بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو ملک کی کوئی پروا ہے اور نہ دوسرے لیڈروںکو۔ ایسے میں کام کیونکر چلے گا۔ نہیں چلے گا جناب‘ ایک نہیں تو دوسری طرح کا حادثہ۔ آج نہیں تو کل۔ کوئی مہلت لامحدود نہیں ہوتی۔ نہیں جناب والا‘ ہرگز نہیں۔
دل درد سے بھر گیا ہے اور الفاظ نہیں سوجھتے‘ کوئی پیرایہ اظہار نہیں سوجھتا۔ کبھی صدر کلنٹن کا وہ نعرہ یاد آتا ہے‘ جو اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں انہوں نے لگایا تھا: "Its the Economy Stupid" یا نپولین کا وہ قول ''افواج پیٹ کے بل رینگتی ہیں‘‘۔
کتنے بڑے واقعات ہمارے گرد و پیش برپا ہیں اور لیڈران کرام کو کوئی پروا ہی نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں‘ جو ہر اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے‘ ایک طوفان اٹھا ہے اور ہمیں جیسے خبر ہی نہیں۔ اسی ہنگام امریکہ بہادر نے بھارت کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا ہے‘ جو ہمارے سروں کے اوپر سے گزر گیا‘ گویا اس سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں۔
پاناما لیکس اور ماڈل ٹائون کے قصاص پر احتجاج برحق اور پوری طرح برحق۔ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کی تگ و تاز کا واحد مقصد یہ دکھائی دیتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ شریف خاندان کی وجہ سے ملک خطرے میں ہے۔ ایک بار اس سے نجات حاصل کر لی گئی تو ایک ہی نہیں‘ کئی آفتاب ہمارے آفاق پر دمک اٹھیں گے۔ 1993ء اور 1999ء میں شریف حکومت سے نجات پا لی گئی تھی‘ پھر ہمارے مسائل کیا حل ہو گئے تھے۔ افتادگان خاک کے در و بام پر سویر اتر آئی تھی؟ وزیر اعظم ایک کے بعد دوسری شاہراہ اور ایک کے بعد بجلی کے دوسرے منصوبے کا افتتاح کر رہے ہیں۔ ارشاد ان کا یہ ہے کہ اگر ان کے اقتدار کا جوا‘ قوم کی گردن میں پڑا رہتا تو اب تک فروغ کے کئی مراحل وہ طے کر چکی ہوتی۔ ساڑھے تین سال سے عنان اُن کے ہاتھ میں ہے۔ ان مہ و سال میں کون سا کارنامہ انہوں نے انجام دیا؟
باقی ماندہ اٹھارہ ماہ کے دوران زمین و آسمان وہ بدل دینا چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر انتخابی معرکے میں وہ سرخرو ہو سکیں۔ ممکن ہے کہ ہو جائیں‘ مگر یہ قوم کیسے سرخرو ہو گی۔ نیلم جہلم منصوبے کے سربراہ زچ ہو کر مستعفی ہو گئے۔ اطلاع یہ ہے کہ ان سے برق رفتاری کے ساتھ کام مکمل کرنے کا مطالبہ تھا۔ ہر چیز کی تکمیل کے لیے ایک کم از کم مدت ہوا کرتی ہے۔ اس سے پہلے وہ کیونکر انجام دیا جا سکتا ہے؟ نندی پور میں بجلی کا کارخانہ ایک مثال ہے۔ سوا چار سو میگاواٹ بجلی اس سے پیدا ہونا تھی۔ ایک عظیم کارنامے کے طور پر وہ پیش کیا گیا۔ تمغوں تک کا اعلان کر دیا گیا۔ چند دن کے بعد وہ بند پڑا تھا۔ اب صرف دو اڑھائی سو میگاواٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے۔ ملک بھر میں توانائی کے حصول کا شاید مہنگا ترین منصوبہ ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے ڈیم بہت پیچیدہ اور حساس ہوتے ہیں۔ سڑکوں کی طرح نہیں ہوتے کہ پتھر ہموار کرکے تارکول بچھا دی جائے۔ ایک ذرا سی خرابی آخرکار تباہی لا سکتی ہے۔ واپڈا کے چیئرمین پہلے سے الگ ہو چکے۔ ڈھنگ کا کوئی افسر اور ٹینکوکریٹ وزیر اعظم کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس پر وہ متنبہ کیوں نہیں ہوتے۔ اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ زندگی آدمی سے نباہ نہیں کرتی‘ آدمی کو زندگی سے نباہ کرنا ہو گا۔ ملکوں اور معاشروں کو جو لوگ اپنے گردگھمانے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی یہ بستی حکمرانوں کی چراگاہ نہیں ہے۔
لاہور سیالکوٹ موٹروے کے بعد‘ کالا شاہ کاکو سے لاہور کے لیے ایک اور بائی پاس کا اعلان ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے سر میں سڑکیں تعمیر کرنے کا خبط سوار ہے۔ لاہور سے باہر جانے یا شہر میں داخل ہونے والے راستوں میں کون سی رکاوٹ حائل ہے کہ مزید بائیس ارب روپے لٹانے کا ارادہ ہے۔ پہلے ہی صوبے کا 56 فیصد بجٹ صوبائی دارالحکومت پہ صرف ہو رہا ہے۔ میٹرو کے بعد اورنج لائن ٹرین اور اب یہ شاہراہ۔ بے روزگاری میں دن دوگنا‘ رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے نمٹنے کی کوئی تدبیر نہیں۔ میو ہسپتال کے ٹاور اور وزیر آباد میں امراض قلب کے ہسپتال سمیت‘ صحت کے کتنے ہی منصوبے ادھورے پڑے ہیں۔ وزیر آباد کے امراض قلب ہسپتال میں صرف او پی ڈی چالو ہے۔ کچھ ان کی بھی پروا کی ہوتی۔ جنوبی پنجاب میں خاک اڑ رہی ہے۔ تعلیمی اداروں کا حال پتلا ہے۔ ہر سال تعلیمی ترقی کے لیے مختص کی جانے والی رقوم کا بمشکل 40 فیصد ہی خرچ ہوتا ہے۔ آخر کیوں؟
