ہوم << دھرتی کی جنت میں گزرے دو دن - سعید الرحمن

دھرتی کی جنت میں گزرے دو دن - سعید الرحمن

%d8%b3%d8%b9%db%8c%d8%af-%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%86 صبح سویرے وقت کی پابندی کرتے ہوئے جب دفتر پہنچا تو وہاں کوئی نہیں تھا ۔سوچا چلو تھوڑی دیر تک سارے ساتھی پہنچ جائینگے مگر کافی دیر انتظار کے بعدسوائے ایک دو ساتھیوں کے کوئی نہیں پہنچا۔ وہاں پہنچنے والے ساتھیوں سے مشورے کے بعد دیگر دوستوں سے رابطے شروع کردیے ، دیکھتے دیکھتے 11 بج گئے تب ساتھی دفتر پہنچے مگر سامان سفر ہمراہ لانا بھول گئے۔ تبھی کچھ ساتھی سامان خریدنے اور کچھ دیگر کام نمٹانے میں لگ گئے، اتنے میں گاڑی بھی پہنچ گئی۔ کام نمٹانے کے بعد ہم گاڑی میں بیٹھ کر جانب منزل روانہ ہوئے۔ ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں سفر کیسے کٹا پتا ہی نہیں چلا اور ہم گاہکوچ پہنچ گئے۔ وہاں کچھ دیر کھانے کے لیے رکے اور تھوڑا سستانے کے ساتھ ساتھ کچھ اور سامان خرید لیا۔ کھانے کے بعد دوبارہ گاڑی میں بیٹھے اور سفر کی دعا پڑھ کر سفر کا آغاز کردیا۔ حسین و پرکشش وادی غذر سے ہوتے ہوئے جب ہم پھنڈر ویلی پہنچے تو رات کے 9 بج رہے تھے۔ دوستوں کے مشورے سے وہی دریا کے کنارے کھلے میدان میں رات کے لیے ٹھہرنے کا فیصلہ ہوا۔گاڑی سے سارے لوگ اترے اور کچھ دوست ٹینٹ لگانے میں اور کچھ کھانا پکانے میں لگ گئے۔ باقی ساتھی رات کے اندھیرے میں پھنڈر ویلی کی ٹھنڈی ہوائوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔
تاریخ میں وقت کی پابندی ترقی یافتہ قوموں کی ایک بہت بڑی خوبی رہی ہے مگر افسوس ہم اس خوبی سے محروم ہیں، شاید اسی لیے ہماراشمار ترقی یافتہ قوموں میں نہیں کیاجاتا۔ اس دن بھی صبح 7 بجے دفتر پہنچنے کا طے ہوگیا تھا مگر حسب سابق سبھی حضرات بہت ہی دیر سے پہنچے۔ خیرسفر کے دوران ہنسی مذاق ہوتا رہا کبھی بیت بازی تو کبھی ٹاک شوز اور کسوٹیاں کرتے ہوئے سفر کو پرلطف بنایا مگر کسی لمحہ اخلاقیات سے ہٹ کر کوئی بات کسی دوست نے نہیں کی۔ ہمارے معاشرے میں جب کچھ ہم عمر نوجوان ایک ساتھ اکٹھے کہیں جائیں یا کہیں جمع ہوں تو ان سے مثبت عمل کی امید کم ہی ہوتی ہے مگر اس پورے سفر میں کہیں بھی اور کسی بھی موقع پر کسی ساتھی نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی جو اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہو۔ دراصل یہی ان نوجوانوں کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ زندگی کے اس سٹیج پر جہاں دوسرے لوگ بے مقصد اور کورے کاغذ کی طرح بالکل خالی الذہن ہوتے ہیں وہاں یہ لوگ ایک بامقصد زندگی کے ساتھ ساتھ صحیح اور غلط کی پہچان کرنا بھی سیکھ گئے تھے۔ ورنہ اس عمر کے لڑکے جب کہیں جاتے ہیں تو سفر کی دعا تو درکنار سفر کے دوران کوئی اچھی بات کرنا جیسے اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں مگر اس سفر کی ابتدا ہی سفر کی دعا سے ہی ہوئی۔ اسی لیے گاڑی میں بیٹھتے ہی ایک ساتھی نے سفر کی دعا اونچی آواز میں پڑھائی اور باقی ساتھی اس کے ساتھ دعا کے الفاظ دہراتے گئے۔ درحقیقت یہی سب سے مثبت عمل تھا جس نے پورے سفر میں کہیں بھی شیطان کو اس محفل میں داخل ہونے نہیں دیا۔
