ہوم << جب اصول پسندی کی جیت ہوئی - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

جب اصول پسندی کی جیت ہوئی - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

اصول پرستی ادارے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتی ہے اور بے اصولی اسی ادارے کو مفلوج کردیتی ہے۔
میں لاہور کے ایک مشہور سرکاری ٹیچنگ گائنی اسپتال میں ہائوس جاب کررہی تھی۔ ینگ ڈاکٹر پرعزم اور اصول پرست، جس کے نزدیک اصول سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔
میری ڈیوٹی آئی سی یو انچارج کی تھی۔ آئی سی یو 3 اسپتال کا ماڈل آئی سی یو کہلاتا تھا۔ خوبصورت ائیر کنڈیشنڈ ماحول۔۔۔ دیوار گیر بلوریں گملوں میں تروتازہ منی پلانٹ اپنی بہار دکھاتے تھے۔ آئی سی یو میں 20 بیڈز تھے اور ہر وقت انتہائی critical مریضوں سے بھرے رہتے تھے۔ ان میں ہائی بلڈ پریشر سے دورے پڑتی خواتین بھی ہوتیں اور ان کنٹرولڈ شوگر والی حاملہ عورتیں بھی۔۔۔ اسی طرح ایک سے زیادہ یعنی twins triplets or quadruplets والی خواتین بھی پائی جاتیں۔
صفائی کا انتظام عمدہ تھا۔ روزانہ دو بار جراثیم کش ادویات والا پوچا لگایا جاتا اور ہر اتوار کو وارڈ دھلوایا جاتا۔ اسپتال کے پرسکون گوشے میں ہونے کی وجہ سے خاموشی بھی بہت تھی۔ اونچی اونچی پرانی چھت والے اسپتال میں یہ نیچی چھت والا نسبتاً نیا بلاک تھا۔
آئی سی یو کا ایک decorum تھا کہ وہاں آپ باہر کا جوتا پہن کر داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ وارڈ کے دروازے کے سامنے میڈیکل کرٹن لگا ہوتا۔ آپ سب نے دیکھا ہوگا، سفید کپڑے کا بنا پردہ، جو فولادی کھانچے میں فٹ ہوتا ہے اور یہ کھانچہ پہیوں پر کھڑا ہوتا ہے اور حسب ضرورت کہیں بھی لے جایا جاسکتا ہے۔
بس صاحبو! اس پردے اور وارڈ کے داخلی دروازے کے درمیان ایک سرخ رنگ کی لکیر سے حد بندی کی گئی تھی۔ اس سرخ لکیر کو باہر کے جوتوں سمیت آپ تب ہی پار کرسکتے تھے جب آپ اپنی جاب کے دشمن ہوجائیں یا آپ نے شوز کور پہن رکھا ہو۔ اسٹینڈرڈ رائج طریقہ جوتے بدل کر وارڈ کی نیلی اور سفید اسفنج چپل پہننا تھی۔ اس اصول کو ہر کوئی آبزرو کرتا تھا۔ بشمول وارڈ کے کرتا دھرتا پروفیسر صاحب کے۔
ڈیلی مارننگ رائونڈ پروفیسر صاحب کرتے تھے، جس میں ان کے ساتھ موجود تمام ڈیوٹی ڈاکٹرز بشمول اسسٹنٹ اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز۔ ایس آرز، ایم اوز اور ہائوس سرجنز باجماعت جوتے بدلتے تھے اور پھر وارڈ رائونڈ اٹینڈ کرتے تھے۔ جس کے حصے میں چپل نہیں آئی یا شو کور میسر نہیں، وہ باہر ٹھہرے اور قیمتی تعلیمی لیکچر سے محروم رہتے۔ ہائوس سرجنز اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے، سو اکثریت نے اپنے اپنے شو کور کا انتظام کیا ہوتا۔
دوسرا رائونڈ سرکاری مینجمنٹ کا ہوتا تھا، جس میں ایم ایس، ڈی ایم ایس اور ان کے چیلے چانٹے شامل ہوتے۔ یہ رائونڈ عموماً روزانہ نہیں ہوتا تھا۔ یادش بخیر میرے دور آئی سی یو میں جو ایک ماہ پر مشتمل تھا، میں نے یہ رائونڈ ایک ہی دفعہ دیکھا۔
خیر اگر پروفیسر وارڈ کا بادشاہ ہوتا ہےتو ایم ایس اسپتال کا بادشاہ ہوتا ہے، اور ایک ہائوس سرجن چونکہ چھ ماہ یا ایک سال کی ٹریننگ پر ہوتا ہے تو سب سے زیادہ کام کرنے کے باوجود سب سے کمزور مخلوق ہوتا ہے، لیکن تنخواہ وصول کرنے اور تربیتی سرٹیفیکیٹس پر مہر لگوانے کے علاوہ اس انتظامیہ سے ہائوس سرجن کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔
