کالم بھیجا تھا۔ سارا دن بیت گیا کوئی خبر نہیں آئی۔ یوں تو نہیں ہوتا تھا۔ ہاں گاہے تاخیر ہو جاتی تھی۔ دراصل سب کے اپنے وسائل اور مسائل ہوتے ہیں۔ انگلش محاورے کے مطابق جوتا پہننے والا ہی جان سکتا ہے کہ جوتا کہاں کہاں سے کاٹ رہا ہے۔ سو دلیل ہو یا کوئی بھی ویب سائٹ یا اخبار، سب کے اپنے اپنے مسائل اور وسائل ہوتے ہیں۔ سو دلیل جس طرح چل رہی ہے، یہ ایک جہاد ہے اور ہر جگہ کی طرح یہاں بھی کچھ مسائل ہو سکتے ہیں۔ بہرحال جس جذبِ دروں سے خاکوانی صاحب اپنے ساتھیوں کے سنگ دلیل کو توانا کرنے کے خواب بنتے ہیں، عین واضح ہے کہ بہت جلد مزید آسانیاں اور فراوانیاں مہیا ہو جائیں گی۔ تو بہرحال ایسے ہی دلیل کو کھول لیا کہ شاید وہاں کالم نہ لگنے کی وجہ بھی لکھی ہوگی۔ نظر پڑی تو بڑا عجیب سا عنوان تھا خاکوانی صاحب کے بلاگ کا ’’ ٹوٹی ہوئی قبریں اور یادوں کے دیے۔‘‘ ایسے اسرار میں ڈوبے رومانوی سے نام سے بھلا آدمی کیسے گزر جائے۔ یہ بلاگ بھی جناب نے اختر عباس صاحب کے قلب پر گزری حیرت اثر اور عبرت انگیز واردات سے انسپائر ہو کے لکھا تھا۔ دوپہر کے حقیقت کی طرح واشگاف اور عیاں لمحوں میں مسلم سجاد صاحب کی قبر ڈھونڈتے جن کا رہوار ِفکر کسی اور طرف مڑ گیا تھا۔ وہی دراصل صوفیا اور واعظین کا بنیادی نکتہ دنیا کی بے ثباتی۔
ٹوٹی قبروں پر لگے ایسے نامیوں کے کتبے کہ جن کے نام ہی کبھی مجلسوں کی کامیابی کی دلیل اور امنڈتے ہجوم کا نشاں ہوتے تھے، اب قبرستان میں اگی گھاس نے ان ناموروں کی قبروں کی کم مائیگی اور تنہائی اپنے دامن میں چھپا رکھی تھی۔ اختر عباس صاحب گئی رات تک اس انقلابِ زمانہ کے اثر میں بھیگی چیخوں میں گم سم رہے۔ یہاں سے اک نوحہ تخلیق ہوا، جسے خاکوانی صاحب نے مزید راہ دکھائی۔ جنازے اور حیات مابعدالممات دراصل ہمیشہ ہی انسانوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ جنازے بھی باقاعدہ اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ مثلاً ابن حنبل رحمہ اللہ تین عباسی خلفا سے جرم بےگناہی کی سزا ہنس کے سہتے رہے۔ ہم کسی ایک سلطان کا عتاب نہیں سہہ سکتے، انھوں نے تین سہار لیے۔ آج کی مصلحت گزیدہ دانش کو دیکھا جائے تو بات بھی کچھ بڑی نہ تھی۔ خلیفہ یونانی فلسفے سے متاثر ہوگیا تھا، جو تازہ تازہ عربی میں ترجمہ ہوکے آیا تھا۔ اب اس کی زد اس مسئلے پر پڑ گئی تھی کہ آیا قرآن بھی اللہ کی مخلوق ہے یا نہیں۔ چونکہ خلیفہ کو یہ موقف خوش آیا تھا، چنانچہ علماء اس کے جواز پر دلائل مہیا کرنے لگے تھے۔ کوئی ایک بھی نہ بچا تھا جو ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ سکتا کہ نہیں مخلوق نہیں، قرآن رب کا کلام اور اس کی صفت ہے۔ مخلوق ماننے کا مطلب یہ تھا کہ ہر مخلوق کی طرح پھر اسے بھی فنا کے گھاٹ اترنا ہوگا۔ تو کوئی نہیں تھا مگر ایک ابن حنبل۔ علما ء نے انھیں سمجھایا، مصلحت وقت، عتاب سلطان اور دین میں خوف کے مقابل رخصت کے دلائل ذکر کیے۔ ابن ِ حنبل نے صرف دو باتیں کیں۔ ایک علما کے لیے اور ایک اس مسئلے کے لہے۔ کہا، اس موقف پر سلطان کی نہیں، انبیا کے سلطان کے دو لفظ دلیل میں لے آؤ یا اسی قرآن میں بات کرنے والے سے کوئی دلیل لے آؤ۔ اور علما سے یہ کہا کہ ذرا اس حجرے کے باہر دیکھ کے بتاؤ، وہاں کیا ہے؟ انھوں نے کہا اک ہجوم ہے جو ہاتھ میں کاغذ اور قلم لیے کھڑا ہے تاکہ ابنِ حنبل کا موقف لے سکے۔ فرمایا، اتنے لوگ جب دین کے کسی معاملے میں میری طرف دیکھ رہے ہوں توپھر یہ رخصت نہیں عزیمت کا وقت ہونا چاہیے۔ اللہ اکبر!
