ہوم << اُف، یہ انگلش میڈیم - ہمایوں مجاہد تارڑ

اُف، یہ انگلش میڈیم - ہمایوں مجاہد تارڑ

ہمایوں تارڑ ذرا تصور کریں، چوتھی یا پانچویں جماعت کا بچّہ درج ذیل انگریزی زبان میں لکھی عبارت کو رٹنے کی مشقّت میں اپنی بیسیوں قیمتی ساعتیں گھلائے چلا جاتا ہے تاکہ پرچہ امتحان پر یہ الفاظ کامیابی سے انڈیل سکے، تاکہ پاس ہو جائے، تاکہ شرمندہ ہونے سے بچ جائے، تاکہ اگلی جماعت میں کسی طرح پروموٹ کر دیا جائے۔ یاد کرتا ہے، لکھتا ہے، پھر بھول جاتا ہے، پھر یاد کرتا ہے، اور با لآخر اگلی صبح مضطرب دل لیے آیت الکرسی کا ورد کرتے سکول کے لیے رخصت ہوتا ہے:
Photosynthesis is a process used by plants and other organisms to convert light energy, normally from the Sun, into chemical energy that can be later released to fuel the organisms' activities (energy transformation).
پوری ایمانداری سے کہیے، کیا بات محض اتنی سی نہیں کہ:
Photosynthesis وُہ عمل ہے جس میں کچھ جاندار سورج کی روشنی میں پائی جانے والی توانائی کو جذب کر کے اسےشوگر یا گلوکوز میں بدل ڈالتے ہیں۔ اس عمل سے بننےوالا یہ نیا کیمیائی فارمولا یعنی گلوکوز اصل میں کسی بھی جاندار وجود کے لیے، حرکت و عمل کی خاطر، توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو دنیا کی تقریباً ہر مخلوق کی زندگی کو سہارا دیتا ہے۔
انسانی جسم میں شوگر یا گلوکوز کی سطح کے ایک حد سےگر جانے یا حد سے بڑھ جانے کی باتیں تو آپ نے سن ہی رکھی ہوں گی۔
یہ عمل بڑے پیمانے پر پودوں کی پتیوں میں انجام پاتا ہے۔ اسے انجام دینے کو پتیوں میں موجود سبز مادہ یعنی کلوروفل (chlorophyll) نہایت ضروری ہے۔
اِس عمل میں سورج کی توانائی، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خرچ ہوتے ہیں اور شوگر (گلوکوز) اور آکسیجن حاصل ہوتے ہیں۔
ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ سائنسی علوم کی تدریس بذریعہ قومی و علاقائی زبان کے ضمن میں اصطلاحات ہرگز رکاوٹ نہیں۔ یوں بھی اس لشکری زبان میں جب فارسی، ترکی، عربی، سنسکرت ایسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں، تو انگریزی زبان کے الفاظ کا استعمال کیا برا لگے گا! جن کی جگالی پہلے سے ہی ہم شب و روز کیے چلے جاتے ہیں۔ تو ایک زبان اور سہی۔
اصطلاحات کو ویسا ہی کیوں نہ رہنے دیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ Photosynthesis کو ضیائی تالیف لکھنا بھی کیوں ضروری ہے؟
مطمح نظر اگر یہ ہے کہ طالبعلم کے دماغ میں ایک علمی نکتہ مستحکم طور پر اتر جائے، نہ صرف اس کا کانسپٹ کسی طرح کلیئر ہو، بلکہ اس سے ایک درجہ آگے بڑھ کر وہ اپنی زبان کے ذریعے تنقیدی اور تخلیقی انداز میں سوچنے کے قابل ہو سکے، تو اصطلاحات اور اشیاء کے نام وغیرہ بدلنے کی کوئی خاص ضرورت؟
بس اس کی تشریح اور وضاحتی مواد کو آسان پیرائے میں لکھنے کی فکر کی جائے۔ تدریسی معیار بلند کرنے کی تدبیر کی جائے۔ اوپر جس مثال کا سہارا لیا گیا، اس سے یہی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسے اصطلاح کو من و عن پیش کرتے ہوئے بنیادی تصور کو بذریعہ اپنی زبان میں ذہن نشین کرایا جا سکتا ہے۔ علاقائی زبان تک استعمال کی جا سکتی ہے!
