ہوم << آزادی یا شہادت - حمیرہ خاتون

آزادی یا شہادت - حمیرہ خاتون

”طیارے کا رخ بھارت کی طرف موڑدو۔“ انسٹرکٹر نے حکم دیا۔
”مگر کیوں سر۔“ نوجوان پائلٹ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔اس کی چھٹی حس نے الارم دیا۔
”فالو می۔“ سختی سے کہا گیا۔
”سوری سر، آئی کانٹ فالو یو۔“ نوجوان پائلٹ راشد سمجھ چکا تھا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ اس کا انسٹرکٹر کنٹرول ٹاور سے رابطہ پہلے ہی منقطع کر چکا تھا، اور اب وہ طیارے کو بھارت لے جانا چاہتا تھا۔ راشد کے انکار پر انسٹرکٹر مطیع الرحمن نے اس سے جہاز کا کنٹرول چھیننا چاہا۔ سترہ سالہ راشد کا مقابلہ تجربہ کار معمر استاد سے تھا جو کسی کمزور لمحے میں اپنی وفاداری تبدیل کر چکا تھا۔
رات سے ہی راشد بہت پرجوش تھا۔ کل کی اپنی پہلی مشقی پرواز کا سوچ کر اس پر خوشی طاری تھی۔ فضائوں میں اڑنے کا اس کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔ پاکستان اپنے پیارے وطن کی فضائی سرحدوں کی حفاظت کا عزم اسے پاکستان ائیر فورس میں لے کر آیا تھا۔
اور وہ وقت بہت جلد آپہنچا تھا۔ وہ کیسے اپنے پاک وطن کے طیارے کو اپنے دشمن ملک لے جاتا۔
راشد نے استاد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے مہذب انداز میں انہیں احساس دلایا۔
”سر، ہم تربیتی پرواز پر ہیں، وی کانٹ کراس دی بارڈر ود آئوٹ پرمیشن۔ واٹ آر یو ڈوئنگ؟“
”آئی نائو واٹ آئی ایم ڈوئنگ۔“ اس نے راشد کو دھکا دیا اور اس کی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اس کے تیز مکے نے راشد کو ہوش وحواس سے بےگانہ کر دیا۔ جہاز بری طرح ڈگمگا رہا تھا۔ انسٹرکٹر نے طیارے کا کنٹرول سنبھال کر اس کا رخ بھارت کی طرف کر دیا۔ اور ان سے رابطہ کی کوشش کرنے لگا۔ راشد کو ہوش آیا تو انسٹرکٹر بھارت کی فضائیہ کو اپنی آمد کی اطلاع دے رہا تھا۔
”میری پہلی پرواز، میرا بچپن کا خواب، میرا پیارا وطن اور میری وفاداری۔“ راشد کے ذہن میں پہلا خیال آیا۔
کیا میں طیارے کو بھارت جانے دوں۔ اور اس کے دل نے جواب انکار میں دیا۔ اگلے ہی لمحے اس نے لرزتے ہاتھوں سے پوری طاقت لگا کر جہاز کا لیور نیچے کر دیا۔ طیارہ تیزی سے نیچے جانے لگا۔
”واٹ آر یو ڈوئنگ؟ وی ول ڈائی۔“ انسٹرکٹر چلایا۔
”آزادی یا شہادت۔“ سترہ سالہ راشد منہاس مسکرا رہا تھا۔ جہاز ایک زوردار آواز سے زمین سے جا ٹکرایا۔ ایک دھماکہ ہوا اور جہاز کے ساتھ ان دونوں کے جسم بھی فضا میں بکھر گئے۔
دور فضا میں کہیں آواز گونج رہی تھی،
چلے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم،
رسول پاک نے بانہوں میں لے لیا ہو گا،
علی تمھاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے،
حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہو گا،
تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔
اے راہ حق کے شہیدو،
وفا کی تصویرو،
تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔

Comments

Click here to post a comment

  • بہت اچھا بلاگ ۔۔۔ قابل داد اور قابل تحسین۔سوشل میڈیا مرزا پہ لعنتوں سے بھرا ہوا ہے،نہ کوئی دلیل نہ کوئی منطق۔اکثریت کو تو مرزا کا پورا نام بھی نہیں معلوم،کب اور کہاں پیدا ہوا،یہ تو جاننا دور کی بات ہے۔
    ان کا بس چلے تو مرزا کو قبر سے ادھیڑ لایئں اور اس کی تکہ بوٹی کردیں۔
    شائستگی،دلیل اور منطق اسلام کی خوبیاں ہیں لیکن نجانے کہاں غائب ہیں۔برداشت اور تحمل کا عنصر ختم ہوچکا۔
    نامور علمائے حق مرزا کے دور میں اس سے مناظرے کرتے رہے اور اس کی حیات میں اس کی کتابوں کا رد کرتے رہے،لیکن کہیں شائستگی اور امن کے علم کو گرنےنہیں دیا۔
    آج کے مبلغین اسلام کا کام صرف مرزاپہ لعنت کےسوا کوئی نہیں۔
    جتنی زیادہ لعنت اتنی زیادہ پذیرائی۔