ایم کیوایم لیاقت آباد کے سیکٹر انچارج شہزاد ملا نے اعتراف کر لیا ہے کہ قوال امجد صابری کو 25 لاکھ روپے بھتا نہ دینے کے ’’جرم‘‘میں قتل کیا۔ یہ خبرکراچی کے مکینوں کے لیے کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ اب تک امجد صابری کے قتل کے الزامات جو مخالف فرقوں پر لگائے جا رہے تھے، وہ یکسر غلط ثابت ہوئے۔ مثلاً: امجدصابری کے قتل کے بعد ایک داستان کی بنیاد پر اہل تشیع سے جوڑا گیا، اسی طرح امجد صابری کا تعلق بریلوی فرقے سے ہونے کی وجہ سے اس کے قتل کا الزام دیوبند مکتبہ فکر پر بھی لگایاگیا اور دونوں طرح کے الزام لگانے والوں نے بزعم خود جن کو قاتل ڈکلیئر کیا تھا، ان کے خلاف کارروائی کے مطالبے کیے، اہل تشیع اور دیوبند مکتبہ فکر کے خلاف بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو اکسایا اور فتوے بازیاں کی گئیں۔
ماضی میں بھی ٹارگٹ کلرز کے اعترافی بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں کہ ہمیں انارکی اور مسلکی و مذہبی نفرت پھیلانے کے لیے پہلے ایک مسلک کے کسی فرد کو قتل کرنے اور اس کے بعد مخالف مسلک کے آدمی مارنے کے آرڈر دیے جاتے تھے۔ اصل قاتلوں کے اعترافی بیان سے بھی اس کی تصدیق ہوگئی کہ نہ کوئی سنی کسی شیعہ کو مارتا ہے اور نہ ہی کوئی شیعہ کسی سنی کو قتل کرتا ہے، نہ بریلوی دیوبندی ایک دوسرے کا خون حلال سمجھتے ہیں، بلکہ ایک تیسری قوت ہے جو اس قسم کا مکروہ کھیل کھیلتی ہے اور الزام مخالف مسلک پر لگاکر، دونوں مسلک کے ماننے والوں کو باہم دست وگریباں کرکے اگلے قتل کی تیاری میں لگ جاتی ہے۔
ہم یہاں تمام مسالک و فرقوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما، خطبا، مفتیان کرام اور عوام سب کی توجہ ایک اہم بات کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ رائے کا اختلاف قرون اولیٰ میں بھی موجود تھا، لیکن اس رائے کے اختلاف کو بحیثیت مجموعی ہر مسلک، فرقے اور مکتبہ فکر نے عملی حدود میں رکھا۔ اپنے مسلک و فرقے کے مطابق عمل ضرور کرتے رہے، لیکن کسی کو صرف اس بنیاد پر کافر یا قابل گردن زنی قرارنہیں دیا کہ اس کا مسلک یا فرقہ دوسرا ہے۔ اگر کسی مسلک و فرقے سے تعلق رکھنے والے کچھ جذباتی اور عاقبت نااندیش لوگوں نے ایسی کوئی جسارت کی بھی توان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ایسی درجنوں مثالیں ہمیں اپنے اکابر و اسلاف کی سیرت و سوانح میں ملتی ہیں۔ انھی کے نام لیواؤں کا آج تکفیر کی دکانیں سجانا افسوس ناک ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی نے ایک عالم دین مولانا محمداحسن امروہوی کے ایک خط میں مذکور سوال کا جواب مکتوب الیہ کی علمی شان کے مطابق تحریر کیا، جو منطق وفلسفہ کی باریکیوں پر مشتمل تھا، یہ کوئی عیب بھی نہیں تھا، کیوں کہ جن کے نام تھا وہ بھی منطق و فلسفہ کے امام سمجھے جاتے تھے۔ اس علمی جواب سے مولانا امروہوی اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے مولاناقاسم کے علم میں لائے بغیر اسے شائع کرا دیا۔ جب یہ تحریر منظرعام پر آئی تو اسے بنیاد بنا کر بدایوں سے تعلق رکھنے والے کچھ ابن الوقت قسم کے علما نے ان کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا اور انھیں ختم نبوت کا منکر تک کہہ دیا۔ جب یہ بات مولانا قاسم کے علم میں آئی تو انھوں نے مولانا امروہوی کو سرزنش کی کہ انھوں نے اسے شائع کیوں کیا۔ ایک سفر میں کسی نے انھیں اہل بدایوں کارسالہ دکھایا تو ایک لمحے کا تامل کیے بغیر اسی نشست میں اس کا جواب لکھ ڈالا، جس میں اپنی عبارتوں کی وضاحت کی، اعتراضات کے جواب دیے، اس جواب کی تمھید میں انھوں نے ایک شعر لکھا ہے، جواس دور میں تکفیر کی دکانیں چلانے والوں کے لیے حرزجاں بنائے جانے کے لائق ہے، آپ بھی ترجمہ ملاحظہ فرمائیے اور حظ اٹھائیے!
