دنیا میں کوئی بھی فرد غیرجانبدار نہیں ہوتا نہ ہی کوئی عقلمند شخص غیرجانبداری کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہر شخص ہی زندگی میں کچھ اصول و نظریات رکھتا ہے، تاریخ کو پرکھنے کا ایک اسلوب اختیار کرتا ہے، اسی کے مطابق کسی کو درست اور کسی کو غلط سمجھتا ہے۔ محمد بن قاسم مسلمانان برصغیر کا ہیرو ہے کہ اس سے یہ علاقہ اسلام کے نور سے منور ہوا مگر کچھ لوگ اب بھی راجہ داہر کو ہیرو مانتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر اپنے اقدامات اور طرز حکمرانی کی بنا پر ایک بڑی اکثریت کی پسندیدہ شخصیت ہے تاہم ایک قلیل سیکولر گروہ اور جدت پسند طبقہ اس سے دشمنی کی حد تک نفرت کرتا ہے۔ محمود غزنوی کو ہم مسلمان اپنا محسن اور ہیرو گردانتے ہیں کہ اس نےسومنات کے مندر کو پاش پاش کیا اور ہند کو مسجدوں اور اذانوں کا دیس بنایا مگر کچھ لوگوں کا دعویٰ یہ بھی ہےکہ اس کی نیت ہندوستان لوٹنے کی تھی۔ یہ البتہ معلوم نہیں کہ اس کی نیت کا حال ان پر کیسے ”منکشف“ ہوا۔ ہمارے ہی کچھ ”دانشور“ ایسے بھی ہیں جنھیں باوجود اس کے کہ دنیا کئی صدیوں تک اسلام کی احسان مند رہی ہے، مسلمانوں کی پوری تاریخ میں لوٹ مار، قتل و غارت گری، جنگ و جدل اور ہوس اقتدار ہی نظر آتا ہے، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کا قتل اور اس کے بعد انسانیت کا مسلسل بہنے والا خون البتہ ان کے نزدیک ترقی اور جمہوریت کی علامت ہے۔
ضیاء الحق کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جس کے بارے میں کہنے والے بہت کچھ کہتے ہیں، لکھنے والے بہت کچھ لکھتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اکثر اس میں سے درست نہیں ہوتا۔ضیاء الحق فرشتہ نہیں تھا۔ فرشتہ ہونے کادعویدار بھی نہیں تھا۔ اس کی حمایت کرنے والے بھی اس کو عمر بن عبد العزیز ثابت نہیں کرتے، اگرچہ اس کے مخالفین کا بس نہیں چلتا کہ اس کو ہٹلر سے زیادہ ظالم اور حجاج بن یوسف سے زیادہ سفاک تسلیم کروا کر دم لیں۔ تعصب کی عینک پہن کر، نفرت کا قلم تھام کر اگرکوئی ضیاءالحق کے بارے میں من پسند تجزیہ کرنا چاہے تو کرتا پھرے۔ اپنی خواہشات کی بنا پر کسی کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے اور تاریخ کے قبرستان میں دفن کرنے والے خود تاریخ میں کیا مقام پائیں گے، اس کا فیصلہ تو آنے والا مؤرخ ہی کرے گا۔
ایک مختصر تحریر اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ہر بات کی وضاحت کی جائے اور ویسے بھی داغ اور دھبے لگانا آسان ہوتا ہے، ان کو صاف کرنا ہی مشکل ہوتا ہے چاہے کپڑوں پر لگائے داغ ہوں یا تاریخ پر لگائے گئے دھبے۔ البتہ ضیاء الحق کے بارے میں چند بنیادی غلط فہمیوں کا ازالہ مقصود ہے۔ ضیاء الحق پر کیے گئے اہم ترین اعتراضات یہ ہیں
1. وہ ایک آمر تھا جس نے بھٹو کو پھانسی دی
2. روس کے خلاف امریکہ کی مدد کی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں
3. افغان مہاجرین کو پا کستان کے معاشرے میں بسا دیا
4. مجاہدین کے مختلف گروہ تیار کیے جو آج ریاست سے لڑ رہے ہیں
5. کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کو پروان چڑھایا
