کسر انہوں نے کوئی نہیں چھوڑی ۔ جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت، اکیسیوں صدی میں مغل بادشاہوں کی طرح طرز حکمرانی ، چھوٹے صوبوں کے ساتھ ظلم ، اداروں کے ساتھ چھیڑخانی، ناقص خارجہ پالیسی ، اقربا پروری اور سب سے بڑھ کر شریفانہ طریقے سے بدترین کرپشن ۔یہ ہے مختصر الفاظ میں میاں نوازشریف کی حکومت کا ایک مختصر تعارف۔کوئی جینوئن سیاستدان اپوزیشن کی قیادت کررہے ہوتے تو کب کا ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرچکے ہوتے لیکن حد سے زیادہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے کا ٹاسک عمران خان صاحب کو ملا ہوا ہے۔ کھلاڑی کی بجائے کوئی سیاستدان مقابلے میں ہوتے تو کب کے نواز حکومت کی وکٹ گراچکے ہوتے ۔لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ، خان صاحب کی اصلیت سامنے آتی جارہی ہے اور نتیجتاً میاں صاحب کی بدترین حکومت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ میاں نوازشریف صاحب کو اخلاقی بنیادوں پر چیلنج کررہے ہیں ، ان کی اپنی سیاسی اخلاقی حالت ان کی طرح یا پھر ان سے زیادہ پتلی ہے اور جس تحریک انصاف کو متبادل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے وہ اپنی جگہ مسلم لیگ (ن) نہیں بلکہ مسلم لیگ(ق) بن گئی ہے ۔یقین نہ آئے تو چند نمونے ملاحظہ کریں ۔
پاناما لیکس کے معاملے میں قانونی نہیں تو اخلاقی لحاظ سے وزیراعظم ضرور مجرم ہیں ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ان کے بچوں کی جو بھی حیثیت ہے ، ان کی وجہ سے ہے اور جو دولت ہے وہ جس بھی بچے کے نام ہو، میاں صاحب ہی کی دولت ہے ۔ انہوں نے آف شور اکائونٹس کو چھپا کے رکھا تھا اور اگر میڈیا خبر نہ دیتا توانہوں نے اور ان کے بچوں نے کبھی قوم کو اس کا نہیں بتانا تھا۔ تاہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ اسی طرح کا آف شور اکائونٹ عمران خان صاحب کا بھی نکل آیا اور جب تک میڈیا نے اس کا سراغ نہیں لگایا تھا ، وہ بھی میاں صاحب کی طرح اسے چھپا رہے تھے ۔ جب وہ پاناما کے خلاف تقریر کررہے ہوتے ہیں ، عموماً ان کے ایک طرف جہانگیر ترین اور دوسری طرف علیم خان کھڑے ہوتے ہیں جو اسی طرح کے بیرون ملک آف شور اکائونٹس کے مالک ہیں جس طرح کہ وزیراعظم کے صاحبزادے ہیں۔ اب جب وہ پاناما پاناما کا غلغلہ بلند کرتے ہیں تو ہر طرف سے جوابی صدا بلند ہوتی ہے کہ خان صاحب! دامن کو ذرا دیکھ اور اپنے آس پاس دیکھ۔
خود موقع ملا تو خیبر پختونخوا میں خان صاحب کی حکومت نے احتساب کا وہ مذاق اڑایا کہ میاں نواز شریف کو بھی مات دے دی۔ احتساب کے لئے اپنی مرضی کا قانون بنایا ۔دور جوانی کے ایک دوست لیفٹیننٹ جنرل(ر) حامد خان کو احتساب کمشنر نامزد کیا۔ ان کی اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی نے فائلیں دکھا دکھا کر اپنے وزیراعلیٰ پر کرپشن کے الزامات لگائے ۔ میرے پروگرام میں تحریک انصاف ہی کے ایم پی اے جاوید نسیم نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے چھ وزرا کی کرپشن کی فائلیں عمران خان صاحب کے حوالے کی ہیں لیکن آج تک جاوید نسیم بھی تحریک انصاف کے ایم پی اے ہیں اورجن پرالزامات لگائے ، وہ سب بھی حسب سابق وزیر ہیں ۔ پھر جب خان صاحب کے احتساب کمشنر کے ہاتھ ان کی پارٹی کے بعض لوگوں کے گریبانوں تک پہنچنے لگے تو ان کی چھٹی کرادی گئی ۔ ایک ہفتہ قبل خان صاحب نے ٹی وی پر آکر ضیا ء اللہ آفریدی کے کردار کی تعریف کی لیکن جب انہوں نے بنی گالہ میں ان کی موجودگی میںگستاخی کی تو اگلے دن ان کو احتساب کمشنر سے گرفتار کروایا ۔
