جدید دنیا کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج مالی کرپشن ہے. پسماندہ اور غریب ممالک اس لعنت کے زیادہ شکار ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں، جہاں وسائل کی کمی ہوتی ہے اور اخراجات کی زیادتی، وہاں ایک ایک پینی کو دانتوں سے پکڑ کر خرچ کیا جائے لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے. ایک گروہ اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر تمام وسائل پر قبضہ کر لیتا ہے اور عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونے کے بجائے طاقتور لوگوں کی جیب میں منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے، طبقات کے درمیان تفاوت بڑھتا چلا جاتا ہے. غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے اور امیر امیر تر. درمیانے طبقے کی تمام جدوجہد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح اپنے سے اوپر والے طبقے میں شامل ہوا جائے. لہذا ان کا استحصال کرنا سب سے آسان ہوتا ہے. ہر شخص بکاؤ مال بن جاتا ہے جسے خریدا اور بیچا جا سکتا ہے. مذہب، سیاست اور کاروبار تعلیم غرضیکہ سماج کا سارے کا سارا ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے. لوٹ مار کرنے والے گروہ کا ایک مسئلہ لوٹی ہوئی دولت کو چھپانا بھی ہوتا ہے جس کے لیے کسی دور میں سوئٹزرلینڈ کی گلیوں میں قائم بنک آئیڈیل سمجھے جاتے تھے. لیکن اب مختلف ممالک میں فرضی کمپنیاں بنا کر اس دولت کو باہر منتقل کیا جاتا ہے اور پھر واپس لا کر اس دولت کو مصرف میں لایا جاتا ہے. دوسری طرف ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس سارے عمل کو چھپانا مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا ہے. اب اگر ایک روپیہ بھی لاہور سے لندن منتقل ہوتا ہے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا کوئی بھی شخص صرف چند بٹن دبا کر نہ صرف اس ساری ٹرانزیکشن کی تفصیلات معلوم کر سکتا ہے بلکہ اسے افشا کرنے کی بھی پوری صلاحیت رکھتا ہے.
اس کا حالیہ مظاہرہ ہمیں پانامہ لیکس کی شکل میں نظر آتا ہے. چند سال پہلے ایک شخص اخبار سے رابطہ کرتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ وہ پانامہ کی کچھ فرموں کی ان تمام خدمات، جو اس نے مختلف ممالک کے امراء اور صاحب اختیار لوگوں کی دولت کو کھپانے کے لیے فراہم کیں، کے ثبوت فراہم کر سکتا ہے. اخبار کی انتظامیہ کئی سال تک ان تمام دستاویزات کو کھنگالتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ یہ دستاویزات شائع کی جا سکتیں کیونکہ ان کی صداقت شک وشبہے سے بالاترہے. ان معلومات کا سامنے آنا تھا کہ ہاہا کار مچ گئی. کون تھا جو اس حمام میں ننگا نہیں تھا، سیاستدان تو خیر سب سے پہلے ان کاموں کے لیے مشہور ہیں کہ ان کا تو دھندا ہی یہی ہے. لیکن ججز، جرنیل، بزنس ٹائیکون غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے بے شمار لوگ ان میں شامل تھے. جنہوں نے اپنے ملک سے کمائی گئی ناجائز کمائی دولت کو چھپانے کے لیے آف شور کمپنیاں بنائیں. اور اس طرح سرمایہ بیرون ملک ڈمپ کیا. اس سرمایہ کا کوئی ریکارڈ ان کے بہی کھاتوں میں نظر نہیں آتا. دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر آ گئی لاکھوں لوگ نے مظاہرے کیے، کئی ممالک کے اعلی عہدیداران کو مستعفی ہونا پڑا اور کئی مقدمات اور تفشیش کا سامنا کر رہے ہیں.
