یہ فیصلہ 26 اگست 1941ء کو ناگپور میں ہوگیا تھا‘ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا پانچواں سالانہ اجلاس تھا‘ قائداعظم صدارت کر رہے تھے اور شرکاء نوجوان طالب علم تھے‘ قائداعظم نے فرمایا ’’ہمیں ایمان‘ تنظیم اور اتحاد کی ضرورت ہے‘ آپ انھیں اپنا جماعتی نعرہ بنائیں اور عہد کریں‘ آپ ہمیشہ اس پر قائم رہیں گے‘‘ قائداعظم نے بمبئی (موجودہ ممبئی) میں 27 جولائی 1946ء کو کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہا تھا ’’آپ اپنا ماٹو معلوم کرنا چاہتے ہیں‘ ہمارا ماٹو ہے‘ ڈسپلن‘ یونٹی اور ٹرسٹ‘‘ قائداعظم کی ٹرسٹ سے مراد ایمان تھی‘ وہ ہمیشہ ایمان کو فوقیت دیتے تھے‘ قیام پاکستان کے بعد ملک کے مونوگرام کا مرحلہ آیا‘ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایمان‘ اتحاد اور نظم تین لفظ لکھے اور یہ الفاظ پاکستان کا مونو گرام بن گئے۔
یہ مونو گرام آپ کو آج کے ہر سرکاری خط‘ ہر سرکاری لیٹر ہیڈ‘ ہر سرکاری دستاویز اور ہر سرکاری معاہدے پر نظر آتا ہے اور آپ اس کے نیچے ایمان‘ اتحاد اور نظم یہ تین لفظ بھی پڑھ سکتے ہیں‘ یہ تین لفظ پاکستان کے تین بڑے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں‘ میں جب بھی ملک کا مونو گرام دیکھتا ہوں‘ میں اٹھ کر قائداعظم کی بصیرت کو سلام کرتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے قائد 75 سال پہلے 1941ء میں بھانپ گئے تھے پاکستان کے اصل مسائل کیا ہوں گے اور ہمیں وقت گزرنے کے ساتھ اپنی بقا کے لیے کیا کیادرکار ہوگا۔
ہمارے قائد جان گئے تھے ایمان کے نام پر بننے والے پہلے اسلامی ملک کے عوام بڑے بے ایمان ہوں گے‘ یہ سجدہ ایک خدا کو کریں گے لیکن ان کے دل میں ہزاروں خدا ہوں گے‘ یہ امریکا سے لے کر چین تک اور ڈالر سے لے کر یوآن تک ہر خدا کو اصل خدا پر فوقیت دیں گے‘ یہ لوگ جہاد بھی امریکی ڈالر سے کریں گے‘ یہ بے ایمانی کے ان درجوں تک چلے جائیں گے جہاں یہ جعلی آب زم زم بیچیں گے‘ قرآن کی اشاعت کے نام پر مسلمانوں کو لوٹیں گے‘ مسجدوں کے چندے ہڑپ کر یں گے‘ حاجیوں سے فراڈ کریں گے‘ چور اور فراڈیئے فراڈ سے پہلے داڑھی رکھ لیں گے۔
یہ مخالف فرقے کی مسجدیں اور امام بارگاہیں ڈھا دیں گے‘ یہ کفر کے فتوے جاری کریں گے‘ اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کریں گے‘ یہ درگاہوں اور گدیوں کو دکانیں بنائیں گے‘ یہ دواؤں‘ دودھ‘ چینی‘ آٹے اور دالوں میں زہر ملائیں گے‘ یہ بچوں کے اعضاء نکال کر بیچ دیں گے‘ یہ عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکیں گے‘ بیویوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیں گے‘ یہ عیسائیوں‘ ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کریں گے اور یہ اللہ‘ رسولؐ اور قرآن کا نام لے کر جھوٹ بولیں گے چنانچہ قائداعظم جانتے تھے ان کی قوم کو ایمان کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔
