ہوم << یادیں ہماریاں - حافظ یوسف سراج

یادیں ہماریاں - حافظ یوسف سراج

یوسف سراج اپنی طرز کے جداگانہ ہٹیلے رہنما شورش مرحوم کی ایک کٹیلی کتاب کا نام ہے، ’’اس بازار میں‘‘. شورش کو اِس کتاب کے لیے شاہی مسجد کے سائے تلے خوابیدہ ’اُس بازار میں‘ جانا پڑا اور صد شکر کہ جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ بھی آئے. ایمان و عمل کے اس پل صراط سے صحیح سالم گزر آنے کی وجہ بھی شورش صاحب نے خودہی لکھ دی۔ فرمایا، میری محرومی ہی یہاں میرے کام آئی۔ اگر کسی کی اچھلتی دولت اسے یہاں ڈبوتی ہے تو میری سسکتی عسرت ہی مجھے یہاں سے بچا لائی۔ فی الاصل خامی ہی کبھی خوبی اور خوبی بھی کبھی خامی بن جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی اس خاکسار پر بھی بیتی۔ نصابی کتاب کے بجائے غیرنصابی مطالعہ کی عادت گویا اس عاجز میں مینوفیکچرنگ فالٹ یا built in خامی تھی۔ سکول میں یہ ہوا کہ اردو پڑھنے کی لت نے جلد ہی سب درجوں کی اردوکی نصابی کتب پڑھوا ڈالیں۔ اس کا نقصان مگر یہ ہوا کہ اب نصاب پڑھنا مشکل ہو گیا۔ عذر خواہ ہوں کہ مشکل کے لفظ سے یہاں مجھے کچھ اور یاد آگیا اور کچھ اور سے قاسمی صاحب۔ کسی نے پوچھا، اگر میاں جوان ہو اور بیگم ریٹائرڈ تو اس مشکل کا حل؟ فرمایا:’’بیرونی امداد!‘‘ تو اس خامی کے خمیر سے اٹھی مشکل کا ہومیوپیتھک حل میں نے بھی خارجی مطالعہ نامی’’بیرونی امداد‘‘ میں ڈھونڈ لیا۔
گو ابتدا میں ڈرتے ڈرتے مگر جب دیکھا کہ علاج ہومیوپیتھک ہی سہی مگر نہ صرف اس طریقہ علاج سے استاد جی کے ڈنڈے سے لاحق ہوتے مرض سے بچ نکلتا ہوں بلکہ اساتذہ میں قابلِ تذکرہ و تحسین بھی ٹھہرتا ہوں تو تمام دیگر علاج منسوخ کرکے اسی ایک ہومیو پیتھی پر صاد کر لیا۔ مہربان اساتذہ میرا جوابی پرچہ کلاس کے انچارج صاحب سے لے کے پڑھتے اور کہتے یہ بچہ وہ نہیں لکھتا جو گائیڈ میں لکھا ہے۔ یوں جب میری نصابی کتاب نہ پڑھنے کی یہ خامی خوبی سمجھی جانے لگی تو شہ پا کر میں اور شیر ہو گیا۔ آج میرا احساس یہ ہے کہ سکول سے یونیورسٹی تک جو پڑھا گو اس کی ڈگری بھی پڑی ہے مگر جو اس سے بچ کے پڑھا، اسی نے آج تک ڈگری الماری سے نکالنے نہیں دی۔ سکول مڈل تھا اوراس کے بعد کی اردو کی کتابیں گاؤں میں دستیاب نہ تھیں، چنانچہ جلد ہی عمرو عیار اور ٹارزن سے ہوتی ہوئی بات جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ تک جا پہنچی۔ ایک دن بیگ میں ڈال کے ڈائجسٹ سکول بھی لے گیا۔ خالی پیریڈ کے دوران ڈائجسٹ پڑھنے کی خبر کسی نے ہیڈ ماسڑ صاحب کو کردی۔ پہلا ہی موقع تھا سو اناڑی پن نے ہیڈ ماسٹر صاحب کے حضور مجرمانہ پیشی ڈلوا دی۔ دفتر کو محشر بنائے بیٹھے آنجناب جاننا چاہتے تھے کہ میں اس میں سے کیا پڑھتا تھا۔ بہت کوشش کی مگر گھبراہٹ میں وہ صفحہ نہ ملا۔ خیر یہ مشکل رخسار پر پڑتے ہیڈ ماسٹر صاحب کے فولادی تھپڑ نے آسان کر دی۔ اس دن یہ سیکھا کہ کچھ چیزیں چھپا کر پڑھنے کی بھی ہوتی ہیں۔ الحمدللہ پھر اس سلسلے میں کبھی مار نہیں کھائی۔