کنی تکفیر اہل حق بباطل، چراغ دوغ رانبودفروغے
مسلمانت بگویم درجوابش،دہم شہرت چراغ ترش دوغے
اگر خود مومنے فبھاوگرنہ،دروغے راجزاباشد دروغے
ترجمہ: توا ہل حق کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر کافر کہتا ہے، حالانکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، تیرے جواب میں میں تجھے مسلمان کہتاہوں، کھٹی لسی کے بدلے تجھے میٹھا دودھ پیش کرتا ہوں، اگر تو مؤمن ہے توبہت اچھی بات، ورنہ جھوٹ کے بدلے جھوٹ ہی ہے۔
یہ تھا ان حضرات کا جگر، کہ کافرکہنے والے کو بھی باصرار مسلمان کہ رہے ہیں۔ دوسری طرف اس دور کے وہ علما جن کی طرف یہ اعتراض کرنے والے خود کو منسوب کرتے تھے، ان کے برعکس مولانا قاسم کے ایمان و اسلام کے فتوے ہی نہیں دیے بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر وہ مسلمان نہیں تو پھر کوئی بھی مسلمان نہیں۔ انھی مولانا قاسم سے سرسید احمد خاں کو بھی شدید اختلاف تھا، بلکہ اس دور میں دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دوعلیحدہ کشتیوں کے سوار سمجھے جاتے تھے، اس کے باوجود وہ مولاناقاسم کی تعریف میں رطب اللساں رہا کرتے تھے اور مولانا ان کی تعریف میں، چنانچہ سرسید مرحوم نے مولانا کی وفات پر لکھا: ان کی تمام خصلتیں فرشتوں کی سی تھیں، ہم اپنے دل سے ان کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔ ایسے شخص سے زمانے کا خالی ہو جانا ان لوگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں نہایت رنج و افسوس کاباعث ہے۔
ان مثالوں کو ذکر کرکے ہم تمام مسالک اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے مقتداؤں اور پیشواؤں سے عرض کرناچاہتے ہیں کہ ایسی فضا پیدا کیجیے، ایک دوسرے کو برداشت کیجیے، اختلاف کو مخالفت اور دشنام طرازی کا بہانہ نہ بنائیے، یہ وقت محبتیں بانٹنے کا ہے، اس قوم کو مزید تقسیم ہونے سے بچائیے۔ ورنہ آپ کی شدت پسندی کا فائدہ اسی قسم کے طالع آزما اٹھاتے اور ناحق خون مسلم بہاتے رہیں گے۔ آپ باہم شیر وشکر ہوں گے تو یہ عناصرمذہبی بنیاد پر قتل وغارت کا کارڈ مزید نہ کھیل سکیں گے۔
اس سلسلے میں ہماری سول و فوجی قیادت کو بھی اپنی ذمے داریوں کی ادائی میں مزید تن دہی کا ثبوت دینا ہوگا۔ مذہبی شدت پسندی کا اصل منبع تلاش کرنا ہوگا۔ نفرتوں کا پرچار مدارس و مساجد سے نہیں کہیں اور سے ہوتا ہے۔ اس کا کھوج لگائیے اور اس کے اسباب کا قلع قمع کیجیے، اس دھانے کو ہمیشہ کے لیے بند کیجیے۔ محرم الحرام میں مذہبی قتل و غارت کا مکروہ کھیل شروع ہونے کی حوصلہ شکنی کے لیے ماضی کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ نقصان ہوجانے کے بعد منصوبہ بندی اور پلاننگ سے بہتر ہے کہ مستقبل کی پیش بندی ابھی سے کرلی جائے۔ اللہ پاک وطن میں بسنے والے تمام مسلمانوں اور اقلیتوں کو باہم شیر و شکر فرما کر نفرتوں کے اندرونی و بیرونی سوداگروں کو ان کے مذموم و مکروہ مقاصد و عزائم میں ناکام و نامراد فرمائے۔آمین!
(مولانا محمد جہان یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ،کراچی میں شعبہ تخصص فی التفسیر کے انچارج ہیں)
تبصرہ لکھیے