یہ اللہ تعالیٰ کاہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں غفلت کی اس دنیا میں رہتے ہوئے کامیابی کیsense بھی دی ہے اور اس کی حرص بھی عطا کی ہے ۔ کامیاب عورت کے موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں مختصرا یہ بتانا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ دنیا کامیابی کے حوالے سے ہمیشہ مغالطوں اور مختلف نظریات کا شکار رہی ہے۔
کیا حصول ِ دولت کامیابی ہے؟
لوگوں کی ایک بڑی تعداد مال اور دولت کے حصول کو کامیابی سمجھتی ہے۔ چنانچہ حصولِ مال و زر کو کامیابی سمجھنے والوں کا جو انجام ہوا، وہ بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے۔ اللہ رب العزت نے انسانیت کی سچی رہنما کتاب قرآنِ مجید میں کامیابی کایہ تصور رکھنے والوں کی ایسی عبرت ناک مثالیں بیان فرمائی ہیں کہ جنھیں پڑھتے اور سنتے ہوئے آدمی کانپ اٹھتاہے۔ اس سلسلے کی ایک واضح مثال قارون کی ہے۔ بے حد مال و زر پانے والوں میں ایک نمایاںشخص قارون تھا۔ قومِ موسیٰ کے اس مالدار ترین شخص کے پاس اس قدر مال تھاکہ قرآنِ مجید کے مطابق طاقت ور لوگوں کا ایک بڑا جتھہ اس کے خزانوں کی محض چابیاں سنبھالنے سے عاجز آجاتا تھا۔ خزانہ نہیں، محض خزانے کی چابیاں! تو بہرحال اللہ رب العزت نے قارون کو زمین میں دھنسا کر کامیابی کے اس bogus(بودے) تصور کو زمین ہی میں دفن کر دیا،لیکن ا س کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے اس مثال سے کچھ زیادہ سبق نہیں سیکھا اوروہ آج بھی مال سے محبت کرنے والے اور مال کی خاطرزندگی جینے والے دکھائی دیتے ہیں۔
لوگ آج بھی اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگیاں مال کے حصول کے لیے وقف کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر آپ جانناچاہیں کہ لوگ اپنی اولادوں کی زندگیاں کس مقصد پہ قربان کر رہے ہیںتو اس سلسلے میں ان کی روش پر غور کرکے دیکھئے ۔مثلاًتعلیم ہی کولے لیجیے۔ ہماری تعلیم کا واحد مقصد حصولِ مال اور جلب ِ دولت بن کے رہ گیا ہے،اولاد کا ہر روز گھر سے نکلناہو یا واپس آنا ، ان کا تعلیمی اداروں میں جاناہو ،یا وہاں وقت لگانا۔ ان کی ہلکان کر دینے والی سوچ و فکر ہو یا دن رات کی سخت محنت۔اس سب کازیادہ تر مقصد اور ان کے تمام تر علم کا منتہا اور مقصود محض دنیا حاصل کرنے کے لئےوقف ہو کے رہ گیا ہے ۔اس نظام تعلیم کے تحت انھیں ایک ڈگری مل جاتی ہے اوراس ڈگری کے نتیجے میں ایک جاب، کیا آپ کو لگتا نہیں کہ انسان واقعی خسارے میں ہے۔ اللہ رب العزت کی بات کتنی سچی ہے۔
زمانے کی قسم!(1)بے شک یقینا ہرانسان خسارے میںہے۔(2)سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اورجنہوں نے نیکیاں کیں اور جو ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبرکی نصیحت کرتے رہے۔ (3)(العصر:3.1)
تو پھرکیا حصولِ اقتدار کامیابی ہے؟
مال کے بجائے کچھ لوگوں نے اقتدار اور تخت و تاج کے حصول کو بھی کامیابی سمجھا ہے۔ اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ حصولِ اقتدار کو حسیں خواب اور کامیابی کا راز سمجھنے والوں کا کیا حال ہوا تو اﷲ رب العزت نے اس حوالے سے فرعون کی مثال ہمارے سامنے رکھی ہے۔ اس کے غرورِ اقتدار کا بھی کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو نیل کے پانیوں میں غرق کرکے اقتدار کو کامیابی سمجھنے والوں کے سامنے ایک بار پھر یہ سوال لاکھڑا کیا کہ اگر حصولِ اقتدار ہی کامیابی ہے تو پھر مقتدر ترین بادشاہ کی غرقابی کیوں عمل میں لائی گئی؟ گویا قرآن پکار پکار کر ہمیں یہ بتارہا ہے کہ دیکھو نہ تو مال کا حصول کامیابی ہے اور نہ اقتدار کا حصول ہی کامیابی ہے۔ زندگی اتنی بھی سستی نہیں کہ انسان اپنا قیمتی وقت، اپنی نرالی جوانی، اپنی بے پناہ قوتیں، اپنی لاجواب صلاحتیں اور اپنا سب کچھ فقط دنیا اور دنیا کے مال اور اس کے اقتدار کے لیے لگادے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا مال انسان کی ضرورت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اقتدار حاصل کرنے والے دنیا میں عزت والے سمجھے جاتے ہیں اور اقتدار اﷲ تعالیٰ کے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام کو بھی ملا تھا اور اقتدار حاصل کرنے والوں میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، لیکن ان کا نقطہ نظر اور آج کے اقتدار حاصل کرنے والوں کا انداز، مقام اور مطمح نظر برابر نہیں ہوسکتے۔
چار کامیاب ترین عورتیں اور پہلی عورت
دنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں سے اگر ہم کامیاب خواتین کی مثالیں دیکھنا چاہیں تو چار عورتوں کی مثالیں خود کامیابی کے خالق اور ہمارے مہربان مالک نے اپنے رسول کے توسط سے ہمارے لیے بیان فرما دی ہیں۔ جن میں سرفہرست وہ خاتون ہیں کہ جنہوں نے ایک بڑے کروفر والے صاحب اقتدار کے عقد میں اپنی زندگی گزاری تھی۔ لیکن غور کیجیے گا کہ کس شان اور کس طور سے؟ حیرت ہے مال اور اقتدار کو کامیابی کی کلید سمجھنے والے فرعون کے محلات میں رہنے والی سیدہ آسیہ فرعون کے اس مال و منال اور اس کے متکبرانہ اعمال سے ہر طرح سے نفرت کرتی تھیں۔ اقتدار کے نشے میں کیے گئے فرعون کے وہ سارے اعمال کہ جو زندگیوں کو پھانسی پر لٹکادینے یا اپنے مخالفوں کو ذلیل کرنے کے لیے کیے گئے ہوں، یا پھر دنیا کی دولت غصب کرنے کے لیے۔ وہ اعمال چونکہ ایسے ہی ناپسندیدہ تھے، چنانچہ ان اعمال سے اظہارِ نفرت کرتے ہوئے سیدہ آسیہ نے کہا تھا کہ اے میرے رب! مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالیجیے اور محلات میں رہنے کے باوجود انہوں نے کسی اور چیز کو کامیابی قرار دیتے ہوئے اپنے رب سےیہ دعا کی تھی:
اے میرے رب! مجھے بس جنت میں ایک گھر دے دیجیے۔
سیدہ آسیہ سیدنا موسیٰ پرایمان لے آئیں تو انھوں نے اپنا ایمان لانا فرعون سے پوشیدہ رکھا۔ تاہم جب یہ فرعون کے نوٹس میں آگیا تو وہ ظالم، سیدہ کو ایسی سخت سزائیں دینے پر تل گیا کہ جس سے یہ صنف نازک تو کیا کسی سخت جاں آدمی کے لیے بھی اپنے ایمان پر قائم رہنا مشکل ہوجاتا۔ سیدہ نے مگر اپنا ایمان بچانے کی خاطر اپنے سنگ دل خاوند اور ستم گر بادشاہ کا ہر ظلم سہہ لیا اور زندگی کی ہر مشقت جھیل لی۔ فرعون انہیں شہد اور روٹی کھلاکر کڑکتی دھوپ میں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ سیدہ آسیہ کو غشی پہ غشی آتی، لیکن انھوں نے بہرحال جیسے بھی ہوا، اپناایمان بچالیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اصل دولت، اصل اقتدار اور اصل کامیابی بس ایمان ہی پر منحصر ہے، اور اصل کامیابی اس ظالم فرعون کے نہیں، اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ انھوں نے ستم کے ہر دورانئے میں بس اللہ سے یہی ایک التجا کی:
اے میرے رب! میرے لیے جنت میں ایک گھر بنادیجیے۔
