ابلیس دربار عالی میں جھگڑتا ہے اور کٹ حجتی کرتا ہے۔
”میں آدم کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ وہ مٹی سے اور میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں، آگ اوپر اٹھتی ہے اور مٹی نیچے گرتی ہے۔“
خداوند تعالی ابلیس کے دلائل کو زمین پر پٹختے ہوئےفضیلت و برتری کے سارے معیارات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صرف ایک معیار باقی رکھتے ہیں اور وہ ہے علم کی بزرگی۔ابلیس کو علم کے سامنے جھک جانے کا حکم ملتا ہے، سرکوبی کی صورت میں وہ راندہ درگاہ ٹھرتا ھے، باقی سارے ملائکہ سجدے کر لیتے ہیں، اور یوں علم کی دھاک بیٹھ جاتی ہے، اہل علم کا رعب جم جاتا ہے۔
بات صرف آدم علیہ السلام تک محدود نہیں رہتی بلکہ سارے انبیاء علیھم السلام کو علم کے ساتھ مبعوث کیا جاتا ھے۔ علم ہی کی وجہ سے انھیں نیابت حق ملتی ہے۔ یہاں تک کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جب ظہور ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسی پرانے سبق کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے جو فضیلت کا معیار رہ چکا ہے۔ حکم ملتا ہے”اقراء“ اور اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اول تا آخر برتری کا معیار اور اولین حکم خداوندی حصول علم ہی ہے۔ علم کے بعد دوسرے سلسلے شروع ہوتے ہیں۔
اسلام علم کو علی الاطلاق لازم ٹھہراتا ہے، اور اس سلسلے میں قدیم وجدید، دینی و دنیاوی کی کوئی تفریق روا نہیں رکھتا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم جہاں خود اپنے رب سے علم میں بڑھوتری کی دعا مانگتے نظر آتے ہیں، وہاں اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم سے ارشاد فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہر حامل اسلام پر فریضہ ہے، اور ماں کی گود سے لے کر لحد تک یہ سلسلہ جاری رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنھم جہاں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں عصری تعلیم میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ بدر کے قیدیوں کو جو کہ ظاہر ہے کافر ہی تھے، اس شرط پر خلاصی ملتی ہے کہ وہ دس، دس مسلمانوں کو علم سکھائیں گے۔ زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم ملتا ہے جسے وہ پندرہ، سولہ دنوں میں سیکھ کر ایک مثال قائم کر دیتے ہیں۔
اسلام جہاں ہر بامقصد، لغویات سے پاک علم حاصل کرنےکا اذن دیتا ہے اور درجات کے تفاوت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لازم ٹھہراتا ہے، وہاں کچھ حدود بھی رکھتا ہے۔ فریضہ اول اور فریضہ دوم کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ سبق دیتا ہے کہ فریضہ دوم کی تکمیل فریضہ اول کے ضیاع کا سبب نہ ہو ۔فرق مراتب لازم ٹھرتا ہے۔ بات یہاں پہ آ کے رکتی ہے کہ اسلام، ایمان کی دولت برقرار ہو، سرشت میں توحید کی شمع فروزاں ہو، عبدیت حق ترجیح اولین ہو تو پھر علم مشرقی ہو یا مغربی، فساد کا سبب نہیں بن سکتا۔
ایک مسلمان نوجوان اگر ضرورت رکھتا ہے تو اپنی ساری دوڑ دھوپ کا محور عصری علوم بنا سکتا ہے، اگر چاہے تو مغربی تعلیم کے حصول میں جان کھپا سکتا ہے تاہم جس طرح پرندہ پھولوں کی ٹہنیوں پر چہکتا ہے، لیکن نظر اپنے گھونسلے پر رکھتا ہے، اس طرح ایک مسلمان نوجوان خواہ مشرقی تعلیم حاصل کرے یا مغربی تعلیم ، ضائع نہیں ہو سکتا اگر وہ ہر جگہ، ہر وقت اپنے گھونسلے، اپنے دینی اقدار و روایات کو پیش نظر رکھ کے چلتا رہے۔
تبصرہ لکھیے