چار مجاہدین کے اڑی کیمپ پر حملے اور اس میں سترہ بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد سے فیس بک پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے دو دنوں میں بھارتی میڈیا نے جہاں پروفیشنل رپورٹنگ کی ہے وہیں پاکستانی میڈیا بھنگ پی کر سویا ہوا ہے.
الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا سے مایوس ہو کر جب سوشل میڈیا کا رخ کیا تو محب وطن پاکستانیوں کی کثیر تعداد جذبہ شہادت سے سرشار اپنا تن من دھن پیارے پاکستان پر لٹانے کے لیے تیار نظر آئی خوشی سے سیروں خون بڑھ گیا.. اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم میں اب بھی وہ جذبہ موجود ہے جو کسی بھی ملک کی اکڑ توڑ سکتا ہے پڑوسی ملک کی طرف سے جنگ کی واضح دھمکی سامنے آنے پر جہاں فوج نے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کیا وہیں عوام بھی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئی .
لیکن وہ کہتے ہیں نا دنیا میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک خیر کی اور دوسری شر کی.. ہر ملک میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں
ایک قسم وہ ہے جواگر ملک پر کڑا وقت آئے تو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی چاہے عام حالات میں وہ اپنے ملک کے حالات سے کتنا ہی دلبرداشتہ کیوں نہ ہو،
اور دوسری قسم وہ ہے جو کھاتی تو اپنے ملک کا ہو لیکن گُن دوسرے ملکوں کے گاتی ہو یعنی جس برتن میں کھائے اسی میں چھید کرے
بدقسمتی سے میرے سوہنے ملک پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کثیر تعداد مجود ہے جو کھاتے بھی اسی کا ہیں اور بھونکتے بھی اسی کے خلاف ہیں ایسے نفسیاتی مریضوں میں سے ہی چند ایک کی پوسٹس نظر سے گذریں تو جو سیروں خون بڑھا تھا اس سے دوگنا کڑھ کڑھ کے ختم ہو گیا
ان لوگوں کے لیے صرف ایک مثال ہی کافی ہے:
"کتا بھی اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے" .
تو کیا یہ لوگ کتوں سے بھی بدتر ہیں؟
اپنے گریبان میں جھانکیں اور شکر ادا کریں اللہ کا جس نے آپ کو آزاد فضا میں پیدا کیا ہے آزادی کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو چند دن قبل ہونے والی بقر عید پر گائے کی قربانی تک نہ دے سکے کشمیر میں بستے ان لاکھوں لوگوں سے پوچھیں جو اسّی سال سے اپنی جانیں دے رہے ہیں لیکن جھکے ہیں نا جھکیں گے.
ان شا ء اللہ .
میرا ان نام نہاد دانشوروں سے سوال ہے:
جو آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے اس ملک کی آزادی کے لیے لڑنے والے قائدین اور لاکھوں لوگوں کی شہادت( پاکستان بنتے وقت) پر انگلی اٹھاتے ہیں کہ اگر ہندوستان سے دوستی اتنی ہی عزیز ہے تو بسم اللہ کیوں نہیں کرتے جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے اس ملک کی اگر اتنا برا لگتا ہے تو....
ان لوگوں پر وہ مثال صادق آتی ہے.
"دور کے ڈھول سہانے "
دور سے ان کو یہی لگتا ہے کہ ہندوستان امن پسند ملک ہے،
ذرا ایک نظر وہاں بسنے والوں پر ڈال لیں تو شاید کچھ افاقہ ہو...
گزشتہ روز ٹوئیٹر پر جو سروے کیا گیا وہ شروع تو ہندوستان کی طرف ہوا لیکن اس کا شاندار اختتام پاکستان کی طرف سے ہوا
شروعات انکی طرف سے ایک سنجےڈکشٹ نامی بندے نے کی.
پول کا سوال : کیا ہم ہندوستانی ایک ایٹمی جنگ کے ذریعے پاکستان کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ہم میں سے بے شمار لوگ جان سے جائیں گے
سوال کا انداز دیکھیں پاکستان کو ختم کرنے کے لیے ، یہ الفاظ ایک ہندوستانی استعمال کر رہا ہے اور اسے ہمارے ایک دانشور صاحب مہذب قرار دیتے ہیں.. اکیس توپوں کی سلامی ہے سر آپ کو.. توپ کے آگے رکھ کے..
جواب میں% 39 لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم تیار ہیں اور% 61 نے کہا نہیں، زندگی قیمتی ہے.
جوابی سروے پاکستان کی طرف سے شروع کیا گیا .
سوال تھا اگر انڈیا کی طرف سے ایٹمی جنگ شروع کی گئی تو کیا آپ جان دینے کے لیے تیار ہیں؟
انتہائی مناسب انداز میں انہوں نے سوال سامنے رکھا جس کے جواب میں% 87 نے کہا جی ہاں ہم شہادت کے لیے تیار ہیں اور% 13 نے کہا نہیں...
اب یہ سوشل میڈیا سروے شروع ان کی طرف سے کیا گیا اور اگر ہم نے جواب ان سے زیادہ مہذب انداز میں دیا ہے تو کسی کو تکلیف کیوں ہے
انہیں لگتا ہے ہندوستان کے لوگ امن پسند ہیں جنہوں نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان بچانے کی فکر کی ہے اور ہم جذبہ شہادت سے سرشار ہیں تو تشددپسند ہیں حالانکہ اگر گزشتہ دو تین دن انڈین میڈیا پر چلنے والے پروگرامز دیکھ لیں تو ہو سکتا ہے ان کی آنکھیں کھل جائیں کہ وہ ہمارے بارے میں کیسے جذبات رکھتے ہیں پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے، یہ ایک وزیر موصوف فرما رہے ہیں ہندوستان کے... ساری دہشت گردی ی خود پھیلا کر ہمیں کس منہ سے دہشت گرد قرار دیتے ہیں.
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی صفوں میں موجود ان بھیڑیوں کو پہچانیں جن کی شناخت تو پاکستانی ہے لیکن دل بھارت کے ساتھ دھڑکتا ہے.
تحریر: آن علی
تبصرہ لکھیے