بار بار توجہ دلائی گئی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں بے شمار امکانات کارفرما ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے آئی ٹی کے پروگرام ترتیب دینے والے پاکستانی نوجوان لگ بھگ ایک ارب ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ کماتے ہیں۔ اسی شعبے میں بھارت کی آمدنی 40 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے‘ حالانکہ پاکستانی ہنرمند‘ دنیا بھر میں بہترین تسلیم کئے جاتے ہیں‘ پاکستانی پائلٹوں اور سائنس دانوں کی طرح جن کا کوئی ثانی نہیں۔ تدبیر کی جاتی تو وہ دس پندرہ ملین ڈالر سالانہ کما رہے ہوتے‘ شاید اس سے بھی زیادہ۔ آج بھی ادائیگیوں کے قومی توازن کا انحصار سمندر پار پاکستانیوں پر ہے۔
ہماری برآمدات 20 ارب ڈالر اور درآمدات 40 ارب کے لگ بھگ ہیں۔ 20 ارب ڈالر کی ترسیلات زر نہ ہوتیں تو ہمارا انجام کیا ہوتا؟ تیل کی قیمتیں گر جانے کے باعث‘ مشرق وسطیٰ میں مواقع کم تر ہیں اور ان ترسیلات میں تخفیف کا امکان ہے۔ سعودی عرب میں ہزاروں پاکستانی بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ اشک شوئی اور شعبدہ بازی تو بہت ہوئی مگر کوئی موثر وفد نہ بھیجا گیا کہ ان بیچاروں کو ادائیگیاں ہو سکیں۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں‘ بگڑے ہوئے حالات سے نمٹنے کی ہرگز کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ وزیر اعظم مگر مسلسل اور متواتر ترقی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ کون سی ترقی؟ وہ جو اخبارات اور ٹیلی ویژن کے رنگین اشتہارات میں دکھائی دیتی ہے۔
ریا کاری بھی سیاست میں ہوتی ہے‘ نعرہ فروشی اور تشہیر بھی۔ مگر کوئی حد بھی ہے۔ دوسروں کو نہیں‘ وزیر اعظم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اور وہی کیا اکثر سیاستدان‘ قوم کے اصل مسائل سے جو نظریں چرا رہے ہیں۔ انتقام اور اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔
وزیر اعظم کے لیے بظاہر کوئی چیلنج نہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کرپشن کی کمائی محفوظ رکھنے کے لیے جعلی اپوزیشن کا کردار اپنا لیا ہے۔ تحریک انصاف تنظیمی اعتبار سے شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جہلم اور بوریوالہ کے الیکشن مگر ایک اور ہی کہانی کہہ رہے ہیں۔ جہلم میں انتخابی مہم کا آغاز ہوا تو مقامی سیاسی پنڈتوں کا اندازہ یہ تھا کہ فواد چوہدری نون لیگ کے امیدوار سے آدھے ووٹ ہی لے سکیں گے۔ بوریوالہ میں بھی سرکاری فتح بظاہر یقینی تھی۔ جہلم میں سیلاب زدگان کے لیے مختص امداد تقسیم کرنے اور بوریوالہ میں ہر طرح کے حربے استعمال کرنے کے باوجود کیا ہوا؟ حکومت اگر نہ ہوتی۔ مقابلہ اگر نون لیگ اور تحریک انصاف میں ہوتا تو عمران خان یقینی طور پر ظفرمند تھے۔
مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی اور امریکہ بھارت دفاعی معاہدے پر‘ وزیر اعظم کی بے اعتنائی ناقابل یقین حد تک مایوس کن ہے۔ ان بائیس سرکاری ارکان اسمبلی کو سیاحت کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے‘ جن میں سے اکثریت کی نااہلی شک و شبہ سے بالاتر ہے‘ اگر وہ کسی ممتاز امریکی اخبار کے لیے ایک عدد مضمون لکھنے کی زحمت ہی گوارا کرتے؟ نکات واضح ہیں‘ معلومات بے حساب اور وزیر اعظم کی مدد کرنے والے بے شمار۔ مقدمہ بہت کچھ واضح ہو جاتا اور دنیا بھر میں اس کی گونج سنائی دیتی۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو ملک کی کوئی پروا ہے اور نہ دوسرے لیڈروںکو۔ ایسے میں کام کیونکر چلے گا۔ نہیں چلے گا جناب‘ ایک نہیں تو دوسری طرح کا حادثہ۔ آج نہیں تو کل۔ کوئی مہلت لامحدود نہیں ہوتی۔ نہیں جناب والا‘ ہرگز نہیں۔
تبصرہ لکھیے