جمہوری سیاسی نظم (ووٹنگ کے ذریعے حکمرانوں کے چناؤ) کی ایک خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے سیاسی نظام میں ٹھہراؤ (stability) آتا ہے اور دلیل کے طور پر یورپ کی تاریخ کو پیش کیا جاتا ہے کہ جمہوری استحکام کے بعد یورپ داخلی جنگوں سے محفوظ ہوسکا۔
لیکن درج بالا تجزیہ دو وجوہات کی بنا پر بہت حد تک عمومی ہے۔ ایک اس لیے کہ جمہوری سیاسی نظم کا استحکام ووٹنگ کے ذریعے حکمرانوں کے چناؤ میں نہیں بلکہ اس چناؤ کے ذریعے چنے گئے حکمرانوں کی قوت کو بدستور کم کرکے قوت کو ریاست کے مستقل اداروں میں محفوظ کرنے میں پنہاں ہے۔ اس اجمال کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جمہوری ریاست کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک مستقل ادارے و افراد (عدلیہ، بیوروکریسی، ٹیکنوکریسی، پالیسی ساز ادارے فوج وغیرہم ) اور دوسرا غیر مستقل افراد (مقننہ)۔ ریاست کے مستقل مفاد کا تحفظ کرنے والے اداروں میں الیکشن نہیں مخصوص علم و صلاحیت پر مبنی سیلیکشن کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مضبوط جمہوریت وہی ہوتی ہے جس میں ریاست کے مستقل ادارے آزادانہ حیثیت میں ریاست کے مستقل مفاد کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کرسکیں، غیر مستقل افراد چاہتے ہوئے بھی قانونا ان کی ذمہ داریوں میں ٹانگ نہ اڑا سکیں (جمہوری اداروں کے استحکام کا مطلب یہی ہوتا ہے)۔ الغرض جمہوری ریاست کا استحکام ووٹنگ سے نہیں بلکہ مستقل جمہوری اداروں کے استحکام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات بالکل عام فہم ہے کہ استحکام مستقل افراد و اداروں سے آتا ہے نہ کہ غیر مستقل افراد سے۔ پس یورپ میں مستقل جمہوری ادارے جس قدر مضبوط ہوتے گئے ریاستی نظام میں اسی قدر ٹھہراؤ آتا رہا۔
دوسری اہم ترین بات یہ کہ یہ جسے جمہوری ریاست کا استحکام کہتے ہیں اس کے پس پشت کافرماں محرک مارکیٹ کا استحکام ہوتا ہے۔ سیاسی استحکام سرمائے اور سرمایہ دار کمپنیوں کے مفادات کی مرہون منت ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں، شوقین حضرات Karl Polanyi کی کتاب The Great Transformation کا مطالعہ فرمائیں جس میں وہ جنگ عظیم اول سے قبل یورپ کے سو سالہ امن کے معاشی محرکات کا تجزیہ کرکے بتاتا ہے کہ یہ کیونکہ جنگ و جدل کی طرف مائل ہوا اور اس کے بعد نئے امن کا دور کن بنیادوں پر قائم کیا گیا۔
تبصرہ لکھیے