پہلا رسالہ پیغام ڈائجسٹ سکول کے ہم تین ساتھیوں نے پیسے ڈال کے لگوایا اور پہلی کتاب شورش کی فنِ خطابت اور الجہاد و الجہاد خریدی۔ الجہاد والجہاد 65ء میں لکھے گئے موصوف کے ملی نغموں کے جنوں خیز اور آتش فشاں جذبات کی شعری داستان تھی۔ یہ خریدنے کی بات ہے ورنہ گاؤں کی مسجد کے پہلومیں واقع ایک کتاب دوست شخصیت عبدالوحید صاحب کے دارالمطالعہ سے شورش ہی نہیں، بہتیرے دوسرے مصنفوں کی کتابیں بھی چاٹ ڈالیں۔ اتفاق سے یہاں مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ ادبی کتابیں بھی حسبِ ذائقہ و ضرورت وافر مل گئیں۔
پہلا اخبار ’دن‘ تھا اور پورا دن بھی بھلا کب تھا۔ اس عاجز کے لیے توبس ایڈیٹوریل کے ایک صفحے کا نام ہی اخبار ہوتا تھا۔ تو ہوا یہ کہ دن نکلتے ہی اس عاجز کا شعور حافظ شفیق الرحمٰن صاحب کے زورِ قلم نے اغوا کر لیا۔ لفظوں کی وہ ژالہ باری ہوتی کہ بن سمجھے بھی محض ردھم ہی لطف دیتا بلکہ جہاں سمجھ کم آتی وہاں لطف کچھ اور بڑھ جاتا۔ خود تو ہمت کم تھی مگر ایک ساتھی ڈھونڈ نکالا تھا جو چائے والے کی نظر بچا کر میرے لیے دن کا ایڈیٹوریل پیج اڑا لاتاتھا۔ پڑھنے کے بعد بھی کالم سے میں بےوفائی نہ کرسکتا سو کاٹ کے تراشہ سنبھال لیتا۔ سلطنتِ کالم نگاری کے بھٹو، حسن نثار کی’بچپن بھومی‘ میاں چنوں کے چوک میں ایک دن اخبار فروش سے’دن‘ طلب کیا تو وہ کہنے لگا، دوپہر ہو چلی اور ابھی تک آپ کو دن کی تلاش ہے؟ دراصل ’دن‘ اس کے پاس نہیں تھا۔ دن نہیں تھا تو گویا آئینہ خانہ کالم نہیں تھا اور یہ نہیں تھا تو میرے لیے اب کوئی اخبار اخبار ہی نہیں تھا۔
اخبار اور کالم کی یہ چاٹ پھر ایسی لگی کہ کئی صاحب ِ اسلوب کالم نگار رزق و ذوق کا حصہ اور زندگی کا دل پسند قصہ ہو گئے۔ جاوید چودھری، حسن نثار، عبد القادر حسن، سرِراہے، عطاالحق قاسمی پھر عرفان صدیقی، بعد ازاں عبداللہ طارق سہیل، عامر ہاشم خاکوانی، سعداللہ جان برق اور خورشید ندیم سب میرے قضا نہ ہونے والے ناشتے کا نام ہوگئے۔ مقامی دارالمطالعہ سے بعد میں ہارون الرشید صاحب کے کالموں کا انتخاب ’روشنی اے روشنی!‘ پڑھی تو بس یوں سمجھیے کہ لٹ کے رہ گیا۔ پھرایک زمانہ مجنوں ہوکے اس لیلائے ’ناتمام‘ کو ڈھونڈا کیا۔ روزانہ ایک کالم سے بھلا کیا بنتا، ا نٹرنیٹ پر اخبار کے آرکائیو سے جو میسر آسکا، وہ سب بھی مالِ مفت کی طرح اڑا لیا۔ ذوقِ طلب کا کوئی دریا بپھرجائے تو پھر محض کالم کا کنارہ اسے سہارا کیونکر دے سکتا ہے؟ چنانچہ اردو لٹریچر کا جتنا اور جو حصہ بھی ہاتھ لگا، مقصدِ زندگی، محبوب کا خط یا ثواب ِدارین سمجھ کے پڑھ ڈالا۔ اتنا اور یوں کہ اب تو تمیز ہی مشکل ہے کہ زندگی میں جھوٹ زیادہ بولا یا کتابیں زیادہ پڑھیں؟ (معلوم نہیں کسی چیز کے وفور کو جھوٹ کے مقابل رکھ کر ہی کیوں تولا جاتاہے)۔
یہ اتفاق تھا یا کیا تھا کہ حافظ شفیق الرحمٰن کے کالم سے لے کر شورش کی کتاب تک اور احسان دانش کی’جہانِ دانش‘ سے ابوالکلام کی’غبارِ خاطر‘ اور ’تذکرہ‘ تک میرے مطالعہ کو بغیر مکھن نکالے والی گاڑھی لسی کا سا مواد ہی میسر آیا۔ پھر یوں ہوا کہ ادنیٰ نثر پڑھنے کی کوشش کبھی کامیاب نہ ہو سکی۔ فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں ایڈمٹ ایک دوست کے ہم کچھ کلاس فیلواٹینڈنٹ تھے۔ ادویات سے رچی بسی اس فضا میں بھی میں ابوالکلام کو ساتھ گھسیٹ لایاتھا۔ پرنسپل یاسین ظفر صاحب عیادت کو آئے تو میرے ہاتھ میں ’تذکرہ ‘دیکھ کر فرمایا، یہ کتاب سمجھ بھی آتی ہے؟ تب مجھے یہ سوال سمجھ میں نہیں آسکا تھا۔ دراصل جو کتابیں میں نے عیاشی سمجھ کے پڑھ لی تھیں، یہ تو بعد میں پتا چلا کہ ایم اے والوں کو زبردستی یہی کتب بطور سز اپڑھائی جاتی ہیں۔ عادت ہوچکی بےدھیانی سے دیے بی اے کے امتحان کا رزلٹ آیا تو بےحد افسوس ہوا، دراصل یونیورسٹی میں تیسری سے گلے ملتی چوتھی پوزیشن آگئی تھی۔ افسوس یہ ہوا کہ اگر پوزیشن سے یوں بال بال بچنے کا خدشہ کچھ پہلے ہی محسوس کرلیا ہوتا تو ذرا سا دھیان ہی دے لیا ہوتا۔ ایم اے او کالج لاہور میں ایم اے انگلش کے سال ِ اول کے داخلے جا چکے تو میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اگر اس کلاس سے کچھ طالب علم پاس ہو بھی جاتے ہیں تو اس سلسلے میں اساتذہ کوموردِ الزام ٹھہرانا ہرگز قرینِ انصاف نہ ہوگا، چنانچہ بہاولپور یونیورسٹی میں ایم اے اردو کا پرائیویٹ داخلہ بھیج دیا، یوں سارا سال بیکن اور ہارڈی وغیرہ پڑھنے کے بعد میر و غالب کو مشکل میں ڈال کے میں ایم اے اردو میں کامیاب ہو گیا۔
پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان سے لے کر دہلی تک اپنی شاعری کی خوشبو پھیلا دینے والے میرے ہم جماعت و شاعرِ شمال زاہد سعید صاحب انگلش کا نتیجہ آنے کے بعد ناصر کاظمی صاحب کے شاعر بیٹے جواز جعفری کے حضور زانوئے تلمذ یا تلذذ طے کرتے رہے۔ جہیز میں ساتھ آئے بچوں کی طرح، لکھنے کی علت بھی پڑھنے کے ساتھ ہی چلی آئی تھی۔ پرائمری میں گھر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کلاس کے تمام کام چور ہم جماعتوں کی (جماعتیوں کی نہیں!) تختیاں لکھیں۔اس سے خط بھی اچھا ہو گیا۔ اتنا کہ بعد کے میرے ایک دینی تعلیمی ادارے نے اس اچھے خط سے ایوبیہ کی پرفضا وادی میں وال چاکنگ کا فائدہ بھی اٹھایا۔ ایک عرصے تک وہاں کہسار کے سینے پر کسی نیازی کی طرح سرو قد یا سرحد ِوطن پر کسی مجاہد کی طرح چوکس کھڑے شاداب درخت، جھک جھک کر اس اجنبی کا نوشتۂ دیوار پڑھنے کے لیے حفظ کے بچے کی طرح جھولتے رہے تا آنکہ وہ مدھم ہوکے مٹ گیا اور تب تک اخبار اس عاجز کو اس کے دل پسند صفحے پر جگہ دے چکا تھا۔ پرائمری ہی میں اس طالب علم سے لوگوں نے ایسے مضامین کے بھی خط لکھوائے کہ جو اس نے آج تک اپنے حق میں بھی کسی کے لیے نہیں لکھے۔ میٹرک کے بعد ڈائری لکھی اور بساط بھر ادبی اور فکاہی انداز میں روزانہ کی روداد سپرد قلم کی، یوں کہ ہوسٹل فیلو الماری سے ڈائری اڑا کے پڑھ لیتے اور یوں میرا راز اخبار کے صفحۂ اول پر آیا اشتہار ہو جاتا۔ میڑک میں ایک مقابلہ مضمون نویسی میں مضمون بھیجا۔ مضمون تین زاویوں پر تھا۔ میں نے ایک ہی پہلو پر زورِ فکر سے زیادہ زور قلم صرف کر دیا تھا۔ انعام تو نہ ملا مگر ممتحن نے لکھا ’’مضمون خوب ہے بشرطیکہ طالب علم نے خود لکھا ہو۔‘‘یعنی ممتحن صاحب کو اندیشہ تھا کہ میں نے بصد احتیاط یہ مضمون کہیں سے اڑا لیا ہے۔ شک کی اس زد سے میں ابھی پرلے پچھلے دن تک نہیں نکل سکا تھا۔ نئی بات میں چھپنے کی راہ ملی تو ایک کالم پر ذوالقرنین صاحب نے حافظ شفیق الرحمٰن صاحب سے یہ کہا:’’ ناممکن! یہ کسی اور کی تحریر ہو ہی نہیں سکتی، یہ تو ابوالکلام آزاد کی تحریر ہے۔‘‘ حافظ صاحب نے فرمایا، جہاں تک میں جانتاہوں، سرقہ تو وہ نہیں کر سکتا۔ (گویا موصوف اس فقیر کو واقعی ہی نہیں جانتے!)۔

Comments

Click here to post a comment