی اس افسانوی خط کی کہانی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس موقع پر یہ کہنا البتہ ضروری ہے کہ صرف وہ واقعہ قابلِ مذمت ہی نہیں بلکہ اس طرح کا ہر واقعہ قابل گرفت ہے اور اس کے سدباب کے لیے حکومتی اور معاشرتی سطح پر فوری اقدامات ہونے چاہییں۔ اسی تناظر میں ایک بات کہ ان ہسپتالوں میں مرد و عورت کو کون سی سہولیات دستیاب ہیں، علم میں ہوں تو آگاہ کیجیےگا۔ اور مریضوں اور لواحقین کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ یہ جاننے کےلیے مفید رہے گا. اور ہسپتال کا یہ دورہ اگر کسی مضافاتی یا دیہی علاقے کا ہو تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے. جہاں تعلیم و صحت میں ایک عام آدمی اشرافیہ کے ظلم کا ویسا بلکہ اس سے کہیں زیادہ کہ تعداد ایک کے مقابلے میں ایک لاکھ ہے، شکار ہے اور اس کےلیے ویسے ہی لاپروائی برتی جاتی ہے، تو ایسے”مخصوص دکھ“ کر معاشرے پر چسپاں کر دینا کیسے قرین انصاف ہو سکتا ہے۔
یہ کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کے بارے میں اعداد و شمار صحیح نہیں. مخصوص فکری رجحان رکھنے والوں کا اعتراض بھی ان کے رجحان جیسا ہی ہے، اور یہ بذات خود ایک دلچسپ داستان ہے۔ حضور اگر آپ اپنی ''خاص تحقیق'' کی بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ جو شخص اپنے آپ کو زنخا سمجھے وہ زنخا ہے تو یہ صرف اسلامی ہی نہیں انسانی دانش کے بھی خلاف ہے۔ آپ کی اس دلیل کو ابھی تک امریکی مردم شماری بیورو نے تو مانا نہیں، وہ آپ کے پیش کیے گئے لنکس کے باوجود صرف انھی افراد کو زنخا گردانتا ہے جو کم ازکم جسمانی تبدیلی کرا چکے ہوں۔ اس اعتراض کا جو جواب خاکوانی صاحب کی پوسٹ پر دیا گیا تھا، اس پر مزید اعتراضات ویب سے سروے تعریف سمجھانے والوں کے شماریات کے علوم سے آگاہی کی ”زیادتی“ کو واضح کرتی ہے۔ بزعم خود مہارت کے دعوے سے البتہ کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔ (https://en.wikipedia.org/wiki/Transsexual) یہ لنک بہت وضاحت کے ساتھ یہ بیان کرتا ہے کہ جسمانی خامیوں کی بنیاد پر ہر ایک لاکھ میں سے ایک مرد خواجہ سرا ہونا ممکن ہے۔ (http://www.isna.org/faq/frequency) یہ لنک ان تمام طرح افراد کو دائرے میں لاتا ہے جو زندگی میں کبھی بھی ہم جنسی کی طرف جا سکتے ہیں۔ آپ اگر وکی پیڈیا کے مضمون کے ساتھ اسے پڑھیں اور جان لیں کہ Complete gonadal dysgenesis افراد ہی خواجہ سرا ہوتے ہیں، باقیوں کو تو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ان میں کچھ مسئلہ ہے۔ شادی کے بعد یا کسی اور موقع پر انھیں اندازہ ہوتا ہے اپنے جسمانی مسائل کا۔
اپنے تئیں سب سے مشکل اعتراض امریکی مردم شماری کی اس رپورٹ پر کیا گیا جس کی بنیاد پر مضمون لکھا گیا تھا۔ یار لوگوں نے مردم شماری کو ایک اخباری آرٹیکل سے بھی کم اہمیت دی کہ وہ ان کے بیانیے کے خلاف تھا۔ کچھ افراد نے تو اس رپورٹ میں سوائے اصل بات پڑھنے کہ مردم شماری کے اصول کی نفی پر داستان کھینچ دی۔ اس مضمون (https://www.census.gov/srd/carra/15_03_Likely_Transgender_Individuals_in_ARs_and_2010Census.pdf) کے صفحہ 28 کے جدول دیکھ لیں، اندازہ ہو جائے گا کہ پیدائشی اور جنسی تبدیلی والے خواجہ سرا 30 کروڑ میں کل ملا کر 21 ہزار بھی بمشکل ہیں۔
