یہی وجہ ہے کہ اب کچھ عقل مندوں نے تو میاں صاحب کے اقتدار میں حصہ حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ ان کے خاندان کا حصہ بننے کے لیے راستے ڈھونڈ لیے ہیں۔ بعض لوگ کیپٹن صفدر صاحب والا راستہ اپناتے ہیں، بعض میاں منیر والا، بعض لوگ اسحاق ڈار والا اور بعض علی عمران (المعروف بیکری ملازم کو پھینٹی لگانے والے) والا راستہ اختیار کرتے ہیں اور دلی مراد پاتے ہیں۔ اب تک تو تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس طرح سے ہی ان لوگوں کی میاں صاحب کے اقتدار میں شراکت داری کی مراد ضرور برآتی ہے۔ ورنہ جاوید ہاشمی سے لے کر راجہ ظفر الحق تک، وہ تمام لوگ جنہوں نے میاں صاحب کے اقتدار کے راستے کے کانٹے اپنی پلکوں سے چنے، اور ان کی غیر موجودگی میں ملک میں ان کی پارٹی کے لیے جدوجہد کرتے رہے، وہ آج کل سیاست کے عجائب گھر میں سجے پڑے ہیں۔ میاں برادران کی طرف سے مقامی حکومتوں کو اقتدار میں حصہ نہ دینا، شہباز شریف کا کابینہ کو اپنی ذات تک محدود رکھنا، اس پالیسی کا حصہ ہیں۔
چونکہ میاں صاحب کے اقتدار کی ملائی کھانے والے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں، اس لیے معاملات نہ صرف کنٹرول میں رہتے ہیں بلکہ صفائی سے سرانجام بھی دیے جاتے ہیں اور یوں بڑے چپکے سے ان کے سمدھی اسحاق ڈار کے دبئی میں پلازے اگ آتے ہیں، سیٹھ حسین دائود اور میاں منشا کھربوں پتی ہو جاتے ہیں اور یوں میاں صاحبان ہر جلسے میں سٹیج پر کھڑے ہو کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’اگر میرے خلاف ایک پائی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو آپ کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا‘‘۔ ظاہر ہے سمدھی کو اتنی تگ و دو کے بعد اقتدار میں حصہ ملا ہوتا ہے، اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ رولا ڈالے گا؟
اوپر کے تینوں طبقہ ہائے اشرافیہ دیکھیں تو کہنا پڑے گا کہ اس قوم کی قسمت ہی خراب ہے۔ لیکن پھر یہ دیکھ کو دل کو سکون حاصل ہوتا ہے کہ ’جیسی روح ویسے فرشتے‘ کے مصداق اس قوم کے اعمال اسی لائق ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں کہاں ایسا نہیں ہوتا؟ نالکل بجا لیکن وہاں پر لیڈر یہ ساری لوٹ مار اقتدار کے حصول کے عمل کے دوران کرتے ہیں اور جب اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ جاتا ہے تو پھر ایسی حرکات و سکنات سے تائب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اقتدار یہ ساری حرکات اقتدار حاصل کرکے کی جاتی ہیں۔ بس اتنا سا فرق ہے۔
(رضوان الرحمن رضی، معاشی صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں آپ براڈکاسٹر اور ٹی وی اینکر بھی ہیں اور مقامی یونیورسٹیوں میں صحافت کے جزوقتی استاد کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں)
سیاسی اشرافیہ اور کرپشن - رضوان الرحمن رضی

"اور آخری بات کسی کو اچھی لگے یا بری، یہ ہے کہ نواز شریف کی جمہوری حکومت اگر غیر فطری طریقے سے گھر بھیجی گئی تو یاد رکھیے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہو جائیں گے۔ جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیجیے۔ یہ راستہ کٹھن سہی لیکن راستہ یہی ہے۔ اور کسی راستے سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ تبدیلی کا یہی ایک فطری راستہ ہے جسے ارتقاء کہتے ہیں۔"
آصف صاحب، یہی اگر آپ کی دیانت دارانہ رائے ہے تو پھر تیار رہیے۔ یہ سوکالڈ جمہوریت کے نگہدار اور علمبردار لوگ میری اور آپ کی نسلوں تک ہم پر یونہی مسلط رہیں گے۔ آپ جیسے بے فکرے لوگ جمہوریت کی بقا اور تحفظ کا راگ ہی الاپتے رہیں گے۔ لگے رہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود بھی اور افراد قوم کو بھی ان خود فریبیوں میں مگن رہنے اور رکھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