مقصد بنیادی تصور بچے کے دل و دماغ میں راسخ کرنا ہے، تاکہ اس کا خلّاق دماغ گردوپیش میں دکھنے والی اشیا اور عوامل کو ہوشمندی سے سمجھنے، اور ان کوتنقیدی اور تعمیری انداز میں دیکھنے، پرکھنے کے قابل ہو سکے۔ پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو وغیرہ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے، اس میں کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی شرم آڑے نہ آئے۔
ذرا تصور کریں، سائنسی علوم کی تدریس بذریعہ قومی و علاقائی زبان کا چلن یہاں عام ہو جائے۔ یہ سب کچھ عملاً متشکّل ہو جائے۔ آپ سنہ 2019ء میں سندھ یا پنجاب وغیرہ کے کسی دور دراز گاؤں میں کسی سہانی صبح اپنی گاڑی سے اتر کر وہاں قائم کسی پرائمری سکول کے بچوں سے ملاقات میں یہی سوال ان سے کر بیٹھیں، اور جواباً وہ بچے بھاگم بھاگ سکول کے کسی کونے سے ایک گملا اٹھا لائیں اور پھر آپ کے روبرو پٹاخ پٹاخ معلومات کا ڈھیر لگا ڈالیں، تو آپ کی مسرت کا کیا عالم ہو گا! بقول پروفیسر پریشان خٹک مرحوم: ”اس تدریس کو علاقائی زبان تک اتار ڈالو۔پھر میں دیکھتا ہوں کیسے یہاں گلی گلی میں عبدالقدیر خاں پیدا نہیں ہوتے!“
اقوام متحدہ اور یونیسکو کی رپورٹس اٹھا کر دیکھیں۔ بڑی جامعات کے تھیسس پر سرسری سی نظر ڈال لیں۔ حال ہی میں خود برٹش کونسل کی جاری کردہ رپورٹ پڑھ کر دیکھ لیں۔ یہ سب اسی بات کی دہائی دیتے ہیں کہ خدا کے بندو، تعلیم و تدریس کوقومی اور مادری زبان میں لے کر چلو۔ غیر زبان نے تو اُلٹا پردہ تان رکھا ہے۔ سراسر رکاوٹ ہے، نہ کہ سہولت۔ دعا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کسی طور اس جانب متوجہ ہوں، اور عملاً یہ معرکہ سر کر ہی ڈالیں۔
رہی بات تعلیم میں انگریزی زبان کی اہمیت کی تو اس کا آسان حل وہی ہے جس کا تجربہ جاپان اور چین ایسے ممالک میں نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں انٹرنیٹ پر تھوڑی برائوزنگ کی تو نوائے وقت میں چھپے ایک کالم پر نظر پڑی۔ سید روح الامین نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
”جاپان اور چین میں ہر بالغ اپنی زبان پر دسترس حاصل کرنے کے بعد صرف چھ ماہ میں کسی بھی زبان پر قدرت حاصل کر سکتا ہے اور اس کے لیے بارہ اور چودہ سال کی لگاتار محنت کی ضرورت نہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں طلبہ و طالبات کو بارہ اور چودہ سال تک انگریزی پڑھانے کے باوجود دیگر ممالک میں TOFEL اور GRE کے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم کیوں نہ اپنے ممالک کی ہر علاقہ میں سب سے زیادہ سمجھی اور بولی جانے والی زبان کی تعلیم کو معیاری بنانے کے ساتھ انگریزی زبان کی تعلیم کو ایک سالہ یا شش ماہی Crash Programme کے ذریعہ زیادہ مؤثر بنانے پر زور دیں۔ تاکہ انگریزی کی حمایت میں دی جانے والی دلیل کی (فی زمانہ انگریزی کے بغیر جدید علوم تک رسائی ممکن نہیں ہے) غلط ثابت ہو سکے اور ہم ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اردو اور انگریزی کی یکساں تحصیل کر سکیں۔“

Comments

Click here to post a comment