حالانکہ فراغت کے بعد جنرل (ر) حامد خان نے میرے ساتھ ٹی وی انٹرویو میں فرمایا کہ ضیاء اللہ آفریدی کے موقف میں وزن ہے ۔ قومی وطن پارٹی کے دو وزراء پر خود عمران خان نے کرپشن کے الزامات لگائے لیکن سیاسی ضرورت پڑنے پر آفتاب شیرپائو کے گھر جرگے لے جاکر ان کو دوبارہ حکومت میں شمولیت پر آمادہ کرلیا گیا۔ نہ تو اپنے منہ سے لگائے گئے کرپشن کے الزامات کی تحقیق کی اور نہ کیسز بنائے گئے ۔ الٹا ان دونوں افراد نے عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے قانون کے تحت عدالت سے رجوع کیا ہے ۔ اسی طرح عمران خان نے ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ اگلے دو روز میں وہ اپنے دو وزراء کو کرپشن کی وجہ سے فارغ کررہے ہیں ۔ دو روز بعد شوکت یوسفزئی اور یاسین خلیل کو فارغ کردیا گیا ۔ خان صاحب قوم کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر ان دو وزراء نے کرپشن کی تھی توپھر ان کو پارٹی سے نکالا اور جیل میں کیوں نہیں ڈالا گیا اور اگر کرپٹ نہیں تھے تو پھر خان صاحب نے ان پر الزام کیوں لگایا اور وزارت سے کیوں فارغ کیا؟ ۔ احتساب کمشنر نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے ۔ چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج تک دوسرا احتساب کمشنر مقرر نہیں کیا گیا ۔
اخبارات میں پیڈو سے متعلق اسکینڈل کی تفصیلات شائع ہوئیں لیکن اس کے انچارج وزیر عاطف خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ ا ن کی دوسری وزارت یعنی تعلیم کی بدحالی کا یہ عالم ہے کہ ایک خاتون نے اسلام آباد آکر خان صاحب کی پریس کانفرنس کے دوران ڈائس پر وزیرتعلیم عاطف خان کی زیادتیوں کی تفصیل سامنے رکھ دی لیکن ان سے کوئی بازپرس نہیں ہوئی ۔کرپشن مرکز اور دوسرے صوبوں میں بھی زوروں پر ہے لیکن فرق یہ ہے کہ دوسری جگہوںپر الزام سیاسی مخالفین یا میڈیا کی طرف سے لگ رہا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں خود پی ٹی آئی کے وزراء اور ممبران اسمبلی الزام لگارہے ہیں یا پھر خود خان صاحب کے مقرر کردہ جنرل حامد ۔ اب جب خان صاحب پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے ساتھ کھڑے ہوکر میاں نوازشریف کے احتساب کی بات یا پھر احتساب کے منصفانہ نظام کا مطالبہ کرتے ہیں تو لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور صدائیں بلند ہوتی ہیں کہ دامن کو ذرا دیکھ ذرا اپنا نظام احتساب دیکھ۔
انہوں نے تحریک انصاف کو جیب کی گھڑی اور اس کےآئین کو ہاتھ کی چھڑی بنا دیا ہے ۔ ملکی انتخابات میں دھاندلی کا شور مچاتے رہے لیکن پارٹی انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں جب ان کے نامزد کردہ الیکشن کمشنر جسٹس وجیہہ الدین نے رپورٹ دی تو اس پر عمل کرنے کی بجائے انہیں گھر بھیج دیا۔ گویا اگر کوئی عدالت حکومت کے خلاف فیصلہ دے تو وزیراعظم اس پر عمل کرنے کی بجائے عدالت کی چھٹی کرادیں ۔ پھر اپنے ایک اور بیوروکریٹ دوست تسنیم نورانی کو الیکشن کمشنر بنایا ۔ اپنے من پسند لوگوں کو پارٹی میں آگے لانے کے لئے انہوں نے اور جہانگیر ترین نے ایک ایسا منصوبہ بنایا جس کی انتخابی رولز میں گنجائش نہیں تھی اور جب انہوں نے رولز کی پابندی پر اصرار کیا تو انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا۔ پھر سرے سے پارٹی کے اندر انتخابات ہی ملتوی کردئیے۔ اب تین بندے پارٹی کے مختار ہیں ۔ عمران خان ، جہانگیر ترین اور نعیم الحق۔ جہانگیر کے پاس جہاز اور پیسہ ہے اور وہ ان دونوں کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں ۔