وہ یہ بھی جانتے تھے یہ قوم اس وقت تک قوم نہیں بنے گی جب تک یہ مذہبی‘ سماجی اور اخلاقی ایمان کے اعلیٰ درجے تک نہیں پہنچ جاتی‘ پاکستان میں جب تک مسلمان کے ہاتھ سے مسلم اور غیر مسلم دونوں پاکستانی محفوظ نہیں ہو جاتے‘ یہ لوگ جب تک سماجی تقاضوں‘ سماجی فرائض اور سماجی حقوق کو ایمان جتنی اہمیت نہیں دیتے‘ یہ جب تک ٹریفک لائیٹس کو احترام‘ ایمبولینس کو گنجائش اور گھر کے کچرے کو ٹھکانا نہیں دیتے‘ یہ جب تک سماج کو ایمان کا حصہ نہیں بناتے اور یہ لوگ جب تک اخلاقیات کو ایمان کا چھٹا رکن نہیں سمجھتے‘ یہ کم تولنا‘ ملاوٹ کرنا‘ جھوٹ بولنا ‘ عورتوں کی توہین اور بچوں پر ظلم کرنا نہیں چھوڑتے یہ قوم نہیں بن سکیں گے۔
ہمارے قائد یہ بھی جانتے تھے یہ جس ہجوم کو قوم بنانا چاہتے ہیں وہ اتحاد کے شدید بحران کا شکار ہو گا‘ یہ لوگ تقسیم در تقسیم در تقسیم کا شکار ہوں گے‘ بلوچی بلوچی رہے گا‘ پاکستانی نہیں بنے گا‘ پٹھان پشتون کلچر‘ زبان اور ڈی این اے کو ملک سے زیادہ اہمیت دے گا‘ سندھی 70 سال بعد بھی پاکستانی نہیں بن سکے گا‘ پنجابی خود کو ملک کا مالک سمجھے گا‘ یہ اکثریت کی بنیاد پر حاکم بن جائے گا اور پیچھے رہ گئے بنگالی تو یہ 24 سال بعد ہی بنگلہ دیش بن جائیں گے‘ ہمارے قائد جانتے تھے پاکستان کا مسلمان بھی تقسیم ہو جائے گا‘ یہ پہلے سنی اور شیعہ میں تقسیم ہو گا اور پھر یہ شیعہ در شیعہ اور سنی در سنی در سنی ہو جائے گا۔
یہ پوٹھوہاری پنجابی‘ جانگلی پنجابی‘ سینٹرل پنجابی‘ فیصل آبادی پنجابی‘ سیالکوٹی پنجابی‘ لاہوری پنجابی اور سرائیکی پنجابی میں بھی تقسیم ہوگا‘ پشتون بھی پہلے قبائلی پٹھان‘ پشاوری پٹھان‘ سواتی پٹھان اور ہزاروی پٹھان ہوں گے اور پھر وزیر‘ محسود‘ مہمند‘ آفریدی‘ خٹک‘اورکزئی‘ یوسفزئی‘جدون‘ مندوخیل اور مروت میں تقسیم ہو جائیں گے‘ بلوچ بھی بگٹی‘ مری‘ابڑو‘ مگسی‘ مزاری‘ مینگل‘ بوزدار‘ پتافی‘ رئیسانی‘ زہری اور قیصرانی ہو جائیں گے اور سندھی بھی بچانی‘ مُکھی‘ منگرانی‘ چاچڑ‘ چانڈیو‘ چنا‘ میربہار‘ سانگھڑ‘ سومرو ‘سولنگی اور کھوڑو ہو جائیں گے اور آخر میں مہاجر بھی قومیت بن جائیں گے‘ یہ بھی کراچی اور حیدرآباد کو سندھ سے الگ کر دیں گے۔
ہمارے قائد یہ بھی جانتے تھے ہمارے سرکاری ادارے بھی تقسیم ہوں گے‘ یہ پہلے سول اور ملٹری میں تقسیم ہوں گے اور پھر سول ادارے سول در سول در سول اور فوجی ادارے فوج درج فوج در فوج ہو جائیں گے یہاں تک کہ فضائیہ اور بحریہ ایک دوسرے کے خلاف ہوں گی پھر یہ دونوں مل کر ملٹری سے دور ہو جائیں گی یہاں تک کہ 1965ء کی جنگ ہو‘ 1971ء کی ہو یا پھر کارگل کا ایشو ہو فوجوں کے درمیان رابطے کا فقدان ہو گا‘ ہمارے قائد جانتے تھے سول ادارے فوج کی نہیں مانیں گے اور فوج سول ادارں سے دور ہوتی چلی جائے گی۔
سویلین حکمران میرٹ کو روند کر اپنی مرضی کے آرمی چیف لائیں گے اور آرمی چیف سیاسی جماعتیں بنا کر سیاستدانوں کی نرسری لگا دیں گے‘ حکومتیں جرنیلوں کو فضا میں برطرف کر دیں گی اور جرنیل حکومتوں پر دھرنے چڑھا دیں گے‘ قائد جانتے تھے سرکاری دفتر دوسرے سرکاری دفتروں کے احکامات نہیں مانیں گے‘ بیورو کریسی عدالتی احکامات تسلیم نہیں کرے گی اور عدالتیں حکومتی فیصلے نہیں مانیں گی‘ ایک ادارہ اسٹیل مل بیچے گا دوسرا روکے گا‘ ایک اورنج لائین ٹرین بنائے گا دوسرا بند کرے گا ‘ایک ادارہ گٹر کھولے گا دوسرا بند کرائے گا اور ایک سرکاری محکمہ سڑک بنائے گا اور دوسرا محکمہ اسے توڑے گا‘ ہمارے قائد کو معلوم تھا ملک کے سیاستدان بھی آپس میں لڑیں گے۔
