ہوم << پروڈکٹ ، صارف اور سیلیبریٹی-وسعت اللہ خان

پروڈکٹ ، صارف اور سیلیبریٹی-وسعت اللہ خان

wusat
گذشتہ برس مئی میں بھارت کے فوڈ سیفٹی کے ادارے نے نیسلے انڈیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی پروڈکٹ میگی نوڈلز کی پروڈکشن اور فروخت روکنے کا حکم دیا کیونکہ میگی نوڈلز کے لیب ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ اس میں سیسے کی مقدار انسانی صحت کے لیے محفوظ لیول سے کہیں زیادہ ہے۔ کمپنی کو حکم کی تعمیل میں میگی نوڈلز کے چار سو ملین پیکٹ بازار سے ہٹا کر تلف کرنا پڑے اور پروڈکشن روکنا پڑی۔میگی کو بھارت بھر سے واپس لینے پر سڑسٹھ ملین ڈالر کا خرچہ آیا۔کمپنی نے فوڈ سیفٹی ادارے کی پابندی کو ممبئی ہائی کورٹ میں اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ جس لیبارٹری میں میگی نوڈلز کا سرکار نے ٹیسٹ کرایا ہے وہ تکنیکی اعتبار سے اس کام کے لیے رجسٹرڈ نہیں تھی۔اس لیب میں نہ تو ضروری ٹیسٹنگ آلات تھے اور نہ ہی عملہ اس کام کے لیے کوالیفائیڈ تھا۔
ستمبر میں ممبئی کی ایک صارف نواز این جی او نے نیسلے انڈیا کے نو ڈائریکٹرز کے ساتھ ساتھ اداکار امیتابھ بچن ، پریتی زنتا اور مادھوری دکشت پر بھی مقدمہ کردیا۔کیونکہ انھوں نے صارف سے میگی نوڈلز کے اجزا کے بارے میں حقائق چھپاتے ہوئے میگی کے استعمال سے ہونے والے زیلی نقصانات کے بارے میں صارف کو گمراہ کیے رکھا۔صارفین نے اپنے محبوب سیلیبرٹیز کے اس دعویٰ پر اندھا اعتماد کیا کہ میگی نوڈلز صحت بخش غذا ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ صارفین کے اعتبار کو ٹھیس پہنچانے پر ان سیلبریٹیز کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
اکتوبر میں ممبئی ہائی کورٹ کے حکم پر میگی نوڈلز کا لیبارٹری ٹیسٹ دوبارہ ہوا اور اس میں سیسے کی مقدار اطمینان بخش سطح پر پائی گئی۔نومبر میں میگی نوڈلز دوبارہ مارکیٹ میں نظر آنے لگے اور آج سیلبرٹیز صارف کو صحت بخش میگی نوڈلز کھانے کا اشتہاری مشورہ پہلے کی طرح دے رہے ہیں۔
طویل تمہید یوں باندھی گئی کیونکہ میگی سکینڈل کے بعد سے بھارت میں یہ بحث چل نکلی کہ صارف کو دھوکا دینے کے الزام میں محض کمپنی کے خلاف ہی تادیبی کارروائی ہونی چاہیے یا پھر پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کرنے والے سیلبرٹیز کے خلاف بھی اقدامات ضروری ہیں کہ جن کے منہ سے کمپنی غیر حقیقی بلند بانگ دعویٰ کراتی ہے اور لوگ اپنی محبوب شوبزنس شخصیات کے دعوے کے سحر میں مبتلا ہو کر شے خرید بیٹھتے ہیں۔ان میں رنگ گورا کرنے والے لوشنز سے لے کر ، آلو کے چپس اور گھر اور فلیٹ تک شامل ہیں۔مثلاً بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ایم ایس دھونی نے ایک کنسٹرکشن کمپنی کے اشتہارات میں ایسی ایسی سہولتیں فراہم کرنے کے دعوے کیے جو اپارٹمنٹس میں تھیں ہی نہیں۔جن پرستاروں نے دھونی کے کہنے میں آ کر اس کنسٹرکٹشن پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کی اب وہی پرستار دھونی کو زبان سے دھون رہے ہیں۔