تاریخ میں ایسے بھی لمحے آتے ہیں کہ صرف ایک ہی شخص مبنی برحق موقف کا پرچم تھامے کھڑا ہوتا ہے، مثلاً وفاتِ رسولﷺ کے غم انگیز موقع پر موقع پرستوں نے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی شوکت و قوت کی سرخیل ہستی جا چکی اور اب کچھ بھی کیا جاسکتاہے۔ میں ہمیشہ حیرت کرتا ہوں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسا رقیق القلب آدمی کس طرح اس موقع پر ڈٹ گیا تھا، کہا زکوۃ تو خیر نصاب کے تحت ہے ، میں تو اس سے بھی لڑ جاؤں گا جو حیاتِ رسول میں بکری کی ایک رسی دیتا تھا اور اب انکار کرتا ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت سبھی اس وقت اس جہاد کے حق میں نہیں تھے۔ دراصل خطرات بھی بہت تھے۔ یہ سانحہ ایسا نہ تھا کہ جسے مدینہ کے دشمن برتنا بھول جاتے۔ کچھ مرتد ہوگئے تھے، کچھ نے زکوۃ کا انکار کر دیا تھا اور کچھ سرحدوں کے ادھر حملے کی تیاریاں پکڑ رہے تھے۔ بہرحال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ڈٹ گئے، اکیلے ہی ڈٹ گئے۔ بہت بعد میں سب نے مانا کہ گو صدیق اس وقت اپنے موقف میں اکیلے تھے، مگر وہی ٹھیک تھے۔ یہاں آج ابنِ حنبل اکیلے تھے، مگر صدیق کے پیروکار بھی تھے۔ اکیلے ہی ڈٹ جانے پر انھیں سزا بھی کم نہ دی گئی۔ ابوالکلام کے بقول جو کوڑا، دنیا کا سب سے بڑا حدیث کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے والے اس محدث کے ضعیف تن پر برسا، کسی گرانڈیل ہاتھی پر برستا تو وہ پاگل ہو کے جنگلوں کا رخ کرتا۔ خیر پھر یہ ہوا کہ ابنِ حنبل کو جسم کی اس اذیت سے نجات مل گئی۔ جنازہ پڑھنے پر خلیفہ نے کچھ قدغن لگا دی تھی۔ خیر پھر وقت بیتا اور پابندی لگانے والا حکمران بھی چل بسا۔ اب عجیب منظر تھا۔ لوگ خلیفہ کے جنازے کے بجائے امام کے جنازے پر امنڈ آئے تھے۔ امام نے زندگی میں کہہ رکھا تھا کہ ہمارا اور تمھارا فرق جنازوں پر آشکار ہوگا۔
ایک جنازہ ابو ذر غفاریؓ کا بھی یاد آتا ہے۔ دولت جمع نہ کرنے کا، ان کا اپنا ایک موقف تھا اور رعایا اس سے انتشار کا شکار ہوتی تھی۔ سو انھیں ربذہ نامی جگہ بھیج دیا گیا۔ وہ اپنا موقف بھی رکھتے تھے اور اطاعتِ امیرکا داعیہ بھی۔ ویرانے میں جب ان پر وقت اخیر آیا تو بکری ذبح کروا کے پکوائی کہ رسولِ رحمت ﷺ کی بشارت تھی کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جنازہ پڑھے گی۔ ویرانے میں بھی اپنے حبیب اور صادق المصدوق ﷺ کی بات پر یقین اتنا تھا کہ مہمان نوازی کا اہتمام مہمانوں کی آمد سے پہلے کروا لیا تھا۔ صحابہ کی ایک جماعت پہنچی اور جنازہ ہوا۔
ایک جنازہ ایک درزی کاب ھی یاد آتاہے۔ سنا ہے ہندوستان کا یہ درزی میت کا جو بھی اعلان سنتا، دکان کا دروازہ بند کر کے جنازے میں شریک ہو جاتا۔ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے جنازے کی تیاری کر رہا ہوں۔ غریب اور گمنام آدمی ہوں۔ سو چاہتا ہوں کہ میں کسی کا جنازہ نہ چھوڑوں تاکہ میرے جنازے میں بھی لوگ جمع ہو جائیں۔ پھر یوں ہوا کہ کسی بڑے غالبا اشرف علی تھانوی کا جنازہ تھا اور علماء و مشائخ کا جم غفیر امڈ آیا تھا۔ جنازہ ہو چکا تو ایک اور جنازہ جنازگاہ میں آگیا۔ اعلان ہوا ایک مسلمان کا جنازہ ہے، پڑھ لیجیے، جو پچھلے جنازے سے لیٹ تھے، وہ بھی شریک ہوگئے۔ یہ جنازہ پہلے جنازے سے بھی بڑا ہو گیا، یہ اسی درزی کا جنازہ تھا۔