یہ آئین‘ قانون اور ضابطوں پر بھی دست و گریباں ہوں گے چنانچہ ہمارے قائد جانتے تھے یہ ہجوم جب تک اپنے اندر اتحاد پیدا نہیں کرے گا‘ پاکستان میں رہنے والا ہر ادارہ‘ ہر قومیت‘ ہر فرقہ اور ہر نسل خود کو جب تک پاکستانی نہیں سمجھے گی‘ یہ لوگ اس وقت تک قوم نہیں بن سکیں گے اور ہمارے قائداعظم یہ بھی جانتے تھے یہ قوم ڈسپلن کے بحران کا شکار بھی ہو گی‘ پولیس اہلکار یونیفارم نہیں پہنیں گے‘ لوگ نمبر پلیٹ کے بغیر گاڑیاں چلائیں گے‘ ملک میں ستر سال بعد بھی ریڈ لائیٹ پر گاڑی نہیں رکے گی‘ لوگ میٹرو بس کے جنگلے پھلانگ کر سڑک پار کریں گے‘ لوگ ائیر پورٹ پر بھی قطار نہیں بنائیں گے‘ ملک کے ہر اسکول کا یونیفارم‘سلیبس‘ کتابیں اور امتحانات مختلف ہوں گے۔
قوم ستر سال بعد بھی سرکاری چھٹیوں‘ چاند اور ڈیموں پر متفق نہیں ہو سکے گی‘ یہ سرکاری دفتروں کے اوقات طے نہیں کرسکیں گے اور اگر طے ہوگئے تو یہ اس پر عمل نہیں کرسکیں گے‘یہ چھٹی کا وقت بھی مقرر نہیں کرسکیں گے‘ یہ شام کے وقت مارکیٹیں بھی بند نہیں کرا سکیں گے‘ یہ ون ڈش کی پابندی بھی نہیں کرسکیںگے اور یہ بسوں‘ ٹرینوں اور جہازوں کے شیڈل پر بھی عمل نہیں کر سکیں گے۔
ہمارے قائد جانتے تھے ہمارے ملک میں نرس ڈاکٹر کی ہدایت نہیں مانے گی‘ استاد پرنسپل کی اتھارٹی تسلیم نہیں کرے گا‘ ایس پی کرپٹ ایس ایچ او کو نہیں ہٹا سکے گا‘ حکومت عدالتی احکامات کی پرواہ نہیں کرے گی‘ فوج حکومت کی نہیں مانے گی اور حکومت پارلیمنٹ کو گھاس نہیں ڈالے گی‘ وزیراعظم‘ وزیر دفاع اور سیکریٹری دفاع آرمی چیف کے ماتحت ہو جائیں گے اور آرمی چیف رفقاء کار کے فیصلوں کے پابند ہوں گے چنانچہ ہمارے قائداعظم جانتے تھے یہ ہجوم جب تک ڈسپلن پیدا نہیں کرے گا یہ جب تک اداروں کو سپریم نہیں بنائے گا اور یہ جب تک قانون کو اپنا حکمران تسلیم نہیں کرے گا یہ اس وقت تک قوم نہیں بن سکے گا۔
ہم نے تین ہفتے پہلے اپنا 69 واں یوم آزادی منایا تھا اور ہم آج اپنا یوم دفاع منا رہے ہیں‘ کاش ہم آج اپنا قومی ماٹو دیکھ لیں‘ ہم اپنا مونو گرام پڑھ لیں اور یہ مان لیں ہمارے صرف تین مسائل ہیں‘ ہم بے ایمان ہیں‘ ہم نفاق کا شکار ہیں اور ہم ڈسپلن سے عاری ہیں‘ کاش ہم یہ فیصلہ کر لیں ہم آج سے ڈسپلن میں رہیں گے‘ ہم متحد ہو جائیں گے اور ہم کسی قیمت پر ایمان کا سودا نہیں کریں گے تو آپ یقین کر لیں ہمیں اگلے سال یوم دفاع منانے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ہم اگلے سال تک یہ جان چکے ہوں گے ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتے اور یہ جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتے اور یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جسے صرف قومیں سمجھ سکتی ہیں‘ ہجوم نہیں۔
تبصرہ لکھیے