سیاسی پیش رفت اور موجودہ صورتحال میں تھوڑا سا اپنی معلومات کا اضافہ کر دیا جائے تو وہ تجزیہ بن جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سطحی مطالعہ ہو تا ہے اور اس میں بار بار انہی واقعات کو دہرایا جاتا ہے جو ہم کسی نہ کسی شکل میں دیکھ یا پڑھ چکے ہوتے ہیں ۔ حکومت کے مخالف انہی واقعات پر تنقید کا رنگ چڑھا دیتے ہیں جبکہ اقتدار کے حواری ان پر تعریف یا جواز کی مسلح سازی کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ ایک ہی سیاسی پیش رفت کچھ حضرات کے لئے تنقیص کا سامان بن جاتی ہے جبکہ دوسرے گروہ کے لئے قصیدے کا بہانہ بن جاتی ہے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ میں صبح و شام ایسے تجزیات کی بارش میں بھیگتا رہتا ہوں اور اپنے خالی دامن کو نچوڑتا رہتا ہوں۔
البتہ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ان تجزیات میں جس صورتحال کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے کیا وہ ہماری تاریخ میں پہلی بار ابھری اور سامنے آئی ہے یا اسکی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں ۔یہ درست ہے کہ قومی حوالے سے ستر برس کی تاریخ بڑی مختصر تاریخ ہوتی ہے کیونکہ قومیں صدیوں کی تاریخ کی امین ہوتی ہیں لیکن ہماری ستر سالہ تاریخ بھی اس قدر متنوع، رنگ برنگے تجربات اور اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے کہ اس میں ہر قسم کے تجربات کے مناظر اور ان کے نتائج ملتے ہیں ۔ میری ذاتی رائے میں معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اور تجزیہ کرتے ہوئے اگر اس میں تاریخ کی معمولی سی روشنی بھی شامل کر لی جائے تو شاید تجزیہ زیادہ مستند اور جاندار کہلائے۔
مثال کے طور پر آج کل تمام تجزیہ نگار مستقبل کا نقشہ بناتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ (ن) 2018ء کے انتخابات بھی سوئپ کر جائے گی یعنی امکان ہے کہ بھاری اکثریت لیکر ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے گی ۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے قریب اس پیش گوئی کی بنیاد یہ وجوہ ہیں (1)تمام تر تنقید کے باوجود مسلم لیگ کی ضمنی انتخابات میں بہتر کامیابی (2)معاشی راہداری، سی پیک، کی تکمیل کے نتیجے کے طور پر ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، معاشی خوشحالی آئے گی، پسماندہ علاقوں میں ترقی کا خواب پورا ہو گا، گوادر اس علاقے میں اہم ترین بندرگاہ بن جائے گی اور عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو گا(3)حکومت 2018ء تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے عوام کے دلوں کو مسخر کرے گی اور اسکی عوامی حمایت میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔
میں صرف اہم نکات کا ذکر کر رہا ہوں چند ایک تجزیہ نگار مسلم لیگ (ن) کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کا الزام حسب مخالف کو دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ مسلم لیگ( ن) کی کارکردگی اس قابل نہیں کہ بڑی اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت سکے لیکن وہ جیت جائے گی کیونکہ میاں صاحب مقدر کے سکندر اور قسمت کے دھنی ہیں اور انہیں ماشااللہ زرداری صاحب اور عمران خان جیسی حزب مخالف سے پالا پڑا ہے جس نے اپنے پائوں پہ خود کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑے مارے ہیں ۔ زرداری صاحب اور پی پی پی کا پانچ سالہ دور حکومت ان کی سیاسی کشتی ڈبونے کے لئے کافی تھا اور اب پی پی پی کرپشن، بدنامی اور ناکامی کے ملبے سے نکل نہیں سکے گی۔ رہے عمران خان تو وہ ایک غیر پختہ سیاست دان کا امیج بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ وہ اس امیج کو آئندہ دو برسوں میں نہ بدل سکیں گے نہ بہتر بنا سکیں گے۔ عمران خان کی خیبر پختونخوا میں بھی کارکردگی اتنی قابل رشک نہیں رہی کہ عوام اسے بہتر حکمران تصور کریں۔ دھرنوں اور مارچوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اس سے پارٹی کی ’’پوشیدہ‘‘ کمزوریاں عیاں ہو جائیں گی ۔