ہماری بدقسمتی کہ دنیا میں ہونے والے اچھے کاموں میں بھلے ہمارا کوئی حصہ نہ ہو لیکن ہر گندے دھندے میں شامل ہونا ہمارا فرض عین ہے. پاکستان کے درجنوں افراد کے نام بھی ان بدنام زمانہ فہرستوں کی زینت بنے لیکن سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ تھا کہ ہمارے محترم وزیراعظم بنفس نفیس اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سمیت اس کالے دھندے میں ملوث پائے گئے. اگرچہ میڈیا نے بہت شور مچایا، اپوزیشن نے بھی مقدور بھر کوشش کر لی کہ وزیر اعظم صاحب مستعفی ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر ملک گیر احتجاج کی کوئی لہر نہیں اٹھی. عوام اطمینان سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے. یہ بات دانشور حضرات کے سوچنے کی ہے کہ جن ایشوز پر دوسرے ملکوں میں انقلابات آجاتے ہیں، ان معاملات پر ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی. اگر سیاسی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں تو ان کا مقصد کرپشن کے خلاف جدوجہد نہیں بلکہ اس تحریک کی آڑ میں اپنا اپنا لچ تلنا ہے. کوئی اس کی آڑ میں اپنی کرپشن چھپانے کے لیے بارگیننگ کرنا چاہتا ہے تو کوئی اسے حکومت گرانے کا سنہری موقع گردان رہا ہے کچھ جماعتیں صرف اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کے لیے اس مہم کا حصہ بنی ہوئی ہیں. اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہر کوئی صرف وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا احتساب کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو بچانا چاہتا ہے.
رہے عوام تو کوئی مانے یانہ مانے لیکن عوام نے کرپشن کو ایک ناگزیر برائی سمجھ کر قبول کر لیا ہے. ہم لوگ کرپشن کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر چکے ہیں. یہ نظام ہمارے معاشرتی ڈھانچے کے ساتھ اس طرح گھل مل گیا ہے کہ اس کے بغیر ہمارا وہ حال ہوتا ہے جو بن پانی کے مچھلی کا. ہمیں کسی بھی دفتر میں کام ہو تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی واقفیت نکل آئے یعنی ہمیں اپنی باری کاانتظار نہ کرناپڑے اور گھنٹوں انتظار کرنے والوں سے پہلے ہمارا کام ہو جائے. عوام کی اکثریت اس کرپشن کے ساتھ اپنے آپ کو کمفرٹیبل محسوس کرتی ہے. آپ عوامی جگہوں پر عام آدمی کی گفتگو سن لیں، کہیں پر بھی کرپشن کے خلاف کھڑے ہونے کی بات نہیں ہو گی، ہاں ہمیں یہ نظام اس وقت بہت برا لگتا ہے جب کوئی ہم سے زیادہ طاقتور ہمارا حق چھین لیتا ہے. لیکن جب ہم کسی کا حق چھین رہے ہوتے ہیں، اس وقت ہمیں نہ سسٹم سے گلہ ہوتا ہے اور سسٹم چلانے والے سے. ہم تو ووٹ بھی اسی کو دیتے ہیں جو تھانے سے ہمارے بندے چھڑوا سکے، سکول میں ہمارے بچے کو داخلہ دلوا سکے اور ہمارے کسی عزیز کو منافع بخش جگہ پر سرکاری ملازم رکھوا سکے. آپ ہمارے ہی چنے ہوئے جمہوری نمائندگان کی فہرست نکلوا کر دیکھ لیں ہم چنتے ہی اس کو ہیں جو علاقے کا سب سے طاقتور آدمی ہو. بھلے یہ طاقت اس نے بیواؤوں اور یتیموں کی جائیدادوں پر قبضہ کر کے حاصل کی ہو، یا اس کی دولت ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کا ثمر ہو. عوام الناس کو اس سے کوئی غرض نہیں. اگر غرض ہے تو اپنے دھڑے سے اور اپنے لیے فائدہ مند امیدوار سے. وہ لوگ جن کا کام ملک کے لیے قانون سازی کرنا ہے اور ایسے قوانین کی تشکیل ہے جو ملک سے بدامنی، لاقانونیت، کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ ہے، اگر ان کے چناؤ کے وقت ہماری ترجیح ہمارے ذاتی اور گروہی مفادات ہیں تو ایک مٹھی بھر گروہ کے شور مچانے سے کیا فرق پڑتا ہے. ہم نہ تو اپنے ذاتی مسائل کے حوالے سے محتاط ہی اور نہ ہی اجتماعی مسائل میں ہماری سوچ میعاری ہے. جن قوموں کو ہم نے ہر وقت اپنی تلواروں کی زد میں رکھا ہو ہے ان کے میعارات کا جائزہ لے لیں اور پھر اپنی ترجیہات پر توجہ فرمائیں.
