میرے کشمیر! ہم شرمندہ ہیں کہ ہم تیرے خلوص کا قرض نہیں چکا سکتے، ہمارے ارباب اختیار تو تجھ سے دامن چھڑانے کا ہر اوچھا ہتھکنڈہ آزما چکے، مگر سلام ہے تیری استقامت کو، کہ نہ ہم نے بےوفائی کی روش بدلی اور نہ تو نے رسم وفا چھوڑی۔
میرے کشمیر! تیری وادیاں مثل جنت ہیں اور ہم نے کبھی جنت کمانے کا سوچا ہی نہیں۔ تم نے ہم سے امید لگا لی تھی اور ہم ٹھہرے تاجر، ہوس زر ہمارے قلوب و اذہان پر سوار ہے۔
سن اے میرے کشمیر سن! یہاں سب ارباب اختیار تاجر ہیں، بہنوں کے تاجر، بھائیوں کے تاجر، خام مال کے تاجر، اور تو اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیرے بھی کوڑیوں کے مول فروخت کردیتے ہیں۔
میرے کشمیر تو نہ سمجھ سکا، یہ تیری نہیں ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم جنت کے خواہشمند نہیں۔ جن دو دھڑوں کے درمیان تم پھنس گئے ہو، انھوں نے تجھے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ تجھے شہ رگ اور اٹوٹ انگ قرار دینے کا نعرہ صرف بجٹ بڑھانے کا حیلہ ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں یہ کم ظرف۔
ہاں یاد ہے جب تیری آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بےیار و مددگار چھوڑ کر سمجھا گیا کہ اب ختم ہوجائیں گےمگر ماں کے مجروں کا قصہ گو آٹھ سال تک یہ نہ سمجھ سکا کہ جہاد تو بس اللہ کے لیے ہے اور تاقیامت ہے۔ پھر ساتھ کٹھ پتلیوں کو ملا کر تجھے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔ عادت جو ہوگئی تھی لڑے بغیر ٹکڑے کرانے کی، مگر اللہ سایہ سلامت رکھے بزرگ شیر گیلانی کا، جو اللہ کی مدد سے اس چال کو بھانپ گیا اور رب کی عطا کردہ فراست سے یہ چال واپس انھی پر پلٹ دی۔
میرے کشمیر تو ہم سے امید لگائے بیٹھا تھا، ہم کہ جنھوں نے تیری وادیوں کو تصویروں کی صورت بیچا، تیرے حسین مناظر کو سپنوں کا رنگ دے کر ان خوابوں کی تجارت کی، تیرے سینے پر تیری بیٹیوں کی لٹتی عصمتیں، بزرگوں کے ناتواں و لاغر تشدد زدہ جسم اور تیرے نوجوانوں کے لاشے، ہم نے انھیں عالمی منڈی میں رکھ کر بھائو خوب بڑھایا۔ جب ضرورت پڑی جہاد کشمیر کا نعرہ لگایا اور جب دل چاہا جہاد روک دیا اور سیاست کا نعرہ لگا دیا۔ کشمیر کمیٹی کے مال سے پیٹ کو دوزخ بناتے یہ حالت ہوگئی کہ شدید بارش میں نہ پائوں کی انگلیاں گیلی ہوتی ہیں اور نہ ایڑیاں۔
ہم نے تیری سسکیاں بیچیں، تیری آہیں بیچیں، تیری فریادیں بیچیں، اور پھر تو جاگ اٹھا. میرے کشمیر! تو جاگ اٹھا، تجھے جاگنا تھا۔ تیری ایک نسل ہماری بےوفائی کی بھینٹ چڑھ گئی، مگر اب تیری اگلی نسل تیار ہے۔ بنیے کے سروں کی پکی فصل کاٹنے کے لیے تیار ہے، اپنے بزرگ کمانڈر سید علی گیلانی کے زیر سایہ تیار ہے۔
60 دنوں کی کامیاب ہڑتال کے ساتھ ایک ایک گھر کی خبر گیری کرکے تیرے بیٹوں نے نئے سرے سے منظم ہونے کا ثبوت دے دیا، دنیا کو حیران کردیا۔ ان ساٹھ دنوں میں جدوجہد عروج پر رہی، بنیا سٹپٹا گیا اور اناپ شناپ بکنے لگا۔ سخت کرفیو، مواصلاتی نظام منقطع، بیرونی رابطے ختم، مگر تحریک جاری، پورے زوروشور سے جاری، بغیر کسی ”حمایت و سپورٹ“ کے جاری۔ تنظیم کی شکل تو تمہارے بیٹوں نے دوسری ”تنظیموں“ کو سمجھائی۔ اسی ہنگامی صورتحال میں اشیائے خوردونوش مہنگی ہونے کے بجائے سستی ہوگئیں، ضروریات زندگی گھر گھر پہنچانے کا انتظام انتہائی منظم طریقے سے کیا گیا، مواصلاتی نظام نہ ہونے کے باوجود آپسی رابطے انتہائی مضبوط کرلیے گئے۔ کسی گھر میں چولہا بجھنے دیا نہ امیدکی لو ۔ تم نے پسپائی کے خوف کو پسپا کردیا۔
میرے کشمیر بس تیرے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا گو ہیں، تیری تحریک کے لیے تیری آزادی کے لیے دعا گو ہیں، تیری تحریک بغیر ”سہارے“ کے منزل کی جانب گامزن ہے۔ بس اب جو تیری ان کامیابیوں کو پھر سے اپنے کندھوں پر سجا کر فروخت کرنے کے خواہشمند ہیں، ان سے بچنا ہے۔ ان شاء اللہ اب تیرے ہزاروں برہان وانی تیار اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں، تجھے کرائے کے پیشہ وروں کی ضرورت نہیں۔
اللہ تیرا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تبصرہ لکھیے