پشاور میں کتابوں کی ایک دکان بند ہوئی تو دوستوں نے اپنے اپنے انداز میں اظہار افسوس کیا۔ جواب میں کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اب کتابیں سافٹ فارم میں پڑھنے کے دن ہیں، انٹرنیٹ پہ ہزاروں کتب دستیاب ہیں اور روزانہ ڈاؤنلوڈ اور شئیر کی جا رہی ہیں۔ تاہم معاملہ کچھ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا پیش کیا جاتا ہے۔
لفظ اور کتاب کا تعلق صدیوں پرانا ہے۔ مختلف جانوروں کی ہڈیوں اور چمڑے کی کھال پہ کتابیں لکھی جاتیں۔ چھاپے کے زمانے سے قبل کتاب کی نقل صرف اسی صورت تیار ہو سکتی کہ اسے مکمل طور پہ ہاتھ سے نقل کر لیا جائے۔ اس حوالے سے بہت سی حکایات بھی مل جائیں گی کہ کس طرح شائقین کتب ایک ایک کتاب کے حصول کے لیے زمانے کی خاک چھانتے رہے ہیں۔ پھر چھاپے کا زمانہ آیا اور بیک وقت ایک ہی کتاب کی کئی نقول چھاپی جا سکتی تھیں مگر کسی نایاب کتاب کے حصول کے لیے پھر بھی ہاتھ سے نقل تیار کرنا پڑتی کہ ابھی فوٹو کاپی کا زمانہ نہیں آیا تھا۔ فوٹو کاپی کا زمانہ آیا تو شائقین علم کو بہت سہولت ہوگئی۔ ایک دوسرے کو مطلوبہ نایاب کتب فوٹو کاپی کروا کے بھیجی جاتیں۔ میں خود کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لیے کئی نایاب کتب فوٹو کاپی کے ذریعے ہی حاصل کیں۔
آج ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کتابیں بھی سافٹ شکل میں آنے لگی ہیں۔ کچھ کتابیں سکین کر لی جاتی ہیں، کچھ کی تو موبائل سے ہی تصاویر لے کر ایک فائل بنا لی جاتی ہے۔ گویا اب ہزاروں کتابوں کا کتب خانہ آپ کے لیپ ٹاپ میں موجود ہے۔ یہاں تک بات بہت سادہ معلوم ہوتی ہے یعنی چونکہ ٹیکنالوجی نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی ہے، پس کتاب کی شکل بھی بدلتی رہی ہے۔ مگر پاکستان کے تناظر میں مسئلہ ذرا گھمبیر ہے کہ کیا وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا ذوق مطالعہ بھی آگے بڑھا ہے یا کہیں ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا ہے۔ ایک ایک کتاب کے لیے میلوں کا سفر، مہینوں اور برسوں کا انتظار نہ سہی مگر اچھی کتاب دیکھ کے چہرے پہ خوشی کا کوئی تاثر بھی آتا ہے کہ نہیں؟ کیا کتاب ہمارے معاشرے میں بالعموم اور طلبہ میں بالخصوص کسی اہمیت کی حامل رہی بھی ہے یا فقط ایک ”نان ایشو“ بن کے رہ گئی ہے؟ کیا لوگ واقعی سافٹ کتابیں پڑھتے ہیں یا اپنے کمپیوٹر میں سینکڑوں کتابیں رکھ کے کسی خود فریبی کا شکار ہیں؟
وہ لوگ جو مطالعہ کی اہمیت سے انکاری ہیں اور مختلف عذر تراشتے رہتے ہیں ان کے کچھ نمایاں اعتراض اور عذر یہ ہیں۔
پہلا عذر یہ ہے کہ کتابیں اب سافٹ میں پڑھی جاتی ہیں۔ درست بات ہے، ہم یہ خوش فہمی پالنے پہ بھی راضی ہیں مگر کیا کیا جائے کہ مشاہدہ کچھ اور ہی سمت اشارہ کرتا ہے۔ میں اسلام آباد کی ایک مشہور یونیورسٹی میں ایم ایس کر رہا ہوں۔ یہ تعلیم کا ایک ایسا زینہ ہے جہاں طلبہ کی بہت کم تعداد پہنچتی ہے، باقی طلبہ مختلف وجوہات کی بنا پہ راستے ہی میں رہ جاتے ہیں۔ تعلیم کے اس درجے میں بھی میرے شعبے کے تین چار سو طلبہ میں سے پانچ سات ہی ایسے ہیں جو کتابیں پڑھنے کا ”اعزاز“ رکھتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ان کا مطالعہ بھی کچھ پاپولر خواتین ناول نگاروں تک محدود ہے۔ گریجوایشن کے دوستوں کے طفیل جنوبی پنجاب، لاہور اور اسلام آباد کی کئی جامعات کے بارے معلومات ملتی رہتی ہیں۔ مجموعی طور پہ کتابیں پڑھنا ایک ”نان ایشو“ بن کے رہ گیا ہے۔ ہمیں خوشی ہو گی اگر کوئی دوست ان مشاہدات و معلومات کا رد کردیں۔
