خرم شفیق ہمار ا ہر دلعزیز دوست ہے۔ اس کی باغ و بہار شخصیت کی وجہ سے علمی سفر کے چھ سال پر لگا کر اڑ گئے۔ وہ مظفر آباد کا رہنے والا ہے اور اکتوبر 2005ء کے الم ناک اور قیامت خیز زلزلہ کی تباہیوں کا عینی شاہد ہے بلکہ خود بھی موت کو قریب سے دیکھ چکا ہے۔ رمضان کے مہینے میں تراویح میں قرآن سنانے کی تیاری میں مصروف تھا۔ خرم شفیق کہتا ہے کہ ہم نے بچوں کو اسکول کے لیے تیار اور رخصت کیا۔ بعض خوشی خوشی جارہے تھے اور بعض منہ بسورتے ہوئے خود کو گھسیٹ رہے تھے۔ گھر کے لوگ گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئے اور میں تلاوت کے لیے مسجد کی طرف چل پڑا کیونکہ تراویح میں پارہ سنانا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ میں تلاوت کر رہا تھا اور ابھی کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ ایسا لگا کسی نے اٹھا کے دیوار پر پٹخ دیا ہو ۔ کچھ ہوش و حواس بحال ہوئے تو ہر طرف اندھیرا اور سر کے اوپر ملبے کا ڈھیر۔ جسم کے کسی عضو ، کسی حصے کو حرکت دینا محال۔ ہاتھ ہلائوں تو آہ، پائوں کو جنبش دوں کو کراہ۔ منہ میں مٹی، آنکھوں میں دھول۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ یاس و امید کی کشمکش جاری تھی۔ بارہا زندگی موت سے ہارتے ہارتے جی اٹھی۔ اور ہزار ہا بار موت کو غالب آتے دیکھا۔ عجیب بے بسی اور بے کسی کا عالم تھا۔ گھنٹے گذر گئے۔
آب و دانہ باقی تھا سو سورج کی روشنی نظر آئی۔ باہر کی دنیا ہی اتھل پتھل ہو چکی تھی۔ سبزہ زاروں میں ٹین کے چمکتے چھتوں والے سفید گھر کھنڈر بن گئے تھے۔ افراتفری اور
شور وغوغا۔ جن چہروں کو مسکراتا چھوڑا آیا تھا ان پر خوف کے سائے، مٹی کی تہہ اور خون کا غازہ دیکھ رہا تھا۔ انگلیاں پکڑ کر اور ناز کے ساتھ گود میں اٹھا کر بچوں کو سکول
چھوڑنے والے بچوں کی لاشیں لارہے تھے۔ جگر کے ٹکڑوں کو آنسوئوں کی لڑیوں سمیت زمین کے حوالہ کررہے تھے ۔ کسی کو باپ ، کسی کو ماں ، کسی کو بھائی اور بہن ، کسی کو رفیقہ حیات اور کسی کو رفیق زیست کی جدائی کی جانکاہ خبریں مل رہی تھیں تو بہت سارے بد قسمتوں کو ان سب کے ایک ساتھ چلے جانے کی خبریں مل رہی تھیں۔ کیسے پل بھر میں خاندان کے خاندان پیوند خاک ہوگئے۔ اس درد کو الفاظ میں سمیٹنا مشکل ہے۔ گھڑیاں، لمحے، دن، ماہ و سال بیت گئے مگر کرب و الم کی کیفیت اور ریڑھ کی ہڈی میں مستقل درد نے یہ قیامت خیز لمحات آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیے۔
خرم شفیق جس وقت ان کرب ناک حالات سے گذر رہا تھا، اس وقت وہ پچیس سال کا جوان رعنا تھا مگر جو واقعات اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، وہ اس کے عزم و حوصلہ کو پارہ پارہ کرنے کو کافی تھے۔ ان کے سامنے تو بڑے جگر والے بھی ڈھا گئے تھے۔
ان قیامت خیز لمحات کو آنکھوں کے سامنے رکھتے ہوئے آئیے ذرا شام کی سرزمین کو چلتے ہیں۔ ایان کردی تو یاد ہی ہوگا اور کیسے بھلایا جا سکتا ہے. سرخ شرٹ میں ملبوس ساحل سمندر پر اوندھے منہ ابدی نیند سونے والا ایان۔ شام کی جنگوں سے بے زار اور تھکاوٹ سے چور ایان نے بوٹ تک نہیں اتارے تھے۔ ساحل سمندر پر اس پھول کی طرح پایا گیا جو عاشق کے ہاتھ سے گر گیا ہو اور جس کو کسی محبوبہ کا لمس میسر نہ آیا ہو۔ ذرا تصور کیجیے کیسے ہوں گے وہ لمحات جب ایک ماں بپھرے لہروں سے لڑرہی ہو۔ خود اس کی جان پر بنی ہو مگر اس کا لخت جگر اس کی آنکھوں کے سامنے بے رحم لہروں کی آغوش میں چلے جا رہا ہو۔ اس باپ کو تصور میں لائیے جس کو شریک حیات اور جگر گوشوں کےگزر جانےکی خبر ایک ساتھ ملے۔
تسلیم کہ ماں باپ کا دکھ بھی پہاڑ سے بھاری ہوتا ہے مگر ان معصوم بچوں کا تصور کیجیے جن کی عمر ابھی صرف مسکرانے کی ہے مگر ان کی آنکھیں آنسو سے لبریز ہیں۔ ان کے کانوں میں ماں کی لوریوں کی سریلی آوازیں ہونی چاہیے مگر ان کے کان جنگی جہازوں اور بموں کے پھٹنے کی آوازوں سے آشنا ہیں۔ ان کو ماں کی آغوش میں ہونا چاہیے مگر وہ میزائلوں سے زمیں بوس عمارتوں کے ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔ ان کو دادا یا نانا کے انتقال پر یہ باور کروانا چاہیے تھا کہ دادا یا نانا اللہ کو پسند آیا تو اپنے پاس روک لیا مگر وہ اپنے بہن بھائیوں کو خود موت کی وادیوں میں گم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جس عمر میں ان کے ہاتھ میں پھول ہونے چاہیے تھے، اس عمر میں خون سے تر بتر ہیں۔ جس عمر میں بچے اندھیرے سے ڈرتے ہیں اس عمر میں وہ روز بمباری سے اڑنے والے گرد و غبار کی اندھیروں کو دیکھتے ہیں۔
سوچتا ہوں جن اندوہناک حالات کو تیس سالہ خرم شفیق بھی گیارہ سال بعد نہ بھلا سکا، ان حالات کو سرزمیں شام کے چھ سات سالہ بدقسمت بچے کیسے سہہ رہے ہوں گے۔ جن حالات کی وجہ سے جوان اور ادھیڑ عمر لوگ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں وہ حالات ان معصوم اذہان کو کیسے ادھیڑتے ہوں گے۔ ان کے ننھے دلوں میں دہشت کی کیسی کیسی شکلیں بنتی بگڑتی ہوگی۔ بچپن جتنا سہانا ہوتا ہے شام کے معصوم بچوں کے لیے اس سے کئی گنا وحشت ناک بن چکا ہے۔ ہمارے آنگن میں آنکھ کھولنے والی کلیاں ہمیں شاد کیے رکھتی ہیں، وہی کلیاں سرزمین شام میں حالات کی باد سموم سے مر جھا چکی ہیں۔
تبصرہ لکھیے