ضیاء الحق ایک آمر تھا۔ آمریت بہت بری چیز ہے جو بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ حکمرانوں کو منتخب ہونا چاہیے چاہے منتخب ہونے کے لیے انھیں سیاست کو کاروبار بنانا پڑے اور بےدریغ سرمائے کا استعمال کرنا پڑے، چاہے منتخب ہونے کے لیے انھیں دھڑے بازیاں کرنی پڑیں اور ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا پڑے جو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے سے عوام کی حمایت حاصل کر سکتے ہوں۔ چاہے منتخب ہونے کے لیے انھیں وفاداریاں تبدیل کرنی پڑیں، چاہے منتخب ہونے کے لیے انھیں خوف اور لالچ سمیت جو بھی ہتھیار کارگر ہو، استعمال کرنا پڑے، ہاں مگر حکمرانوں کو بہرحال منتخب ہونا چاہیے۔
سارے اچھے اعمال کی قبولیت کی بنیاد دین میں جیسے توحید ہے، جمہوریت میں وہی حق انتخاب کو حاصل ہو جاتا ہے اور عوامی فلاح وبہبود میں کیے گئے سارے اچھے کام بھی اسی وقت شرف قبولیت پا تے ہیں جب انھیں انتخاب کی سند حاصل ہوگی۔ عوامی اور جمہوری مفاد میں ”منتخب“ فرد کے ہر برے کام سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے۔
ٹیپو سلطان بھی کوئی منتخب حکمران نہیں تھا بلکہ حیدر علی کے بعد براہ راست مسند اقتدار پر فائز ہو گیا تھا لیکن اپنے طرز حکمرانی اور شجاعت کی بنا پر اس کا نام تاریخ میں جگمگا رہا ہے۔ شیر شاہ سوری کو بھی عوامی ووٹوں کی تائید حاصل نہیں تھی لیکن پانچ سال کے مختصر عرصے میں اس نے برصغیر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ صلاح الدین ایوبی کو بھی آپ کے جمہوری اصولوں کے مطابق رائے عامہ کی حمایت میسر نہیں تھی لیکن اس فاتح بیت المقدس کو آج بھی امت مسلمہ ہیرو تسلیم کرتی ہے اور اس کےلیے دعاگو ہے۔
جانچنے کے پیمانےگر تو مغرب کے جمہوری اصول ہیں تو اسلام کی زریں تاریخ میں کم ہی ایسے نام ہوں گے جن کو کسی درجے میں سراہا بھی جاسکے، ہیرو قرار دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ گر پرکھنے کا اصول یہ ہے کہ اسلام کی کسی درجے میں خدمت اور امت کی فلاح میں اپنا کردار ادا کرنے والا ہر فرد ہی ہماری دعاؤں کا مستحق ہے چاہے وہ ماضی بعید میں زنگی و ایوبی ہوں یا ماضی قریب میں شاہ فیصل و دیگر تو سوویت یونین کے انہدام، وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی، کمیونزم کی موت سمیت بےشمار نیک کام کرنے والا منکسر المزاج اور جری ضیاء الحق کم از کم بھی ہماری تعریف کا تو حقدار ہے۔
سکہ رائج الوقت جمہوریت کے مطابق ہی نمبر دینے ہیں تو بھی عدل کا تقاضا ہے کہ ہر کسی کا کردار نمایاں کیا جائے۔ مارشل لا کے بانی اس ملک میں ایوب خان تھے اور جب تک مارشل لا لگایا جاتا رہےگا ، ایوب خان کو اس کا ”ایصال ثواب“ ملتا رہے گا۔ ایوب خان کی طاقت بھٹو صاحب جیسےلوگ تھے جو اس کو ڈیڈی کہتے رہے۔ جمہوریت گر تو ایک رویے کا نام ہے تو وہ بھٹو میں کہاں موجود تھا جس نے 329 سیاسی کارکنوں کو شہید کر دیا۔ جس نے ڈاکٹر نذیر، خواجہ رفیق اور نواب قصوری سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو شہید کروایا۔ جس نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کیے، سیاسی رہنماؤں پر بدترین تشدد کیا، ایف ایس ایف بنوائی اور مخالفین پر چڑھ دوڑا. بھٹو اپنی ذات کو پوجنے والا نرگسیت میں مبتلا ایک فرد تھا جس کےخلاف لاکھوں لوگوں نے تحریک چلا کر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ بھٹو کو بطور مثال پیش کیا ہے وگرنہ سارے ہی منتخب جمہوری حکمران ایسے ہی ہیں ۔جس شے کو یار لوگ جمہوری رویے کا نام دیتے ہیں، وہ ضیاء الحق میں بھٹو کی نسبت کہیں زیادہ تھا۔ اور جمہوریت گر تو کسی نظام کا نام ہے تو پاکستان میں وہ نظام رائج ہی کب تھا کہ اس کی پامالی کا ضیاء الحق کو قصور وار ٹھہرایا جائے۔