پانامہ لیکس پر ان ممالک کے عوام کا ردعمل کیا تھا اور ہمارا کیا ہے؟ کتنے ممالک کے اعلی ترین عہدیداروں نے اپنے عہدے چھوڑ دیے اور خود کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا. ان عوام کے شدید ردعمل نے حکمرانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی بدعنوانیوں کا جواب دیں جبکہ ہمارے لاڈلے حکمران فرماتے ہیں کہ ہم ناگزیر ہیں، ہمارے بغیر یہ ملک تباہ ہو جائے گا لہذا پہلے دنیا کے طویل ترین عدالتی پروسیس کے ذریعے ہمیں بدعنوان ثابت کرو کہ ہم گناہگار ہیں، تب تک کئی نسلیں ختم ہو چکی ہوں گی خواہ اس میں صدی بدل جائے لیکن تب تک ہم آپ کے سرووں پر مسلط رہیں گے. رہے عوام تو ان کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں، ہر شخص اپنے روزمرہ کے معمولات میں مشغول ہے، نہ کوئی ردعمل نہ احتجاج. جو مٹھی بھر افراد کچھ شور مچا بھی رہے ہیں تو ان کا سارا زور وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے احتساب پر ہے. اپنی صفوں میں موجود بدعنوان افراد ان کی نظر میں حضرت عیسی کی بھیڑوں سے زیادہ پوتر ہیں. کچھ لوگ بدلہ اتارنے کے چکر میں ہیں کہ ہمیں جو آپ نے یزید و شمر سے زیادہ بدنام کر رکھا تھا اب آئے ہو ہمارے جبڑوں کے نیچے، نہ تو کسی کا مقصد کرپشن کو ختم کرنا ہے اور نہ شفاف نظام کو قائم کرنا. ہر شخص وقتی مفادات کے حصول کی خاطر قوم کو پستی کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہے. مہینوں گزر گئے ہمارے قابل ترین زعماء احتساب کی شرائط طے کرنے میں مصروف ہیں. عدلیہ جس کا نظام انصاف کبھی شراب کی ایک بوتل برآمد ہونے پر حرکت میں آ جاتا تھا آج اتنے بڑے گھپلے اور بدعنوانی کے ثبوتوں کے باوجود خاموش ہے. اور بال مکمل طور پر سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینک کر تماشا دیکھ رہی ہے کہ لو اب پنگ پانگ کھیلو. الزام در الزام، جھوٹ در جھوٹ، نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر، روزانہ شام کو چند کاسہ لیس اپنی ہوس کی پٹاریاں کھول کر ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر کف اڑاتے ہیں، اپنے اپنے ممدوح کی شان میں قصیدے پڑھ کر گھر چلے جاتے ہیں. نہ کسی میں شرم ہے اور نہ حیاء. ان میں اور جسم بیچنے والی طوائف میں کیا فرق ہے، وہ جسم بیچتی ہے اور یہ ضمیر. رہے عوام تو وہ ان کی مثال بندر کا تماشہ دیکھنے والے تماشائی سے زیادہ نہیں.
تبصرہ لکھیے