نعیم الحق جس طرح خدمت کرتے ہیں ، اس طرح کوئی اور نہیں کرسکتا ۔ خیبر پختونخوا میں ترین صاحب کے من پسند بندے پر اتفاق رائے مشکل تھا تو اس صوبے کو چار زونز میں تقسیم کردیا گیا اور اس وقت وہاں چارنامزد صدور ہیں ۔ پنجاب میں دو بندوں کو خوش کرنا تھا تو اسے دو زونز میں تقسیم کردیا گیا۔ دوسری طرف سب سے بڑا صوبہ یعنی بلوچستان ایک زون ہے کیونکہ وہاں شمولیت سے قبل سردار یار محمد رند کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ صدر رہیں گے ۔ پنجاب سے جہانگیر ترین صاحب نے چار ڈپٹی جنرل سیکرٹری بنائے ہیں کیونکہ یہاں ان کے چہیتے زیادہ تھے لیکن پختونخوا سے ایک ڈپٹی جنرل سیکرٹری ہیں اور وہ بھی وہ شخص جنہوں نے آج کل اپنے آپ کو ان کی خدمت گزاری کے لئے وقف کردیا ہے۔ یہ ہے خود خان صاحب کی جمہوریت اور جمہوریت پسندی۔ اب جب وہ میاں نوازشریف کو ڈکٹیٹر کا طعنہ دیتے ہیں تو لوگ بجا طور پر مذاق اڑاتے ہیں اور صدا بلند ہوتی ہے کہ دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا اپنی جماعت دیکھ ۔
تحریک انصاف دوسری مسلم لیگ(ق) بن گئی اور عمران خان خود نوازشریف ثانی لیکن ان کی جماعت کے کارکن مسلم لیگ(ن) یا مسلم لیگ(ق) کے کارکنوں جیسے نہیں ۔ ان میں ایک بڑی تعداد مخلص لوگوں کی ہے ۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کروڑوں تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مسیحا سمجھ کر خان صاحب کو اپنا لیڈر بنایا تھا۔ وہ بے غرض اور انقلاب کے سچے متمنی تھے ۔ وہ ان کی خاطر لڑنے مرنے پر بھی تیار تھے اور ہم جیسوں کو گالم گلوچ سے نوازنے پر بھی ۔ لیکن افسوس کہ خان صاحب نے ان لوگوں کا بہت استحصال کیا۔ ان سچے انقلابیوں کے جذبات کا خون کیا۔ یہ نوجوان مرد اور خواتین اسٹیٹس کو توڑنے نکلے تھے لیکن خان صاحب نے ان کو اسٹیٹس کو کی قوتوں کے مہرے کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے اپنے کیریئر کو دائو پر لگا کر وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف میدان میں اترے تھے لیکن خان صاحب نے انہیں جہانگیرترین جیسے سرمایہ داروں کی غلامی پر مجبور کیا۔
کل کے انقلابی یا تو مراد سعید ، شہریار آفریدی اور عاطف خان بن کر خود بدل گئے یا پھر بددل ہونے لگے ۔ افسوس کہ ظلم کے خلاف میدان میں نکلنے والے خان صاحب خود بڑے ظلم کے مرتکب ہوئے اور نہ جانے اللہ کی عدالت میں وہ کیا جواب دیں گے ۔ تاہم میرے ساتھ خان صاحب نے ایسی کوئی زیادتی نہیں کی بلکہ ان دنوں وہ مسلسل مجھ پر احسان کررہے ہیں ۔ وہ اپنی ذات کے بارے میں میری ہر پیشن گوئی اور دعوے کو تسلسل کے ساتھ درست ثابت کروارہے ہیں ۔ وہ مجھے لاکھوں لوگوں کے آگے سرخرو کررہے ہیں جنہوںنے ان کی محبت میں مجھ سے نفرت کی اورجنہوں نے ان کی خوشی کے لئے میری ماں کو گالیاں دیں ۔ تبھی تو کسی کا نعرہ ہے کہ شکریہ نوازشریف، تو کسی کا نعرہ ہے کہ شکریہ راحیل شریف لیکن میرا آج کل یہی نعرہ ہے کہ شکریہ عمران خان ۔شکریہ عمران خان ۔ شکریہ عمران خان ۔
تبصرہ لکھیے