بہت سی عام پریشانیوں، اکثر خواریوں کی جڑ خواہ کچھ بھی ہو لیکن ہماری ناسمجھی کا چھڑکاؤ انہیں گہرا کرتا جاتا ہے۔ یوں بڑھتے بڑھتے آکاس بیل کی طرح وہ ہمارے جسم و جاں کو چاٹ جاتی ہیں۔
ہماری پسماندگی یہ نہیں کہ ہم جاہل ہیں، یہ بھی نہیں کہ ہم سوچتے نہیں۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہم کبھی اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ پر رکھ کر نہیں سوچتے۔ اپنی ذات کو اپنے قلب سے نکال کر دوسرے کے قالب میں ڈھال لینا ایسا منتر ہے جس کا علم کسی عامل کے پاس نہیں۔ ذہنی ارتکاز کی مسلسل مشقیں شرط نہیں۔ جان مال اور ایمان بھی لُٹ جانے کا اندیشہ نہیں۔ محترم اشفاق احمد کے الفاظ میں ”تنہائی میں دیوار سے ڈھو لگا کر بیٹھنے“ کی بھی حاجت نہیں، علم وعرفان کی موٹی موٹی کتابیں پڑھنے، رٹنے اور حفظ کرنے کی بھی ضرورت نہیں، معمول کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہپناٹائز کرنے، اُس کے ماضی اور حال کی گہرائی ماپنے کے بعد، اُس کے مسائل کی جانکاری اور حل کرنے کی کوشش بھی نہیں۔
ان سب کے باوجود یہ ایسا ٹوٹکا ہے کہ انسان اس پرعمل کرنے لگ جائے توبہت حد تک اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی الجھنوں سے بچ سکتا ہے۔ اور بڑی بڑی مصیبتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ مل سکتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم یہ گھٹیا کام کرنا نہیں چاہتے۔ ہم کسی چور، کسی غاصب، کسی بددیانت کی جگہ پر جا کر کیوں سوچیں؟ ہمارا اپنا ذہن ہے جو ہمیں اچھے برے کی پہچان دیتا ہے، ہمارا شعور ہے جو ہمیں ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے کا عزم دیتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ یہ سارے لٹیرے، سارے ڈاکو، سارے خائن ہماری جگہ پر آ کر سوچتے ہیں۔ اور سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ ہم اپنی جگہ پر رہ کر سوچتے ہیں اور اِس کے مطابق عمل کرتے ہیں جبکہ وہ ہماری جگہ پر آ کر سوچتے ہیں لیکن عمل وہ اپنے مطابق کرتے ہیں۔ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور گھر لوٹ جاتے ہیں جبکہ ہم سانپ نکل جائے پھر لکیر پیٹتے ہیں۔
خودسوزی کرتے ہیں ، اُن کے سامنے جن کے دل سوز و گداز سے عاری ہیں۔ اپنی دہاڑیاں اُن کے لیے قربان کرتے ہیں جن کے گھروں کے چولہے کبھی ٹھنڈے نہیں ہوتے۔ گرمی سردی میں اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہیں جو ٹھنڈے ملکوں،گرم کنٹینرز میں، ملک و قوم کے غم میں، فرنگیوں کی عطا کردہ نعمتوں سے دُنیا میں جنت کے مزے لوٹتے ہیں۔ اپنے بچوں، اپنی عورتوں کو سڑکوں پر لاتے ہیں، اپنی ماؤں کو خوف کی سولی پر چھوڑ آتے ہیں، اُن کی خاطر جن کے بچے ذاتی جہازوں میں سفر کرتے ہیں اور محلوں میں لینڈ کر جاتے ہیں۔ جن کے حرم من چاہی بیگمات کی رونق سے سجے رہتے ہیں۔ جن کی مائیں دُور دیس میں ہوش و خرد سے بیگانہ نہ جانے کس جُرم کی سزا کاٹ رہی ہوتی ہیں۔ ہم عام عوام گیس، پٹرول کی لمبی لمبی لائنوں میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں اور باری آنے پر گیس ختم ہوجانے یا بجلی چلے جانے کا سُن کر منہ لٹکا کر خاموشی سے گھر لوٹتے ہیں۔ گھر میں ضروریات ِزندگی کےبڑھتے ہوئے ”بل“ ہمیں بلبلانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہم یا توباہر نکل کراپنا دامن چاک کرتے ہیں یا پھر خودترسی کی اذیت میں مبتلا ہو کرایک دائرے میں گھومتے چلے جاتے ہیں۔
ہماری زندگی اسی ”زیرو پوائنٹ“ کے گرد چکر کاٹتے گزر جاتی ہے جہاں راستے تو بےشمار دکھتے ہیں۔ لیکن آنکھوں پر بندھی اندھی عقیدت کی پٹی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی سلب کر لیتی ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ اسے کھولنے کا اختیار ہمارے پاس ہے بس ذرا سی ہمت اور ایکا کرنے کی بات ہے۔
ہمیں اپنی مرضی سے جینے دو اور ہم سے جینے کا حق نہ چھینو.
تبصرہ لکھیے