پاکستان کے جس سروے اور فاؤنڈیشن کا حوالہ دیا گیا تھا، اسے بھی مزاحیہ انداز میں بطور خاص واوین میں دلیل کے طور پر پیش کیا گیا، جیسے فائونڈیشن اور سروے دونوں سے انکاری ہوں، اور پھر سروے کی تعریف پیش کرکے تو گویا اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی۔ سروے جس فائونڈیشن کےلیے کیا گیا، اگر معاہدے کی خلاف ورزی کا مسئلہ نا ہوتا تو اس کا نام پیش کر دیا جاتا، اتنا تو معترض بھی جانتے ہوں گے کہ یہ بنیادی اصول ہے۔ اس جیسے بہت سے سروے آغا خان فاؤنڈیشن کراتی رہتی ہے۔ معترضین کے اس جیسے اداروں سے اچھے تعلقات ہیں، ہم خیال لوگ وہاں موجود ہیں، ذرا وہیں سے معلومات حاصل کرنے کی زحمت کر لیں، اندازہ ہو جائے گا۔
پاکستان کیا امریکہ اور کینیڈا میں بھی ہم جنس پرست افراد صحت مند افراد سے 20 سال کم عمر پاتے ہیں (http://ije.oxfordjournals.org/content/26/3/657.abstract) اور امریکی حکومت کی طرف سے کیا گیا سروے تو مرد ہم جنس پرست افراد کی عمر کو اور بھی کم بتاتا ہے۔ (http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3093261)۔ امریکہ میں تمام مرد ہم جنس پرست افراد بشمول خواجہ سراؤں، پر خون دینے کی پابندی ہے۔ اکثر مغربی ممالک میں کہیں مکمل اور کہیں یہ پابندی جزوی ہے (https://en.wikipedia.org/wiki/Men_who_have_sex_with_men_blood_donor_controversy)۔ وجہ یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ ہم جنس پرست جنسی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔ ہم جنس پرست، گو کہ امریکی آبادی کا صرف 3 فیصد ہیں، مگر کل جنسی بیمار افراد میں ان کا تناسب 50 فیصد ہے۔ (http://www.cdc.gov/std/life-stages-populations/stdfact-msm.htm
یہ کہنا کہ اصل مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں بلکہ خواجہ سراؤں کے ساتھ رکھے جانے والا رویہ اور سلوک ہے، درست ہے۔ مضمون میں بھی یہی گزارش کرنے کی کوشش کی گئی۔ خواجہ سراؤں سے اغماض برتنے کے بجائے ان کا جسمانی اور نفسیاتی علاج کرایا جائے اور ان کے ساتھ زیادتی یا مجرمانہ استعمال و استحصال کو روکا جائے۔ یہ کون سی اور کیا ہمدردی ہے کہ جس طرز زندگی سے دنیا اور آخرت کی بربادی ہو، معاشرتی نظام پر ضرب لگے، اسے تو آپ کھلے عام سڑکوں پر چلنے کی اجازت دیں اور جو اس کے سدباب کی بات کرے وہ مطعون ٹھہرے؟
جو اعتراضات میری ذات کے حوالے سے کیے گئے، میرے خیال میں وہ سب درست ہیں۔ مارکیٹ ریسرچ کی ویب سے تعریف اٹھا کر دکھانے والے اپنی تحریر ہی اس معیار پر پرکھ لیتے تو شاید کچھ بہتر تنقید سامنے آتی۔
تحریر مکمل ہوئی تھی کہ نیوز فیڈ میں ”ایک“ سپانسر پوسٹ پر نظر پڑی، 18 ستمبر کو شائع ہونے والی تحریر کو 8 دنوں سے سپانسر پر ہونے کے بعد 1 لاکھ ویوز ملتے ہیں اور یہ کوئی فخر کی بات یا تبدیلی کی غماز ہے تو اتنے دن عجلت میں لکھی گئی ”جذبات سے عاری“ تحریر بھی سپانسر پر رہے تو اس سے دگنا ویوز حاصل کرلے گی. ریسرچ اور تحقیق اور اعداد و شمار سے کوئی تعلق ہے تو ”مقبولیت“ کی حقیقت جانتے ہوئے اس طرح کا دعوی وہی کر سکتے ہیں جنھیں تحقیق کے نام پر مذاق پسند ہے. اس کے باوجود اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی قباحت نہیں کہ افسانہ اچھا لکھا گیا تھا، اور ”افسانے“ اچھے ہی ہوتے ہیں، مگر تب تک جب تک وہ افسانہ ہی رہیں، حقیقت بنا کر معاشرے پر چسپاں نہ کر دیے جائیں.

Comments

Click here to post a comment