یہ جنازے بھی معمولی نہیں ہوتے۔ پیغمبر نے فرما رکھاہے کہ جس کے جنازے میں ستر اہل ِتوحید سفارشی ہوگئے وہ بخش دیا جائےگا۔ ظاہر ہے اس کی تیاری زندگی میں ہی کی جاتی ہے۔ آپ کن سے تعلق بناتے اور کن سے یاری گانٹھتے ہیں۔ جن سے آپ زندگی میں غیرضروری اور فضول سمجھ کے کنارہ کش رہتے ہیں وہ آپ کے جنازے میں کیوں آئیں گے۔ لوگوں نے کتنا تعجب کیا تھا کہ جب قندیل بلوچ کے جنازے میں انگلیوں پر گنے جا نے والے لوگوں نے شرکت کی۔ یعنی جس کے فیس بک پر فالوورز اور جس کے زندہ جسم کے تمنائی ہزاروں لاکھوں میں تھے، جان نکلی تو قندیل ان کی زندگی ہی سے نکل گئی۔
ہم مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ پنج سالہ اور پچاس سالہ منصوبے بناتے ہیں۔ کیا ہماری زندگی میں جنازے اور قبرکی رونق کے کسی منصوبے کو بھی کوئی دخل ہے؟ ہارون الرشید کا وزیراعظم بڑا دانا شخص تھا۔ یہ ساتھ تھا، ہارون الرشید جنگل میں شکار کے لیے گئے اور بھٹک کے ساتھیوں سے الگ ہو گئے۔ پیاس نے خلیفہ کو ستایا توپانی مانگا۔ پانی دیتے دیتے وزیراعظم نے ہاتھ روک لیا۔ عرض کی اگر پانی کا یہ ایک گلاس خریدنا پڑے اور پانی نہ ملے تو کتنی قیمت تک خرید فرمائیں گے ۔کہا، آدھی سلطنت کے عوض۔ وقت بیتا اور پھر خلیفہ کو واش روم کی حاجت ہوئی۔ وزیر نے پھر پوچھا، اگر اخراج رک جائے اور علاج کروانا پڑے تو کیا قیمت دیں گے؟ کہا، آدھی سلطنت۔ وزیر نے کہا، بادشاہ سلامت! سلطنت کی حیثیت تو بس پانی کی چند بوندیں پینے اور نکالنے جتنی ہے، پھر یہ غرہ اور غرور کیسا۔ ابراہیم ادھم ایک بادشاہ تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں خادمہ کے دل میں خواہش آئی کہ شاہی بستر پر لیٹ کر تو دیکھوں۔ لیٹی تو نیند آگئی۔ ابن ادھم نے دیکھا تو کوڑا پکڑ لیا۔ خادمہ کوڑے کھاتی اور قہقہے لگاتی جاتی تھی۔ پوچھا یہ کیوں؟ کہنے لگی، ہنستی اس بات پر ہوں کہ چند منٹ اس بستر پر سونے کی سزا اگر اتنے کوڑے ہیں تو تمھارا کیا حشر ہوگا کہ جس نے ساری زندگی اسی پر سو کے گزار دی ہے۔ بن ادھم نے کوڑا پھینکا اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔ آخرت کی فکر پال لی اور اللہ سے لو لگالی، یہاں تک کہ ولی کہلائے۔
بادشاہ رات کو رعایاکے احوال سے آگاہی کے لیے نکلا۔ ٹھٹھرتی سردی میں ایک فقیر کو بغیر لحاف و کمبل کے چوک میں سکڑتے سمٹتے پایا۔ کہا اسے صبح دربار میں حاضر کیا جائے۔ صبح اس سے پوچھا، رات کیسی گزری؟ کہا آدھی تو تمھاری طرح اور آدھی تم سے بھی بہتر۔ پوچھا وہ کیسے؟ کہا جب سو گیا تو ہم تم برابر ہوئے۔ آدمی فرش پر سوئے یا عرش پر نیند آئی تو ایک برابر۔ پوچھا آدھی بہتر کس طرح؟ کہا، جب سردی نے سونے نہ دیا تواللہ کا ذکر کرتا رہا، یوں ایک سوئے ہوئے آدمی سے اللہ کا ذکر کرنے والا بہتر ہوا۔
دین رہبانیت نہیں سکھاتا، دنیا اور دین دونوں توازن سے ساتھ لے کر چلنے کی ہدایت کرتا ہے، آدمی دو چیزوں سے مرکب ہے، جسم اور روح، جسم کی خوراک زمیں سے اگتی ہے تو روح کی آسمان سے برستی ہے، دونوں کے لیے تگ و دو کرنے والوں کی دنیا ہی نہیں جنازے بھی بہتر ہوتے ہیں اور قبر بھی۔ کاش ہم سمجھیں!
زبردست... روح کو چھو لینے والی تحریر