سابقہ برس میں نے لکھا تھا: ”جتنا وقت ہم مرزے پر لعنت ملامت میں ضائع کرتے ہیں، اگر اتنا وقت درود شریف پڑھ لیا جائے تو یقیناً ہماری ترقی درجات اور تلافی مافات کا سبب ہو گا۔“
[pullquote]اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد کما تحب و ترضی[/pullquote]
اس پر دوستوں کی طرف سے کچھ کمنٹس آئے تھے، جن کے جواب میں ایک اور پوسٹ کی تھی.. وہی آج پیشِ خدمت ہے..
.
دیکھیے تو ذرا کہ مرزے پر لعنت ملامت کرنے کے جذباتی قائلین کیسے کیسے استدلال پیش کرتے ہیں:
1۔ مرزے پر لعنت کرنے کا اس سے واضح حکم کیسے دکھاؤں۔ ”جو لوگ کافر ہوئے اور کفر میں مر گئے ان پر لعنت ہے اللہ کی، اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی.“ (البقرہ161)
جواب: میرے میٹھے میٹھے مکّی بھائی! کیایہ لعنت کا حکم ہے؟ حکم میں تو یوں الفاظ ہونے چاہییں: ”اے مومنو! چونکہ میں کافروں پر لعنت کرتا ہوں لہذا تم بھی لعنت کرو۔“
یا ”تم پر لعنت کرنا فرض کیا گیا ہے۔“ وغیرہ ۔ یاللعجب. محترم بھائی! اللہ پاک نے ان بدنصیبوں پر ملامت کے ذریعے ہمیں خبردار کیا ہے کہ ملعونین جیسا کردار اپناؤ گے تو تم بھی اسی فہرست میں آؤ گے لہذا اپنی اصلاح کی جستجو کرو۔
2۔ حکم نہ سہی (?)، اللہ کی سنت تو ہے، کیا اللہ نے لعنت نہیں کی، جب میرے اللہ نے لعنت کی ہے تو میں کیوں نہ کروں؟
جواب: رزق بانٹنا بھی اللہ کی سنت ہے،، بانٹیے۔ غفور الرحیم ہونا بھی اللہ کی سنت ہے، بنیے۔ اللہ کی ایسی اور کئی سنتیں ہیں، پھر سب کو اپنائیے۔
جو آیت آپ نے لکھی کہ سارے انسان کفار پہ لعنت کرتے ہیں۔ کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں ابوجہل یا مسیلمہ کذاب یا مرزا خود پہ لعنت کرتے ہوں گے؟ حالانکہ اللہ کی بات غلط نہیں ہے۔ ڈئیر، یہ ایک طریق/انداز ہے جس سے تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ ان جیسے نہ ہونا ورنہ لعین بنو گے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ہمیں لعنت والا رویہ اپنانا چاہیے؟
کیا اس رویے سے قادیانیوں کی واپسی ممکن ہے یا وہ چِڑ کر مزید شدت سے اپنے غلط عقیدے پہ جم جائیں گے؟ یہ کوئی علمی انداز ہے بھلا؟
3۔ کیا مرزا لعنت کا مستحق نہیں ہے؟
جواب: کیا اللہ اس انتظار میں ہے کہ ہم لعنت کریں گے تو ہی مرزا مستحقِ لعنت ہو گا؟ ارے یار، جو اپنی قبر میں آج بھی نارِ جہنم کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے، اس پر لعنت کرنے سے کیا آگ کی شدت بڑھ جائے گی؟ اور لعنت کا ’فریضہ‘ ادا نہ کرنے پر اسے برزخ میں سہولت مل جائےگی؟ میرے بھائی! لعنت کامستحق ہونے اور لعنت کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
مجھے یہ بتائیے کہ کیا ہمیں قادیانیوں کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے؟ اگر ہاں، تو یہ کیا اسلوب ہوا کہ آپ ان پر ملامت کرنا شروع کر دیں اور ”بے شمار بے شمار“ کی تسبیح کرنے لگیں۔ جن آیات کو دلیل بنا کر آپ مرزے پر لعنت کرتے ہیں انہی باتوں کو دلیل بنا کر بعض لوگ ہمارے جان سے پیارے صحابہ کرامؓ پر تبرا کرتے ہیں، پھر آپ اسپیکروں پر منہ زور چیختے ہیں اور کافر کافر کی رٹ لگا کر آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں، دوسری طرف جس طرح آپ مرزے کو لعنت کرکے ثوابِ دارین کی امید رکھتے ہیں، عین یہی توقع صحابہ کرام کو گالی بکنے والے بھی کرتے ہیں اور گالم گلوچ کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ فرق کیا رہا؟ مانا کہ ہم اپنے نبی کریم ﷺ پر جان نچھاور کرنا اپنا ایمان سمجھتے ہیں، لیکن ان جذبات کی رو میں غلط طرزِ تخاطب اختیار کرنا کیا اُسی نبی کی تعلیمات کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