اللہ کو قادر مطلق ماننے والے مسلمانوں میں کچھ ایسے دانشور بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، امریکہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ملکوں کی تقدیر کے فیصلے امریکہ کرتا ہے۔ قوموں کا عروج و زوال امریکہ کا مرہون منت ہے۔ حکمرانوں کا بناؤ اور بگاڑ امریکہ کی مشیت سے ہے۔ وہی امریکہ جس کو ویتنام میں شکست فاش ہوئی، وہی امریکہ جو نہتے افغانیوں کے جذبہ جہاد کوگزشتہ پندرہ سال سے شکست نہیں دے سکا۔ کہا یہ جاتا ہےکہ اس امریکہ نے ضیاء الحق کو کرائے کے سپاہی کے طور پر استعمال کیا۔ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاناگر کوئی کمال ہے تو کہنے والوں کو یہ کمال ضرور حاصل ہے۔ اس اعتراض کی حقیقت البتہ اتنی ہے کہ سوویت یونین نے ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان کے نہتے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا۔ روس کی گرم پانیوں تک رسائی نہیں تھی اور وہ پاکستان پر قابض ہو کر سمندر کے راستے تجارت کو فروغ دینا چاہتا تھا۔ ضیاء الحق نے مجاہدین سے مل کر پاکستان کے بقا کی جنگ افغانستان میں لڑی اور سرخ ریچھ کو پاکستان کی سرزمین سے دور رکھا۔ اس خدمت کا صلہ اس کو یہ مل رہا ہے کہ ہر کوئی جمہوری اور مہذب کہلانے کے خبط میں ضیاء الحق پر سب و شتم کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔
روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہمسایہ اسلامی ملک پاکستان کے پاس تین آپشن تھے۔
1. اس جنگ کو پرائی جنگ سمجھ کر اس سے قطع تعلقی اختیار کرتا کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے باہر بستےافغان مسلمانوں سے الگ نیشن سٹیٹ ہونے کی بنا پر ہمارا کوئی تعلق ہے نہ واسطہ۔ ہماری بلا سے ان پر جو مرضی بیتے، جب تک ہم پر خود نہیں گزرے گی، ہم اس درد کو محسوس نہیں کریں گے۔
2. آج کی کچھ امریکہ نواز جماعتوں کی مانند جو اس وقت روس نواز تھیں، افغانیوں کے قتل عام میں ظالم روس کا ہمنوا بن جاتا اور انتظار کرتا کہ روس کب پاکستان پر قابض ہو کر ان کو ”شرف غلامی“ بخشتا ہے۔
3. انسانیت اور اسلام کے ناطے مظلوم افغانیوں کی مدد کرتا کہ رسول ﷺ کی امت ایک ہے اور اگر اس پر ظلم ہو تو اس کا ساتھ دینا دینی تقاضا ہے۔ اور اپنے ملک سے سرخ ریچھ کو دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا. ضیاءالحق نے یہی تو کیا لیکن اس سے کچھ لوگوں کو اتنے گہرے زخم لگے کہ آج تک مندمل نہیں ہو پائے۔
رہی بات امریکہ کے لیے کرائے کے سپاہی کا کردار ادا کرنے کی تو سر پر آئی مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے ضیاءالحق نے امریکہ کے وسائل نہایت دانشمندی سے استعمال کیے اور اس کی حمایت سے اپنا ایٹمی پروگرام بھی مکمل کر لیا جو بصورت دیگر ایک نہایت مشکل امر ہوتا۔ ہمای دیگر قیادت بھی دستیاب مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرنے پر ضیاءالحق کی طرح قادر ہوتی تو آج ملک و قوم کی حالت مختلف ہوتی۔
