انسان خواہ عمر کے کسی حصے میں ہو زندہ رہنے کی چاہ کبھی کم نہیں ہوتی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ جسمانی کارکردگی مدھم پڑنے لگتی ہے لیکن زندگی کی خواہش اول روز کی طرح ویسے ہی شور مچاتی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ واپسی کے سفر کو حق جان کر بھی زندہ رہنا چاہتا ہے، اسی لیے اولاد کا خواہش مند ہوتا ہے جو کم ازکم اس کی نام لیوا ہو۔ اس خواہش کا اگر سائنسی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کے وجود کا حصہ، اُن کے جینز کا شراکت دار ہوتا ہے، سو انسان کی یہ خواہش لاشعوری طور پر اپنے جینز کی منتقلی اور بقا کی ہے۔ اس میں بھی بیٹے اور بیٹی میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہی معاشرے کا المیہ ہے کہ وراثت چاہے مال و دولت کی شکل میں ہو یا علم وآگہی کی صورت، بیٹے کی ضرورت اور خلش ہمیشہ آڑے آتی ہے۔ معاشرے کی اس عمومی سوچ سے سمجھوتہ کرنا یا اس کے برعکس سوچنا بڑے دل گردے اور ہمت کا کام ہے۔ بہت کم ہی کوئی اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ بیٹے کے نہ ہونے کی کسک کا ایک عام انداز یہ بھی ہے کہ کوئی بازو نہیں اور جنازے کو کاندھا دینے والا بھی کوئی نہیں۔ زندگی اسی ناآسودگی اور بےاعتباری میں گزر جاتی ہے اورباقی صرف وقت رہ جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کس کو کیا ملتا ہے؟ اور کون رہتا ہے؟ لیکن اس وقت سمجھنے والا جا چکا ہوتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جانے والے کا ربط نہ صرف دُنیا کی ہر چیز سے ختم ہو جاتا ہے بلکہ وہ مرنے کے بعد دُنیا میں اپنے آخری مقام کے دنیاوی جسمانی احساس سے بھی بےپروا ہو جاتا ہے اور اُس کی اصل کیفیت صرف اللہ جانتا ہے۔
مذہبی معاشرتی اور روحانی حوالوں سے قبروں کی تزئین و آرائش کے جواز پر ہر مکتبہ فکر کے اختلافات اور تاویلات ہیں، عورتوں کا قبرستان جانا بھی دینی طور پر مستحن نہیں سمجھا جاتا لیکن جن گھروں میں بیٹے نہ ہوں وہاں بیٹیوں کو بہت سے ایسے کام کرنا پڑتے ہیں جو عام حالات میں صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔
انسان کے جانے کے بعد پیچھے رہ جانے والے اُس کے پیارے رشتے، جن کے آرام و سکون کی خاطر وہ سرد راتوں اور تپتی دوپہروں میں چکی کی مشقت کرتا رہا، اُس کے دُنیا میں آخری مقام کے بارے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ شروع کے چند روز اس طرف دھیان زیادہ رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ محض عید، شب برات یا زیادہ سے زیادہ سال بہ سال برسی کے مواقع پر رسمی طور پر حاضری دی جاتی ہے۔ بہرحال جو بھی ہو، بچھڑنے کے شروع کے ایام میں قبر سے ایک عجیب سی اُنسیت ہو جاتی ہے جیسے کہ جانے والا ہمیں محسوس کر رہا ہو اور ہم بھی اس سے دل کی بات کہہ سکیں۔ کسی نے کیا بات کہہ دی کہ ”جب کوئی اپنا چلا جائے پھر قبرستان سے ڈر نہیں لگتا۔“ لیکن یہ چاہت اور اُنسیت بھی ہر جانے والے کے نصیب میں نہیں، کچھ توساری زندگی بےنام و نشان رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی کبھی کوئی اُن کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے نہیں آتا۔
اس بات سے انکار نہیں کہ زندگی میں چاہے بےمول ہی کیوں نہ بکتا رہا ہو، بعد مرنے کےمٹی کے انسان کی اصل قیمت چند گز زمین میں ملنے والی مٹی کی قربت ہے۔ یہ ”قربت“ بھی بڑے نصیب کی بات ہے جس کو نصیب ہو جائے، ورنہ ہوا، پانی اور آگ ایسے عناصر ہیں جو مٹی یوں کھا جاتے ہیں کہ نام ونشان کا احساس تو کیا ثبوت بھی کم ہی چھوڑتے ہیں۔ بےزمینی اور لامکانی کے دُکھ سے بھی بڑھ کر اگر کوئی دکھ ہے تو ایک جیتے جاگتے انسان کا لمحوں میں دنیا سے”غائب“ ہوجانا۔ آگے کی منزلوں اور سفر کا حساب کتاب تو وہ جانے لیکن اُس کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اس کے اپنے ہمیشہ شک و یقین کی سولی پر لٹکتے رہتے ہیں۔ وہ بدقسمت تو دعاؤں کے حصار سے بھی نکل جاتا ہے کہ نہ تو زندگی کی سلامتی کی دعا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی مغفرت کی دعا۔ اگر زندہ ہوگا تو نہ جانے کس حال میں اور اگر دنیا سے جا چکا ہے تو نہ جانے کس کسمپرسی کی حالت میں گیا۔
حرفِ آخر
گھر زندہ انسانوں کا مسکن ہے اور قبرستان مردہ جسموں کا۔ لیکن گھر میں رہنے کا سلیقہ قبرستان سے بہتر کہیں سے نہیں سیکھا جا سکتا، جہاں سب اپنی اپنی قبر میں اپنے اپنے حساب کتاب کے عالم ِبرزخ میں تنہا ہوتے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ احساس کی اگربتیاں اورعقیدت کی پتیاں کوئی انجان بھی بکھیر دے تو اپنے الاؤ بُھلا کر چاہ کی پھوار میں سوندھی مٹی کی مہک ہر سو پھیل جاتی ہے۔
تبصرہ لکھیے