دوسرا عذر یہ ہے کہ کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ سنگ میل جیسے اداروں نے یقینی طور پہ کتابیں مہنگی کرنے میں خاص ”خدمات“ سرانجام دی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پہ یہ عذر، عذر لنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اکثر طلبہ چار، چھ مہینوں بعد موبائل فون بدلتے رہتے ہیں۔ (کئی تو ماہانہ اور ہفتہ وار بنیادوں پہ بدلتے ہیں) بیس ہزار کا موبائل چھ ماہ کے استعمال کے بعد بمشکل چودہ، پندرہ ہزار کا بکتا ہے۔ گویا چھ ماہ میں پانچ، چھ ہزار کا خسارہ۔ اس رقم سے اگر کتابیں خریدی جائیں تو کئی ماہ کےلیے کافی ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سکیم ہے، پبلک لائبریریز ہیں، لاہور، راولپنڈی اور کراچی میں پرانی کتابوں کے بازار لگتے ہیں، اکثر شہروں میں پرانی کتابوں کی دکانیں بھی کہیں کہیں مل جاتی ہیں۔ پس مسئلہ ترجیحات اور شوق کا ہے، مہنگائی کا نہیں۔ بیس، پچیس ہزار کا موبائل جیب میں رکھ کر دو تین ہزار کا پیزا کھاتے ہوئے کتابوں کی مہنگائی کا عذر کرنا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
تیسرا عذر قدرے عجیب ہے۔ یعنی آج ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، کتابیں کون دقیانوس پڑھتا ہے؟ اس منطق کی رو سے ترقی یافتہ اقوام میں تو کتابیں چھاپنے پہ پابندی لگ جانی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اقوام نہ صرف کتابیں چھاپ رہی ہیں بلکہ ایک ایک کتاب کئی لاکھ کی تعداد میں چھپتی اور فروخت ہوتی ہے۔ وہاں کتب وزن میں ہلکی پھلکی، دیدہ زیب اور عمدہ طباعت سے آراستہ ہوتی ہیں۔ بلاشبہ یہ ممالک سافٹ کاپی کی بھی سہولت دیتے ہیں مگر کاپی رائٹس کے قوانین کا سختی سے اطلاق ہوتا ہے، کتابیں چھپنا بند نہیں ہوئیں۔ پس یہ عذر انتہائی لایعنی ہے۔
چوتھا عذر ان لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جو مطالعہ کا ذوق رکھتے ہیں اور ماضی میں کتب بینی کرتے رہے ہیں۔ یہ عذر وقت کی عدم دستیابی کا ہے۔ اس عذر میں کچھ نہ کچھ وزن ہے۔ اچھے اچھے صاحب مطالعہ لوگ نہ صر ف غم روزگار کے سبب کتب بینی سے دور ہوئے ہیں بلکہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کا کثرت سے استعمال بھی کتاب پڑھنے ایسے رومانوی تجربے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے۔ چونکہ میں خود بھی اس ”مرض“ کا شکار رہا ہوں، اس لیے اپنے ذاتی تجربے اور اس مسئلے سے نبرد آزما اہل علم کے بیانات کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ فیس بک یقینی طور پہ علمی بحثوں کے لیے مناسب فورم ہے مگر ایک حد سے زیادہ استعمال کا مطلب حصول علم کی خود فریبی کا شکار ہونا ہے۔ اگر کتابی مطالعہ کی بنیاد فراہم نہ ہو تو فیس بک کی پرمغز علمی بحثیں معلومات میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہیں مگر ٹھوس علم کے حصول کا ذریعہ نہیں۔ نیز فیس بک پہ مفید بحث کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ مطالعہ تازہ رہے وگرنہ اچھے اچھے صاحب مطالعہ بھی باسی افکار کی جگالی کرنے لگتے ہیں۔
کتب بینی کے فروغ کے لیے کچھ تجاویز بھی ضروری ہیں۔
1۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میٹرک تک کی جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ کے انتخاب میں کتب بینی کا خانہ بھی رکھا جائے یعنی امیدواروں سے دوران انٹرویو کتب بینی کے بارے پوچھا جائے اور اس کے کچھ نمبرز بھی مقرر کر لیے جائیں. اس طرح امید ہے کہ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے یہ اساتذہ بچوں میں بھی اس کا بیج بوئیں گے۔
2۔ ثانوی و اعلی ثانوی درجے پہ ایسے امتحانات منعقد کیے جا سکتے ہیں جن میں طلبہ کی کتب بینی کو پرکھا جا سکے اور اس بنیاد پہ کچھ وظیفے دیے جائیں تاکہ طلبہ میں اس حوالے سے کچھ مسابقت پیدا ہو۔ اگرچہ اس طرح کے امتحان کی ہمارے ہاں کوئی روایت نہیں ہے مگر کوشش تو کی جا سکتی ہے۔
3۔ کتابوں کے لیے استعمال ہونے والے کاغذ پہ ٹیکس میں حکومت کو چھوٹ دینی چاہیے اور اس کی شفافیت کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے کہ یہ چھوٹ صرف کتابوں کے کاغذ تک ہی محدود رہے۔
4۔ طلبہ کے لیے ایسی کتابیں چھاپی جائیں جن کا ورق اور طباعت دیدہ زیب ہو، وزن میں ہلکی ہوں جیسا کہ انگریزی ناول مجلد کے ساتھ ساتھ پیپر بیک پہ چھاپے جاتے ہیں جنہیں آپ بآسانی کہیں بھی اٹھا کے لے جا سکتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے لیے خاص طور پہ رنگین و دلکش کتابیں چھاپی جائیں۔ ہمارے ہاں میٹر ک کی سطح تک جو خلاصے، گائیڈز وغیرہ چھاپی جاتی ہیں وہ انتہائی گھٹیا کاغذ پر چھاپی جاتی ہیں، طلبہ کے لیے ان میں یا ان جیسی کتب میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔
5۔ پاکستانی جامعات میں 4 سالہ بی ایس پروگرامز کے اندر چالیس سے زائد مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ان میں خانہ پری کے لیے اسلامیات، مطالعہ پاکستان جیسے مضامین بھی شامل ہوتے ہیں جن پہ کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ ان کا سلیبس بھی وہی ہوتا ہے جو طلبہ میٹرک اور انٹر کی سطح پر پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ ان مضامین کی جگہ ایک مضمون ایسا تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں کچھ عمومی نوعیت کی کتابیں (ناول، افسانے، آپ بیتیاں وغیرہ) ہوں اور پورا سمیسٹر یہ کتب پڑھ کے ان کا امتحان ہو جس سے بہت کچھ فائدے کی امید ہے۔
6۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو فروغ دیا جائے، ان کے فنڈز بڑھائے جائیں۔ (مذکورہ ادارے کی ریڈرز کلب سکیم کے تحت ایک شخص سال میں پانچ ہزار تک کی کتب خرید سکتا ہے، اس حدکو بڑھایا جائے۔ نیز جون میں بجٹ پاس ہونے کے بعد ابھی تک کاغذی کارروائی کی رکاوٹ کی وجہ سے نئے کھاتے نہیں کھولے جا رہے۔ اس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے)
7۔ اکثر طلبہ فیس بک پر مزاحیہ ویڈیوز، لطیفے، بے وزن شاعری شئیر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ کتابوں کے مختلف گروپس میں موجود اچھی اچھی کتابیں ڈاؤنلوڈ کر لیں اور ان میں سے کچھ نہ کچھ پڑھتے رہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے اہل علم یہاں موجود ہیں جن سے آپ کو مطالعہ و تحقیق کے لیے تحریک ملتی رہتی ہے۔
یہ تمام باتیں میرے ذاتی مشاہدہ و تجربہ کی ہیں۔ اہل علم کو چاہیے کہ روزانہ کی بنیادوں پہ سیاست دانوں کی طرف سے دیے جانے والے بیانات کے تجزیے کے علاوہ اس طرح کے موضوعات پہ بھی خاص توجہ دیں۔
تبصرہ لکھیے