جہاں تک افغان مہاجرین کو پاکستان کی بستیوں میں آباد کرنے کی بات ہے تو یہ مواخات مدینہ کی عملی مثال تھی. جبکہ مجاہدین کے گروہ وہی ہیں جو افغانستان میں ناٹو افواج سے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں برسر پیکار گروہ تو را کے تیار کردہ ہیںا۔ ان کی تاریخ بھی نائن الیون کے بعد سے شروع ہوتی ہے جب ہم پراکسی وار میں الجھ گئے اور را سمیت دشمن ملک کی ایجنسیوں کو نفوذ کا موقع ملا۔
کلاشنکوف کلچر کا الزام اس لحاظ سے غلط ہے کہ پاکستان میں اس کا استعمال ضیاء الحق کی آمد سے پہلے سے جاری تھا. مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی نے ضیاء الحق کے کلاشنکوف کلچر سے متاثر ہو کر اسلحے کا استعمال شروع کیا تھا؟ بلوچستان میں بھٹو کے دور میں اسلحے کا استعمال ہوا نتیجتا فوجی آپریشن کرنا پڑا. سندھ کے شہری علاقوں میں اسلحے کا استعمال ایم کیو ایم نے شروع کیا جس کا مذہب یا جہاد سے کوئی تعلق نہیں، جو خود اعلانیہ سیکولر و لبرل کہتے ہیں. ہیروئن کا استعمال بھی پاکستان میں گزشتہ سالوں ہی میں زیادہ ہوا ہے۔2007ء میں پاکستان میں 90 ہزار لوگ منشیات کے ٹیکے لگواتے تھے جن کی تعداد 2014ء میں 5 لاکھ تک پہنچ گئی۔ایک ریسرچ کے مطابق 2005ء میں11 فیصد پاکستانی کسی نہ کسی قسم نشہ کرتے تھے جن کی تعداد 2011ء میں 40 فیصد تک ہوگئی۔ ان ادوار میں نہ تو ضیا کی حکومت تھی اور نہ ہی ضیا کی باقیات کی۔ یہ تو روشن خیال مشرف اور اینٹی ضیا پی پی کے ”سنہری دور“ کے حقائق ہیں۔ اب یہی کیا جاسکتا ہے کہ اعصاب پر سوار ضیاء الحق کی روح کو موردالزام ٹھہرا دیا جائے۔
ضیاء الحق ایسا حکمران تھا جس نے بھارت میں جا کر بھارت کو للکارا اور راجیو گاندھی کے پسینے چھوٹ گئے۔ ہماری نسل کی قسمت میں تو ابھی تک نواز شریف جیسے آئے ہیں جو واجپائی سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے رہے اور1999ء میں اس کی مزاحمت کرنے والوں پر ڈنڈے برساتے رہے، یا پھر مشرف جس نے کشمیر کی تحریک کو ہی ملیامیٹ کر کے رکھ دیا اور کشمیر کی تحریک ہی کیا، اس نے تو پاکستان کی مملکت کا بھی یہی حشر کیا۔
اس مضمون میں ضیاءالحق پر کیے گئے اعتراضات کا مختصر جائزہ ہی لیا گیا ہے۔ اس کے کارنامے اور خوبیوں کی تفصیل کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ ضیاء الحق انسان تھا اور انسانوں میں خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ حکمرانوں کی خامیاں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں اور ہونی بھی چاہییں۔ طلبہ یونین پر پابندی، ایم کیو ایم کی سر پرستی اس کے غلط اقدام تھے لیکن ان اقدامات کو سند جواز بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی بخشا جس پر ان کا محاسبہ بھی ضروری ہے۔
سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس امت نےگر ہند کے فاتح محمد بن قاسم کو یاد رکھا ہے، اندلس کے فاتح طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کو یاد رکھا ہے، سومنات کے فاتح محمود غزنوی کو یاد رکھا ہے، بیت المقدس کے فاتح صلاح الدین ایوبی کو یاد رکھا ہے، قسطنطنیہ کے فاتح سلطان محمد کو یاد رکھا ہے، تاتاریوں کے خلاف مزاحمت کی داستان جلال الدین خوارزم شاہ کو یاد رکھا ہے، انگریز کے خلاف جدوجہد کا عنوان ٹیپو سلطان کو یاد رکھا ہے، سکھوں کے خلاف تحریک آزادی کے علمبردار سید احمد و شاہ اسماعیل شہید کو یاد رکھا ہے تو یہ الحادی کمیونزم کے نظریے کو زمین بوس کرنےوالے اہم کردار ضیاء الحق کو بھی یاد رکھے گی۔
تبصرہ لکھیے