4۔ بہت سے ’جیالوں‘ کا فرمان ہے کہ لعنت کرنا عین عبادت ہے، محبت کی علامت ہے، ثواب سے خالی نہیں، وغیرہا۔
جواب: لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ جوشِ ایمانی ہمیں غلو میں مبتلا نہ کردے۔ آپ کو کس نے اختیار دیا کہ دین میں عبادات کا تعین کریں اور ان پر ثواب کی بوریاں بانٹنا شروع ہو جائیں؟ چلو یہ حقیقت مان لی کہ آپ کو نبی کریم ﷺ سے بےانتہا محبت ہے، مگر یاد رکھیں کہ یہ وہ عظیم تر مگر نازک ترین بارگاہِ عالی ہے جہاں عشق جیسا بےباک جذبہ بھی حدود میں مقید ہے۔ یہاں تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کو اونچا بولنے کی اجازت نہیں تو ہم کس کھلیان کی گاجریں ہیں؟
محبت کے تقاضے سیکھنے ہیں تووہ بھی اُسی بارگاہ سے سیکھنے ہوں گے، نہ کہ ہم خود سےگھڑنے بیٹھ جائیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ محبت کے نام پر ریلیاں نکالنے والوں کو تو آپ بےدھڑک منصبِ مشرک و بدعتی سے نواز دیتے ہیں اور گالم گلوچ کے رویے پر آپ کے دانتوں تلے پسینہ بھی نہیں آتا، کیوں؟ واہ رے توحیدی تیریاں پُھرتیاں۔
5۔ فرماتے ہیں کہ ”ردِّ کفر بھی دینی فریضہ ہے.“
جواب: اچھا تو ردِ کفر کا یہ سلیقہ آپ نے کس مدرسے سے سیکھا؟ کیا آپ کو یہی بتایا جاتا ہے کہ ردِ کفر کے لیے گلے پھاڑ اور کافر ساز پوسٹیں کرو؟ علمائےکرام کی کتب بھری پڑی ہیں کفر اور سببِ کفر کی تردیدی مہم جوئیوں سے، مجال ہے جو کسی نے یہ غیرعلمی اور مبنی بر تبّرا انداز اپنایا ہو۔ جو لعنت کا استحقاق رکھتا ہوگا اس تک اللہ کی لعنت خودبخود متوجہ ہو جائے گی۔ آپ کو ضرورت نہیں ہے کہ اللہ کو مشورے دیتے پھریں، وہ جانتا ہے کہ اُسے کذابوں کو کب اور کیسے رُسوا کرنا ہے۔ اس نے ہماری ڈیوٹی انسانیت کو مطعون کرنے پر نہیں لگائی بلکہ ان کے لیے اصلاح اور بہتری کی کاوشیں کرنے پر مامور کیا ہے۔
وضاحت:
ختمِ نبوت پر یقین بالقلب رکھنا ہمارا ایمانی تقاضا ہے اور جو بدبخت نبوت کی پاکیزہ دیوار میں رخنہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کرے گا، ہم ان شاء اللہ اس کی مسلسل سرکوبی کریں گے، وقت آنے پر صدیقی طریقۂ تعاقب سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ساتھ میں اس کے بے وقوف معتقدین کو اس فتنہ پرور کی ہفوات سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ مومن کو شدید جذبات میں بھی اعلیٰ اخلاق اور نفیس ردِعمل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ گالم گلوچ بدقسمتی سے ہمارا شیوہ بن چکی ہے جس کو درست ثابت کرنے کےلیے دینی تعلیم یافتہ احباب بھی کمزور جواز تراشنے میں مصروف ہیں۔ میں ہرگز اس رویے پر مطمئن اور قائل نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف کبھی کسی قادیانی کا شائستہ پن بھی ملاحظہ کرلیجیے گا کہ کس نفاست سے پیش آ کر وہ دوسروں کو ٹریپ کرتے ہیں۔ لہذا میری سوئی پھر وہیں اٹکی ہے کہ؛
”جتنا وقت ہم مرزے پر لعنت ملامت میں ضائع کرتے ہیں، اگر اتنا وقت درود شریف پڑھ لیا جائے، تو یقیناً ہماری ترقی درجات اور تلافی مافات کا سبب ہو گا۔“
تبصرہ لکھیے