فرعون نے سیدہ آسیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک چٹان سے نیچے پھینکوادیا۔ اس وقت سیدہ آسیہ نے اپنے رب سے دعا کرتے ہوئے آسمان کی طرف جو نظر اٹھائی تو کیا آپImagine کرسکتے ہیں کہ اپنے پیارے رب کی خاطر دنیا کی پروا نہ کرنے والی اس بندی کے لیے مولا کی محبت کس طرح سے مچل اٹھی تھی؟ یوں کہ اﷲ رب العزت نے زندگی ہی میں جنت کا پردہ سیدہ آسیہ کے لیے اٹھادیا تھا اور انہوں نے فرعون کا گھر چھوڑنے سے پہلے ہی جنت میں اپنا گھر دیکھ لیا تھا۔
تو ذرا سوچیے کہ پھر کامیاب کون ٹھہرا؟ صاحب اقتدار فرعون یا اس کی بے بس مگر باایمان بیوی؟ یقینا یہ مشکل سوال نہیں ہے۔ گو سیدہ آسیہ نے اپنی زندگی کھودی، لیکن اﷲرب العزت نے ان کی یہ زندگی قبول کرکے انھیں امر کردیا اور فرعون کو اﷲ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لیے عبرتناک مثال بنادیا۔ آج بھی اس کی Dead body لوگوں کی عبرت کے لیے محفوظ اور موجود ہے۔ لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ ملکوں ملکوں اسے پھرایا جاتا ہے۔ میوزیم میں یہ رکھی جانے والیBody کبھی ایک ملک کے لیے عبرت کاسامان بنتی ہے، تو کبھی دوسرے ملک کے لیے بصیرت کا نشان۔ واضح رہے، سیدہ آسیہ کے بارے میں رسول اکرم نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ جنت کی چار سردار خواتین میں سے ایک سیدہ آسیہ ہیں۔ تو دیکھیے دنیا میں بعض اوقات انسان کو مشکلات بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی اپنے رب کی خاطر اس دنیا کو کھو بھی دینا پڑتا ہے لیکن اصل اور لازوال کامیابی تو وہی ہے جو اللہ رب العزت کے ہاں کی کامیابی ہے۔
ہمیں سورہ المومنون کا آغاز دیکھنا چاہیے۔ یعنی ایک ایسے ماحول میں کہ جہاں ایمان والوں کو سخت ایذائیں اور بے پناہ سزائیں دی جارہی تھیں۔ ان پراتنا تشدد کیا جارہا تھا کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا مشکل تھا، ایسے وقت میں رب العالمین نے اس سورہ مبارکہ کا آغاز بھلا کس طرح فرمایا؟ ارشاد ہوا:
یقیناً مؤمن کامیاب ہو گئے ۔(1)
توقصہ یہ ہے کہ جسے ایمان کی مٹھاس اور دولت نصیب ہوگئی، حقیقی کامیاب بس وہی ہے اور الحمدﷲ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
دوسری کامیاب عورت کی کہانی
اسی طرح سے ہم عمران کی بیوی یعنی دوسری کامیاب خاتون کو دیکھتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے عمران کی بیوی کے یہاں جس بچی کو اک عظیم نعمت بناکر بھیجا تھا، وہ دراصل سیدہ مریم علیہ السلام کی والدہ کی دعا کا نتیجہ تھیں۔ جب انہوں نے ایک مرتبہ چڑیا کو دانہ چگتے دیکھا تو ناگاہ ان کے دل میں ایک حسرت پیدا ہوگئی۔ تبھی انہوں نے نذر مانتے ہوئے اس وقت یہ کہا کہ اے میرے رب! اگر تو مجھے بچہ دے دے تو میں اسے تیرے لیے آزاد یعنی وقف کردوں گی۔ دیکھیے آج انھیں گزرے سینکڑوں نہیں ہزاروں سال بیت گئے ہیں، لیکن ان کی دعا آج بھی انسانیت کے لیے رہنما اور معتبر حوالہ ہے۔ اس دھرتی پر کوئی ایسا نہیں جو سیدہ مریم سے ناواقف ہو۔ اﷲتعالیٰ نے ان کی زندگی کو ایسی تابناک مثال بنادیا کہ عیسائی، یہودی، مسلمان اور دنیا کے دیگر تمام مذاہب کے لوگ بھی عیسائیت کے حوالے سے انہیں ضرور جانتے ہیں اور وہ انہیں اسلام کے حوالے سے بھی ضرور جانتے ہیں۔ پھر جب بیٹے کی بجائے لڑکی یعنی سیدہ مریم جب پیدا ہوگئیں تو ان کی والدہ نے یہ کہا تھا کہ اے میرے رب لڑکی تو لڑکے کی طرح نہیں ہوتی۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے لڑکی کو بھی قبول کرلیا اور انہیں بڑی اچھی لڑکی بناکر اٹھایا۔ پھرجس وقت وہ عبادت گاہ میں یاد الٰہی میں مشغول رہتی تھیں، ہیکل میں رہتی تھیں، چھوٹی سی بچی اﷲ تعالیٰ کی اتنی عبادت گزار تھی کہ آج عبادت میں شاید دوسری کوئی ایسی مثال نہیں، جو سیدہ مریم کی مثال ہے۔ کس طرح سے انہوں نے پاک زندگی گزاری کہ سیدنا زکریا علیہ السلام جب کبھی محراب میں جاتے، تو وہ سیدہ کو عبادت گاہ میں اﷲ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے پاتے۔ پھر وہ ان کے پاس رب العزت کی جانب سے آئے تروتازہ پھل پاتے تو سیدنا زکریا کبھی ان سے پوچھنے لگتے: مریم بھلا تیرے پاس یہ پھل کہاں سے آئے ہیں؟ وہ جواب دیتیں: رب العزت کی جانب سے۔
ایسے ہی کسی موقع پر سیدنا زکریا علیہ السلام کے دل میں بھی یہ خیال اور خواہش پیدا ہوگئی کہ اگر مریم کو بے موسم کے تازہ پھل مل سکتے ہیں، تو بھلا مجھے بے موسم کی اولاد کیوں نہیں مل سکتی؟ یقیناً مل سکتی تھی اور آج بھی مل سکتی ہے۔ دراصل رب کی ذات پر یقین ہی سب سے بڑی دولت ہے۔ دیکھیے، سیدنا زکریا علیہ السلام کی دعا میں ہمیں یقین کی یہ دولت کس طرح واضح اور بھر پور نظر آتی ہے، بہرحال انہوں نے دعا کی:۔
اگرچہ میرا سر بڑھاپے کے شعلے سے بھڑک اٹھا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے لیکن پروردگار! میں تجھ سے مانگ کر کبھی نامراد تو نہیں ہوا۔
چنانچہ اﷲتعالیٰ نے انہیں سیدنا یحییٰ عطا فرمادئیے۔ سیدنا زکریا نے بھی رب پر بھروسہ کیا تھا۔ بات یہ ہے کہ رب پر بھروسہ کرنے والے، اس پر توکل کرنے والے، کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سیدہ مریم ہیکل میں رہیں اور جب وہ جوان ہوگئیں تو اﷲرب العزت نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیج دیا، جوبیٹے کی خوش خبری لے کرآیا تھا۔ کنواری سیدہ مریم کے لیے یہ بڑا مشکل اور نازک وقت تھا۔ فرشتے نے جب ان سے یہ کہا کہ میں تجھے بیٹے کی خوش خبری دینے آیا ہوں تو انہوں نے پریشانی اور حیرانی سے کہا تھا کہ بھلا میرے یہاں لڑکا کیسے جنم لے سکے گا؟ کہ جب مجھے کسی مرد نے چھوا تک نہیں؟ فرشتے نے کہا، بہرحال ایسے ہی ہوگا، کہ یہ تیرے رب کا حکم ہے۔ اور پھر سیدہ مریم حمل سے ہوگئیں۔ ایک پھونک تھی جو نورانی فرشتے سیدنا جبریل علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ان کے گریبان میں ماری تھی اور اسی سے سیدہ مریم حاملہ ہوگئی تھیں۔ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں اب وہ اﷲ تعالیٰ کی نشانی کو اپنے پیٹ میں لیے لیے پھرتی رہیں۔ پھرجب مدت تمام ہوئی اور خاص وقت آگیا تو اﷲتعالیٰ کے حکم سے وہ دور ایک مقام پر چلی گئیں۔ اب جب وہ درد زہ سے پریشان ہوئیں تو اس وقت کے سیدہ مریم کے الفاظ قرآن مجید نے نقل فرمائے ہیں۔ کہنے لگیں:
’’کاش! میں کوئی بھولی بسری داستان ہوتی۔ اے کاش! میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔‘‘
یہاں حضرت مریم نے جو اس قدر پریشانی کا اظہار کیا تھا تو وہ اس وجہ سے کہ ایک پاک باز کنواری لڑکی کے یہاں بچے کی پیدائش ہرگز کوئی چھوٹا معاملہ نہیں تھا۔ نہ کل تھا نہ آج ہے۔ پھر وہ ہیکل کی ایک خدمت گار بھی تھیں، یعنی اﷲ کی عبادت کے لیے وقف ہوجانے والی لڑکی۔ کون ہے جو آج بھی اپنی بیٹی کو یوں وقف کرسکتا ہو؟ پھر وہ دور کہ جب کوئی بچی وقف کرنے کی روایت ہی نہیں تھی۔ کس طرح سے حضرت مریم کی والدہ نے انہیں وقف کیا ہوگا؟ یہ سب کچھ تھا، مگر دیکھیے اﷲ رب العزت نے بھی پھر ان سے کتنی بڑی اور کیسی یادگار خدمت لی۔ یعنی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کی ہمیشہ زندہ رہنے والی خدمت۔ خیر اس موقع پر اللہ رب العزت نے بھی کیسے ان کو تسلی دی اور فرمایا:
اور تم کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، یہ تمہارے اوپر تروتازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گا۔ (مریم:25)
مزید اللہ تعالیٰ نے آپ کے قریب ایک چشمہ جاری فرما دیا اور فرمایا کہ ٹھنڈا پانی پیو اور تازہ کھجوریں کھاؤ۔ یہ بھی سوچیے کہ ایسے وقت میں اور ایسی حالت میں حضرت مریم نے کھجور کا وہ توانا تنا کیسے ہلایا ہوگا؟ کھجور کا درخت جس کسی نے دیکھا ہے اس کو پتہ ہے کہ کھجور کا تنا اتنی آسانی سے ہلایا نہیں جاسکتا، لیکن یہ اﷲ رب العزت کی طرف سے ایک نشانی تھی۔ بہرحال حضرت مریم کے لیے تسلی کا ایک سلسلہ حضرت عیسیٰ پیدا ہوگئے۔ جب آپ اس نومولود کو گود میں لے کر اپنی قوم کے پاس آئیں تو لوگوں نے مارے حیرت کے دانتوں میں انگلیاں دبالیں اور کہنے لگے کہ اے مریم یہ تو نے کیا پاپ کرڈالا؟ نہ تو تیری ماں غلط عورت تھی اور نہ تیراباپ ہی کوئی برا آدمی تھا، یہ تو نے مگر کیا کر ڈالا؟
حضرت مریم نے اﷲکے حکم سے بس بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ جو پوچھنا ہے اسی بچے سے پوچھ لو۔ لوگوں نے کہا ہم اس سے کیا پوچھیں کہ جو جھولے میں پڑا ہوا بچہ ہے۔ اتنے میں حضرت عیسیٰ بول اٹھے:
میں اﷲ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے رسول اور نبی بنایا ہے اور مجھے اپنی والدہ کا فرمانبردار بیٹا بنایا ہے۔
چنانچہ اﷲ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم کو لوگوں کی ہمیشہ تازہ و توانا رہنے والی یادوں میں چھوڑدیا۔ آج زمانے بیت گئے لیکن حضرت مریم کا تذکرہ آج بھی زندہ ہے۔ سیدہ نے اگر رب کا حکم مانا، اگر پاکیزہ زندگی گزارنے کے باوجود اولاد کو قبول کیا۔ اس کی پرورش کی اور سیدہ اﷲ رب العزت کے حکم کے تحت چلیں تو اﷲ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں ان کے کردار اور اطوار کی گواہی ہمیشہ کے لیے ثبت فرمادی ہے۔
غور کیجیے کہ جس خاتون نے اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کی تھی۔ تمام خواتین میں سے سب سے زیادہ حیا والی وہ خاتون بھی اﷲ کی طرف سے کتنی بڑی آزمائش میں مبتلا کی گئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت کی سردار خواتین میں سے ایک ہیں۔ چار خواتین میں سے، چار کامیاب ترین خواتین میں سے، سب سے نمایاں کامیابی حاصل کرنے والیوں میں سے ایک خاتون حضرت مریم ہیں۔ یہ ہے کامیابی کا کچھ تذکرہ۔ دو کامیاب عورتوں کی داستان آپ نے سن لی۔ باقی قرآن کی دو کامیاب ترین خواتین کی داستان حیات کے اسباق ان شاء اللہ ہم اگلی نشست میں بیان کریں گے۔ دعا ہے کہ اللہ عمل اور فہم کی توفیق دے۔ (جاری ہے)
(میڈم نگہت ہاشمی تعلیم یافتہ خواتین اور بالخصوص ایلیٹ کلاس میں اپنے اسلامی کام سے پہچانی جاتی ہیں۔ آپ نے اسلامی ثقافت پر تھیسس لکھا۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں پڑھایا اور پھر خواتین کےجدید طبقے کو قرآن سکھانے کے لیے وقف ہوگئیں۔ آپ کئی کتابوں کی مصنفہ، اور ملک بھر میں پھیلے خواتین کی سماجی و دینی بہبود کے ذمہ دار ادارے ”النور انٹرنیشنل“ کی سی ای او ہیں۔ دلیل کے لیے آپ نے خصوصاً وقت نکالنے کی حامی بھری ہے اور یہ اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے)
تبصرہ لکھیے