بلاشبہ عمران خان ذاتی طور پر اچھی شہرت رکھتے ہیں لوگ انہیں دوسرے سیاست دانوں کے مقابلے میں ایماندار بھی کہتے ہیں، ان میں خدمت کا جذبہ سند کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اول تو لوگ ان کے ساتھیوں اور مشیروں کو مشکوک اور میاں صاحب کے مشیروں + حواریوں کی مانند ہی سمجھتے ہیں، دوم عمران خان نے عملی سیاست کے میدان میں پختگی، بصیرت اور بہتر سمجھ بوجھ کا ثبوت نہیں دیا۔ کئی تجزیہ نگاروں کے فہم و ادراک کا نچوڑ یہ ہے کہ میاں صاحب اپنی خوبیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے مخالفین (RIVALS)کی نالائقیوں کے سبب انتخابات جیت جائیں گے چند ایک گرو قسم کے تجزیہ نگاروں کا فرمان ہے کہ میاں صاحب نے میڈیا پر دسترس حاصل کرکے سرمایہ کاری کرکے اور سیکرٹ فنڈ کے خزانوں کا منہ کھول کر اپنے مخالفین کو عوامی نظروں میں خاصی حد تک مطعون اور بے نقاب کر دیا ہے اور وہ آئندہ انتخابات میں دولت کا بے تحاشا استعمال کرکے انتخابات جیت جائیں گے۔
یہ ہے خلاصہ ان تجزیوں کا جو میں اخبارات میں پڑھتا اور الیکٹرانک میڈیا پر سنتا رہا ہوں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اس اندازے، پیش گوئی اور تجزیے میں بڑا وزن ہے دیکھنے والی آنکھیں یہی منظر دیکھ رہی ہیں اور اس سے ایک فضا سی بنتی جا رہی ہے جو انتخابی مہم کی کامیابی میں اہم کردار سرانجام دیتی ہے۔ جب اس طرح کی فضا بنتی ہے تو ہزاروں موقع پرست اور مطلب پرست سیاست دان، حواری، لکھاری، سیاسی کارکن، مقامی بااثر حضرات وغیرہ بظاہر جیتنے والے لیڈر کا طواف کرنے لگتے ہیں کرسی پرستوں میں لیڈر کی قربت، اک نگاہ کرم،حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ مقابلہ شروع ہو جاتا ہے ۔چُوری کے دلدادہ طوطے چہچہانے لگتے ہیں، وفاداری کا یقین دلانے کے لئے ڈنڈا فورس بنائی جاتی اور ٹی وی چینلوں پر دکھائی جاتی ہے، سیاست کے خالی برتن چھلک کر میڈیا پر بڑھکیں مارنے لگتے ہیں اور ہر طرف شیرآیا شیرآیا کے نعرے لگائے جاتے ہیں ۔
یوں ایک اچھے بھلے دو ٹانگوں والے انسان کو چیر پھاڑ کرنے والا چار ٹانگوں کا شیر بنا دیا جاتا ہے۔ حواریوں، خوشامدیوں اور پیشہ ور تماش بین سیاست دانوں کے چہروں پر نہ صرف مسکراہٹ چھا جاتی ہے بلکہ ان میں متوقع فتح و کامیابی کی رعونت اور غرور بھی عود آتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک انسان کو جسے اللہ پاک نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے ۔ شیر یعنی خونخوار جانور بنا کر اسکی عزت افزائی کی ہے اسے اعلیٰ مقام عطا کر دیا ہے جبکہ مجھ جیسے سادہ لوح حیران و پریشان ہو کر سوچتے ہیں کہ انسان کو حیوان بنانا اس کا مرتبہ بڑھانا ہے یا مرتبہ گھٹانا، امریکہ کی ایک مشہور سیاسی پارٹی ڈیموکریٹ کئی بار امریکہ پر حکمرانی کر چکی ہے ،امریکہ کے موجودہ صدر اوبامہ کا تعلق بھی ڈیموکریٹ DEMOCRATE پارٹی سے ہے ۔ اس پارٹی کا سمبل یا نشان گدھا (DONKEY) ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صدر اوبامہ کانگریس کے اجلاس میں جائیں تو ان کی پارٹی کے اراکین یہ نعرے لگا کر ان کا استقبال کریں دیکھو دیکھو گدھا آیا، گدھا آیا، آج کل اسی پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن ہے جو سارے ملک میں انتخابی مہم کے حوالے سے جلسے کر رہی ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسکی پارٹی کے جیالے اور جذباتی کارکن ہیلری کا استقبال یہ نعرہ لگا کر کریں کہ دیکھو دیکھو گدھی آئی، گدھی آئی، جبکہ ہمارا وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں جائے تو بی اے پاس اراکین شور مچا دیتے ہیں ’’دیکھو دیکھو شیر آیا‘‘ اور اگر میاں صاحب کسی جلسے میں جائیں تو کارکن نعرہ لگا لگا کر گلے پھاڑ لیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو شیر آیا یا پھر یہ نعرے لگاتے ہیں میاں ساڈا شیر اے ، باقی ہیر پھیر اے،
میں اپنی ملکی تاریخ میں یہ منظر پہلے بھی دیکھ چکا ہوں، ہوبہوایسا ہی تھا لیکن اس کاذکرآئندہ اِن شاءاللہ
تبصرہ لکھیے