بھارت میں کھلاڑیوں اور شوبزنس کی شخصیات کو دیوتا مانا جاتا ہے اور ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ ایک عام پرستار کے لیے تقریباً الہامی حیثیت رکھتا ہے۔لہذا مارکیٹنگ اسٹرٹیجی کے ناقد کہتے ہیں کہ سیلبرٹیز کو بھاری رقوم کے عوض اشتہاری معاہدے کرتے وقت یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ کروڑوں لوگ ان کے ایک ایک لفظ پر یقین رکھتے اور پھر تقلید کرتے ہیں۔ناقدین کے بقول کسی شے کو اس انداز سے پسند کرنا تو ٹھیک ہے جیسے شاہ رخ خان کا یہ کہنا کہ فلاں بسکٹ مجھے پسند ہے۔اس کا مطلب ہے کہ آپ چاہیں تو آپ بھی یہ بسکٹ خرید سکتے ہیں۔لیکن جب یہی شاہ رخ خان کسی کریم کے بارے میں  اشتہاری دعویٰ کریں کہ اس سے آپ کا رنگ گورا ہوجائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ صارف کو دھوکا دینے کے برابر ہے اور دھوکے کی قانونی سزا ملنی چاہیے۔
مگر مشہور اداکارہ اور کئی مصنوعات کی برانڈ ایمبیسڈر پریانکا چوپڑا کہتی ہیں کہ اشتہاری سیلیبریٹی کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ پروڈکٹ کے بارے میں کمپنی کے دعوے کی سچائی کی سو فیصد تصدیق کر سکے۔جب کمپنی یہ سرٹفکیٹ دکھا دیتی ہے کہ فوڈ سیفٹی کے ادارے یا کنزیومر سیفٹی  اتھارٹی نے اس پروڈکٹ کو قانونی لائسنس دے رکھا ہے تو ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم اس پروڈکٹ کی تشہیر سے انکار کر دیں۔
تاہم ایک مثال اداکارہ کنگنا رناوت کی بھی ہے جنہوں نے حال ہی میں رنگ گورا کرنے والے ایک لوشن کے اشتہار میں کام کرنے سے انکار کردیا۔بقول کنگنا بھلے اس لوشن کی پیداوار قانونی ہو مگر یہ رنگ صاف کردے گا اس کی کوئی ضمانت تو نہیں۔
گذشتہ اپریل میں بھارتی لوک سبھا کی تحفظِ صارفین سے متعلق پارلیمانی کمیٹی نے تحفظِ صارف بل مجریہ دو ہزار پندرہ میں ترمیم کا مسودہ منظور کیا۔اس میں سفارش کی گئی  کہ کسی پروڈکٹ کے اشتہار میں غلط بیانی کرنے والے کردار کو پہلی بار دس لاکھ روپے جرمانے یا دو برس قید ، دوسری بار خلاف ورزی کرنے پر پانچ برس  قید یا پچاس لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا ملے گی۔اگر یہ سفارشات پارلیمنٹ نے منظور کر لیں تو پھر ہیما مالنی کو واٹر پیوریفائر یا گووندا کو منٹوں میں درد سے نجات دینے والا ہربل لوشن سستے میں بیچنا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔
مغربی ممالک میں تحفظِ صارفین سے متعلق قوانین بہت پہلے سے لاگو ہیں اور ان قوانین کے تحت عدالتیں بعض اوقات اتنے بھاری جرمانے بھی کر دیتی ہیں کہ کمپنی کی چڈی تیرنے لگتی ہے۔انیس سو اکیاسی میں گلوکار پیٹ برونو نے ایک ہربل میڈیسن کے اشتہار میں کام کیا لیکن جب اس دوا کے ذیلی نقصانات سامنے آئے تو صارفین کو پیسے واپس کرنے میں برونو کو بھی بھاری مالی حصہ ڈالنا پڑا۔اسی طرح انیس سو نوے میں ہالی وڈ اداکار لائڈ برج نے ایک کمپنی کے اشتہار کے مالی ہرجانے کی ذمے داری قبول کرلی جب یہ معلوم ہوا کہ یہ کمپنی لوگوں سے کروڑوں ڈالر کا مالی فراڈ کر چکی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ایران توران کی ہانکے جا رہا ہوں اور پاکستان کا ذکر تک نہیں کر رہا۔کیسے کروں ؟ یہاں تحفظِ صارف کا قانون کہاں ہے ؟ کئی برس پہلے سنا تھا کہ کنزیومر عدالتیں قائم کی گئی ہیں ؟ وہ کہاں ہیں اور کس قانون کے تحت ہیں اور ان کا دائرہ کار کیا ہے ؟ کوئی جانتا ہے ؟ کیا کوئی ایسا وفاقی یا صوبائی ادارہ ہے جو اشتہاری دعووں کو پرکھنے اور ان کے لیے جزا و سزا کے تعین کا ذمے دار ہو ؟ جس روز مجھے یہ سب معلوم ہوگیا۔پاکستان میں  صارف کے حقوق پر بھی ایک عدد کالم گھسیٹنا میرا وعدہ…