ہوم << اے کاش!-خالد مسعود خان

اے کاش!-خالد مسعود خان

khalid masood
لہو میں بھیگے تمام موسم...گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے...وفا کے رستے کا ہر مسافر...گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے...سحر کا سورج گواہی دے گا...کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے...نکلنے والے یہ سوچتے تھے...کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے...تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں...جلے چراغوں کی روشنی نے...نئی منازل ہمیں دکھائیں...تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے...ولولوں کو نمود بخشی...تمہارے بھائی‘ تمہارے بیٹے‘ تمہاری بہنیں...تمہاری مائیں‘ تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ...گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے...ہماری دھرتی کے جسم سے جب...ہوس کے مارے...سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے...تو تم کھڑے تھے...تمہاری ہمت‘ تمہاری عظمت اور استقامت...تو وہ ہمالہ ہے...جس کی چوٹی تلک پہنچنا...نہ پہلے بس میں رہا کسی کے...نہ آنے والے دنوں میں ہو گا...سو آنے والی تمام نسلیں...گواہی دیں گی کہ تم کھڑے تھے...لہو میں بھیگے تمام موسم...گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے...وفا کے رستے کا ہر مسافر...گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے.
طارق حبیب کی یہ نظم گزشتہ ایک ہفتے سے میری نظروں کے سامنے ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کی محبت میں پھانسی کا پھندہ چومنے والے سرپھروں کی ایک مختصر سی ''بٹالین‘‘ جنت کی کھڑکیوں سے جھانکتی نظر آتی ہے۔ اس ملک میں شہادت کے اتنے فتوے جاری ہو چکے ہیں کہ ان سرفروشوں کو اب شہید کہنا بھی عجیب لگتا ہے کہ ہم نے قاتلوں‘ تکفیریوں اور باغیوں کو بھی اس سند سے نوازنے میں تامل نہیں کیا تو بھلا اب اس فانی دنیا سے کسی رخصت ہو جانے والے کے لیے ہمارے جاری کردہ القاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ شہادت اور ہلاکت کے فیصلے وہ کرے گا جو ہر چیز پر قادر ہے اور اس دن سب معاملات سامنے آ جائیں گے جس روز وہ میزان عدل لگائے گا۔
بیانوے سالہ پروفیسر غلام اعظم 23 اکتوبر 2014ء کو اپنے خالق حقیقی کے ہاں حاضر ہوئے۔ ضعیف العمر پروفیسر غلام اعظم کو پاکستان آرمی کے لیے رضاکار‘ البدر کے لیے جنگجو بھرتی کرنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں غلام اعظم صاحب کی بنگلہ دیشی شہریت ختم کر دی گئی تھی۔ وہ 1978ء سے لے کر 1994ء تک سولہ سال تک بنگلہ دیش میں ''غیر قانونی‘‘ طور پر رہائش پذیر رہے تاوقتیکہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ان کی شہریت بحال کر دی۔ 11 جنوری 2012 ء کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی ''جنگ آزادی‘‘ میں کئے جانے والے جنگی جرائم کے الزام میں انہیں حسینہ واجد کے خود ساختہ ''انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل‘‘ میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ جیل میں دو سال نو ماہ اور بارہ دن گزارنے کے بعد جیل اور زندگی کی قید سے اکٹھے ہی آزاد ہو گئے۔
عبدالقادر ملا 12 دسمبر 2013ء کو، محمد قمر الزماں 11 اپریل 2015ء ، علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری 22 نومبر 2015ء ، مطیع الرحمان نظامی11 مئی 2015 ء کو اور اب میر قاسم علی 3 ستمبر 2016 ء کو اس دارفانی سے اپنے خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ ان سب کو پاکستان سے محبت اور وفاداری نبھانے کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ سب نے پھانسی پر مسکرا کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ کسی نے رحم کی اپیل نہ کی۔ سب مستانہ وار پھندے کو چومنے ایسے چلے کہ فیض یاد آ گیا ؎
دست افشاں چلو...مست و رقصاں چلو...خاک بر سر چلو...خوں بداماں چلو ...راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
کسی کو سٹریچر پر ڈال کر تختہ دار تک پہنچانے کی تکلیف نہ اٹھانا پڑی۔
پاکستان اس سارے معاملے میں اتنا غیر جانبدار ہے کہ لگتا ہے اس سارے معاملے میں نہ وہ فریق ہے اور نہ ان پھانسی پانے والوں سے ہماری کوئی جان پہچان ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے اور ''مجرم‘‘ محض بنگلہ دیش کے عام سے ''غدار‘‘ تھے جنہیں اس غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی اور تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ موم بتی مافیا کو تو چھوڑیں کہ ان کی ترجیحات کا سب کو اندازہ ہے۔ کشمیر میں ''پیلٹ گن‘‘ یعنی چھروں والی بندوق سے کشمیریوں پر فائرنگ ہو، ان کو رتی برابر پروا نہیں، دو ماہ سے زائد عرصہ سے کرفیو لگا ہو اور شہری محصور ہوں، انہیں کوئی فکر نہیں۔ بچوں کو دودھ تک نہ مل رہا ہو، انہیں انسانی حقوق یاد نہیں آتے۔ تازہ ترین احتجاجی لہر میں پچانوے لوگ جاں بحق ہو جائیں، ان کو کوئی ملال نہیں کہ ان کے آقائے ولی نعمت کی جانب سے کوئی اشارا نہیں اور وہ ہو بھی کیسے؟ بھلا وہ یہ سارا خرچہ اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کر سکتے ہیں اور کیا یہ موم بتی مافیا اپنے رزق روٹی فراہم کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کر سکتا ہے؟ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے ان تمام پھانسی پانے والوں کے ٹرائل پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا اور سارے بنگلہ دیشی نظام انصاف کو اس معاملے میں عموماً اور انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل آف بنگلہ دیش کی ساری عدالتی کارروائی کو خصوصاً انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا؛
تاہم ان تنظیموں نے اس سلسلے میں وہ کہرام نہ مچایا جو یہ عموماً مچاتی ہیں۔ سارا مغرب خاموش ہے اور ان این جی اور عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں اور مغرب کے بارے میں کیا کہا جائے؟ خود حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں مکمل مجرمانہ خاموشی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ہر پھانسی پر ہماری وزارت خارجہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا بیان جاری کر دیتی ہے کہ ان کا کام ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''شلجموں سے مٹی اتارنے کے برابر ہے‘‘ صرف ایک ترک صدر اردوان تھا جس نے مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت کے خلاف کھل کر بات کی۔ بنگلہ دیشی حکومت کی مذمت کی اور اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا۔ اردوان نے یہ تقریر دراصل بنگلہ دیش کی حکومت کے اقدامات کے خلاف نہیں کی تھی، ہمارے منہ پر جوتا مارا تھا۔ ترک غیرت کا ثبوت نہیں دیا تھا، ہمارے بے غیرتی کا مذاق اڑایا تھا۔ مطیع الرحمان کی پھانسی پر احتجاج نہیں کیا تھا، ہماری خاموشی پر ہمیں شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔ ترکی کی میٹرو سے لے کر نظام صفائی تک کی نقل مارنے والے ہمارے حکمرانوں کو صدر اردوان کی اس سلسلے میں نقل مارنے کی ہمت نہ ہوئی کہ یہ کام غیرت مند قوموں کا ہوتا ہے۔
میں نے ترک صدر کی وہ تقریر دیکھی، سنی کا معاملہ یوں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقریر ترک زبان میں تھی اور ''زبان یار من ترکی‘ ومن ترکی نمی دانم‘‘ والا معاملہ تھا؛ تاہم نیچے چلنے والے انگریزی ترجمے کو محض دیکھا جا سکتا تھا اور ترک صدر کے خطاب کے دوران اس کے جوش اور جذبے کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ترجمہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا مگر اردوان کی ''باڈی لینگوئج‘‘ اتنی زوردار اور جاندار تھی کہ ترجمے کی کمی بیشی پوری کر دی۔ ترک صدر نے کہا : ''میں مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کا غم آپ لوگوں سے بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہر بات سے پہلے میرا یقین ہے کہ مطیع الرحمان نظامی نہ کسی ایسے جرم کے مرتکب تھے اور نہ ہی اس سزا کے حقدار تھے۔ ہم بنگلہ دیش کی قیادت سے ملک کے امن‘ استحکام اور اچھے مستقبل کے لیے زیادہ محتاط اور صحیح فیصلوں کے منتظر ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ایسے واقعات کی ہم خبر رکھتے ہیں۔
جیسا کہ مطیع الرحمن نے اپنے خط میں کہا 'میں جا رہا ہوں اور اپنے پیچھے ایک فکر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایسے مشکل حالات میں بھی موت کے خوف کے بجائے استقامت دیکھ کر حیران ہونے والوں اور ہمارے لیے موت کے معنی ایک نہیں ہیں۔ بھائیو! یہ احمق سمجھتے ہیں کہ ہمارے متعلق انہوں نے فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے؟ اپنے بندے کو راضی کرنے کے لیے اللہ سے کوئی گلہ نہیں۔ میرا یہ پیغام ہے کہ میں جا رہا ہوں، میں خود سے پہلے جانے والے دوستوں‘ بھائیوں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا رہا ہوں۔ تم لوگ یہیں رہ جائو گے، جہاں میں جا رہا ہوں وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا۔ میں جا رہا ہوں، تم اپنے آپ کو منظم کرو اور یہ نہ بھولنا کہ تمہاری باری بھی آئے گی۔ شہادت کی موت اور کسی انسان کی غلامی قبول نہ کرنے کو ہمیشہ یاد رکھنا‘۔ مطیع الرحمان نظامی پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔
میں بنگلہ دیش اور دنیا کے مسلمانوں کے لیے صبر کی دعا کرتا ہوں۔ ڈھاکہ میں موجود سفیر کو ہم نے واپش بلا لیا ہے اور وہ اس وقت استنبول پہنچنے والا ہے۔ اور مت بھولنا، ظالموں کے لیے جہنم ہے‘‘۔ سارا ہال نعرے مار رہا تھا۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کاش میں وہاں ہوتا اور کم از کم کھل کر نعرہ تو لگا سکتا۔ کاش یہ تقریر صدر اردوان کے بجائے ہمارے کسی حکمران کی ہوتی۔ کاش یہ غیرت ہم نے دکھائی ہوتی۔ کاش اس شہادت کا درد ہم نے اسی طرح محسوس کیا ہوتا۔ اے کاش...اے کاش!

Comments

Click here to post a comment