ایک روشن صبح ایم ایس صاحب آئی سی یو کے دورے پر آپہنچے۔ میں اپنے وارڈ کی انچارج تھی۔ ایک 15 سے 20 مردوں کی ٹیم جس نے اوور آلز بھی نہیں پہن رکھے، وہ ایکدم سے وارڈ کے دروازے پر آپہنچے کہ رائونڈ ہونا ہے۔ میں نے وارڈ انچارج ہونے کی حیثیت سے حکمیہ طرزِ تخاطب میں پوچھا کہ آپ کون ہیں اور زنانہ وارڈ میں اتنے مردوں کا داخلہ کیونکر ممکن ہے؟ جب بتایا گیا کہ یہ اسپتال انتظامیہ ہے، تب میں نے صرف دو لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دی۔ ایک ایم ایس اور دوسرا جو انہیں وارڈ کے انتظامی مسائل کے متعلق آگاہ کرسکے۔
ایم ایس صاحب سرخ لکیر کو جوتوں سمیت پار کرنے لگے تو میرے اندر کے اصول پرست ڈاکٹر سے برداشت نہ ہوا اور انہیں ایک دن میں دوسری دفعہ ٹوکنے کی جسارت کربیٹھی۔ ”سر! آپ براہِ مہربانی جوتے تبدیل کرلیں۔“
ایم ایس صاحب نے کچھ برا منالیا اور پردے کی اوٹ سے وارڈ میں جھانک کر واپس چلے گئے۔ واپسی کے راستے میں ایک ہائوس آفیسر کی ہمت پر تلملائے یا اس کی بدتہذیبی پر چراغ پا تھے، کچھ خبر نہیں۔
وارڈ کی سینئر اسٹاف نرس نے مجھے ڈرایا ”ڈاکٹر صاحبہ! یہ آپ نے غضب کردیا، اب آپ کو ٹرمینیشن سے کوئی نہیں بچاسکتا۔“
”کیوں بھئی میں نے کیا غلط کیا۔“ میرا ضمیر مطمئن تھا۔ سو کندھے اچکا دیے کہ let's see what happens .
بہرحال حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے پروفیسر صاحب کو تمام واقعہ بلاکم و کاست سنادیا۔ وہ مسکرائے بلکہ ہنسے اور کہا جائو کچھ نہیں ہوتا۔
اگلے روز ایم ایس کے مصاحبین میں سے ایک زیادہ وفادار مصاحب آکر مجھے دھمکا گیا کہ ایم ایس نے آپ کا نوٹس لے لیا ہے اور وہ بہت ناراض ہیں، بس آپ اپنی جاب کی خیر منائیں۔
اب پٹھان کا غصہ دماغ کو کنٹرول کرنے لگا۔
جس کے بعد عقل کا بند، غصے کے سیلاب کے سامنے خس و خاشاک کا ڈھیر ثابت ہوتا ہے۔ اس مصاحب کو تو ڈانٹ کر بھگایا جو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور سیدھے سبھاو ایم ایس آفس جاپہنچی۔ سلام کے بعد پوچھ لیا سر اس سب کا مطلب؟
”کس سب کا ڈاکٹر صاحب؟“
”یہ جو بندے بھیج کر مجھے ہراساں کیا جارہا ہے!“
”کس بات پر ڈاکٹر صاحب! کون، کیا کررہا ہے؟“
غصے سے اونچی آواز میں، میں نے مصاحب کے کارنامے سے ایم ایس کو آگاہ کیا اور لگے ہاتھوں ان سے یہ بھی پوچھ لیا کہ اگر آپ کے اسپتال کے قواعد کا آپ ہی خیال نہیں رکھیں گے اور جو خیال رکھے گا اسے ڈرایا دھمکایا جائے گا تو ایسے نظام کو ڈوبنے سے کون بچاسکتا ہے۔
تجربہ کار دھیمے مزاج ایم ایس نے میری بات سنی۔ میرے غصے کے پیچھے چھپے خوف کو پہچانا۔ معذرت اور تسلی دے کر واپس بھیجا اور اس مصاحب کی گوشمالی کا وعدہ کیا۔ اس دن کے بعد سے میرے دل میں ایم ایس کا احترام پیدا ہوا اور اصول پر قائم رہنے کی عادت مزید پختہ ہوئی۔ اس مصاحب سے بعد ازاں آمنا سامنا تو ہوا، لیکن وہ کترایا ہی رہا۔ اب سوچتی ہوں تو سمجھ آتا ہے کہ جہاندیدہ ایم ایس نے نہ صرف اپنی عزت کروائی بلکہ ایک بغاوت کو اٹھنے سے پہلے روک دیا۔
ادارے ہمیشہ اصول پر قائم رہتے ہیں اور اصول پر پھلتے پھولتے ہیں۔ بےاصولی کہیں بھی ہو، کوئی بھی کرے، اسے اصول کے درجے میں فٹ نہیں کیا جاسکتا۔

Comments

Click here to post a comment