اکثر دیکھاگیا ہے کہ کچھ دوست مل کر کہیں جاتے ہیں تو ان میں کچھ چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جو لاڈلے اور نرالے کہلاتے ہیں۔گھروں میں ان کو کچھ زیادہ ہی لاڈ پیار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دنیا کی دیگر مشکلات سے یہ حضرات بےخبر رہتے ہیں اور جب اچانک ان کو کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو ان کے چہرے پر شکنیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسے دوست موجود تھے جو ہمیشہ گاڑیوں پر سفر کرنے کے عادی تھے اور پیدل ایک گھنٹے کا راستہ طے کرنا ان کے لیے گویا پہاڑ کھودنے کے مترادف تھا۔ مگر وہاں تو سبھی اپنی ہی فکر میں مست تھے تو ان کا کون پوچھتا، اس لیے انہوں نے بھی چپ رہنے اور ساتھ چلنے پر اکتفا کرلیا۔ رات کو جب کھانا تیار ہوا تو سارے دوست کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھ گئے اور کھانا کھایا۔ پھر مختلف موضوعات پر گفت و شنید ہونے لگی اور پتا ہی نہیں چلا کہ رات کے 2 بج گئے، میں چند ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے کر گاڑی میں سونے کے لیے گیا تو باقی ساتھی بھی سوگئے۔
رات کے 3:30 بجے اچانک آنکھ کھلی تو گاڑی کے قریب ہی آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے نظر آئے جب غور سے دیکھا تو اپنے ہی کچھ ساتھیوں کو آگ کے گرد بیٹھے آگ سینکتے دیکھ کر سکون ہوا۔ پھر کیا تھا میری بھی نیند غائب ہوگئی اور مجھے بھی نہ چاہتے ہوئے ان دوستوں کی محفل میں شامل ہونا پڑا۔ یوں ہی ادھر اودھر کی گپ شپ کے بعد صبح کی نماز کا وقت ہوا تمام ساتھیوں کو جگایا۔ ساتھیوں نے نماز اد ا کی پھر کچھ ساتھیوں نے ناشتہ تیار کیا۔ ناشتے کے بعد ہم پھر گاڑی میں سوار ہوئے۔ اس بار ہماری منزل ہندراپ جھیل تھی جو ٹیرو سے پہلے اور ضلع غذر کا تقریبا آخری گاوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا وہی تھی۔ ہندراپ جاتے ہوئے صبح صبح ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی جنت میں سے گزر رہے ہوں. ہر طرف سرسبز و شاداب کھیت اور اونچے اونچے برف پوش پہاڑ دل کو موہ لینے والا نظارہ پیش کررہے تھے۔ وادی غذر کو اللہ تعالی نے واقعی زمیں پر جنت سے کم نہیں بنایا۔ دلکش و سرسبز یہ وادی دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں سے دوست و احباب گلگت بلتستان کی سیر کے لیے آتے ہیں تو ان کا پہلا ہدف ہنزہ ہوتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہنزہ کی جگہ ان کا پہلا ہدف غذر ہو تو ان کی سیر کو چار چاند لگ جائیں گے۔ ہنزہ کی خوبصورتی اپنی جگہ مگر غذر کی نسبت کم ہے۔ چونکہ ہنزہ کی تشہیر زیادہ ہوئی ہے تو لوگ گلگت بلتستان کا نام آتے ہی ہنزہ کو ہی گلگت بلتستان سمجھ بیٹھتے ہیں۔
بحر حال پھنڈر سے تقریبا پونے گھنٹے کے بعد ہم ہندراپ گائوں سے گزر رہے تھے۔ جہاں آپ سیر کر رہے ہوں اور پھر وہ بھی غذر جیسی حسین و جمیل وادی کی تو فوٹوگرافی کے بغیر کیسے چین آتا۔ سفر کے دوران بھی گاڑی روک کر تصویر کشی کرتے رہے۔ قدرتی حسن کے چند مناظر ہم نے بھی کیمرے میں محفوظ کرلیے۔
آخر وہ لمحہ آ ہی گیا۔ اب ہم ہندراپ گائوں میں موجود تھے اور جھیل تک پہنچنے کےلیے ہمیں پیدل 3 گھنٹوں کا سفر کرنا تھا۔ یہ 3 گھنٹے تو وہاں کے مقامی لوگوں کے لیے تھے، ہم چونکہ نئے تھے تو کیسے اتنے کم وقت میں اتنا لمبا راستہ طے کرسکتے تھے؟ چرواہوں کے بوجھ لادنے والے گدھے بھی قریب ہی تھے، ان سے پوچھا تو ایک گدھے کا صرف بوجھ لاد کر جھیل تک کا کرایہ 1500 روپے بتانے پر ہم نے مزید اسی طرف توجہ نہیں دی اور سامان سفر تمام ساتھیوں میں تقسیم کر کے جھیل کی طرف پیدل مارچ شروع کردیا۔ ٹھیک چار گھنٹوں کے بعد ہم چند ساتھی جھیل پر پہنچے تو دیکھا باقی قافلہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔ ہماری بھی حالت قابل تشویش تھی۔ پائوں سکڑ چکے تھے۔ کچھ دوست وہیں لیٹ کر سستانے لگے اور کچھ دوست مچھلی پکڑنے چلے گئے مگر مجھ میں اتنی طاقت نہیں بچی تھی کہ مچھلیاں پکڑتا، مچھلی پکڑنا تو درکنار دوسرے دوست کیسے یہ سب کرتے ہیں یہ بھی دیکھنے کی خواہش جاتی رہی۔ خیر خوب پانی پینے کے بعد کچھ سکون سا محسوس ہوا مگر جو دوست پیچھے رہ گئے تھے ابھی تک نہیں پہنچے تھے، ہمارے ذہنوں میں سوال پیدا ہو رہا تھا کہیں وہ لوگ واپس جا کر گاڑی میں ہی تو نہیں بیٹھے ہوں گے؟ پھر ہمارے پہنچنے کے دو گھنٹے بعد پیچھے رہنے والا قافلہ بھی پہنچ گیا مگر ان کی حالت دیکھ کر ترس آرہا تھا۔ پہنچتے ہی ان میں سے کچھ پانی پر تو کچھ کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑے کہ جیسے برسوں کے بھوکے پیاسے ہوں۔ پانی پینے کے لیے کچھ دوست ایسے بیٹھ گئے جیسے جھیل ہی خالی کردیں گے۔
کھانے پینے کے بعد تمام دوستوں میں جان آگئی تھی اور اب تمام لوگ مچھلیوں کے شکار کے لیے بیتاب تھے۔ باری باری تمام دوستوں نے مچھلیوں کا شکار کرنا چاہا مگر سوائے چند کے کوئی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ اکثر پہلی بار مچھلیاں پکڑ رہے تھے. ٹیکنیک کسی کو نہیں معلوم تھی کہ کیسے مچھلیاں جال میں پھانسی جاتی ہیں؟ پھنڈر سے جھیل جب ہم جارہے تھے تو راستے میں مجھ سمیت اکثر دوستوں کا یہی کہنا تھا کہ شام تک واپس ہندر اپ گائوں پہنچ جائیں گے اور رات کو واپسی کریں گے مگر جب پیدل سفر کر کے جھیل پہنچے تو دشوارگزار راستے کی وجہ سے دل کر رہا تھا کہ کبھی وہاں سے واپس آئیں ہی نہیں مگر آنا تو تھا ہی، اس لیے وہ رات وہی جھیل کے قریب ٹینٹ لگا کر گزاری۔ صبح جاگا تو کچھ دوستوں نے چائے تیار کر لی تھی اور باقی حضرات سو رہے تھے۔ ناشتے میں کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی، دو کپ چائے پینے کے بعد دیکھا باقی دوست بھی جاگے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر کہ چائے بھی ختم ہو چکی ہے، وہ لوگ غصے سے لال پیلا ہونے لگے مگر اس وقت سوائے چپ رہنے کے اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر بعد انہی ساتھیوں نے مچھلیوں کا روسٹ تیار کیا۔ مچھلیوں کے روسٹ سے ایک بات یاد آئی، شاید آپ حضرات کے ذہن میں آ رہا ہو کہ درجنوں مچھلیاں پکڑی اور روسٹ کی ہوں گی مگر صورتحال اس سے بالکل مختلف تھی۔ آٹھ، دس گھنٹوں کی انتھک کوشش کے بعد صرف تین ہی مچھلیاں پکڑنے میں ساتھی کامیاب ہوئے اگرچہ تصویر ہر ایک نے مچھلی کے ساتھ بنائی۔ خیر پھر کیا تھا مچھلی کا روسٹ تناول کے بعد پھر سے اسی راستے واپس ہندراپ گائوں کی طرف روانہ ہوئے۔ جس راستے کو ہم نے پہلے چار گھنٹوں میں اور کچھ دوستوں نے چھ گھنٹوں میں طے کیا تھا، اب دو گھنٹوں میں طے کر کے واپس اسی جگہ پہنچے جہاں سے ہم نے پچھلے دن پیدل سفر کا آغاز کیا تھا۔ پھر اسی گاڑی میں سوار ہوکر واپس گھروں کا رخ کیا اور ٹھیک رات 9 بجے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اس طرح ایک بہترین اور پرلطف ٹور کے بعد ہم اپنے گھروں کو واپس پہنچے۔
گلگت بلتستان کو اللہ تعالی نے قدرتی حسن سے مالامال کیا ہے۔ ہر طرف سرسبز ہریالی جادوئی نظارہ پیش کرتی ہے، سفر کے دوران بل کھاتی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ڈر لگنے لگتا ہے. پھر اپنے مقام پر پہنچ کر یقین نہیں آرہا ہوتا کہ زندہ اور سلامت واپس اسی راستے سے گھر پہنچے ہیں. پھر جب پہاڑوں کی طرف دیکھتے ہیں تو لگتا ہے جیسے پہاڑوں نے برف کی چادریں اوڑھ لی ہوں، اونچی اونچی آبشاروں کو دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ اس خطے کی ہر چیز بےمثل اور بےنظیر ہے، ایک بار دیکھنے والا بار بار دیکھنے کا اشتیاق کرتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment