صبح بیدار ہوئے تو ایک دوست ارمان غائب تھا. ہم فکر مند ہوئے کہ وہ اپنے ماں باپ کا لاڈلا اور اپنی بیوی کا چہیتا تھا. ہوٹل کے لاؤنج میں، قریبی ڈھابے پر، نزدیک کے گرلز کالج کے اطراف میں ہر جگہ اسے تلاش کیا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا. فون پر رابطہ نہیں ہورہا تھا. گمان ہوا کہ شاید وہ نور کے تڑکے ہی اپنی بیگم کے لیے چوڑیاں خریدنے فیروز آباد کی جانب دوڑ گیا ہو اور دوپہر تک واپس آکر ہم میں شامل ہوجائے. چوڑی کی سائز کا سیمپل وہ گھر سے لے کر آیا تھا اور شاید اسی شرط پر اسے آگرہ جانے کی اجازت بھی ملی ہو.
واپس ہونے لگے تو دفعتاً ایک جانب مرکز اصلاح زلف (باربر) پر کپڑوں میں لپٹی ایک عجیب و غریب شئے نظر آئی. غور سے دیکھا تو وہ ارمان تھا جو داڑھی مونچھوں سے بےنیاز ہو رہا تھا.
ہم اپنی خانہ خرابی پر کف افسوس مل کر رہ گئے کہ تین ماہ سے کسی باربر کی شکل نہ دیکھ سکے تھے اور شاید اسی وجہ سے دلّی کی غالب اکیڈمی میں خوار بھی ہوئے تھے.
ارمان کو جلد ہوٹل آنے کا کہہ کر ہم تیار ہونے لگے. آگرہ کا پانی ہفت افلاک کی سیر کرا گیا. پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس پانی میں کھچڑی بنائی جائے تو اس میں نمک اور مرچ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی. وہ پانی اتنا ہی نمکین اور تلخ تھا.
پہلے اتنا تلخ نہیں رہا ہوگا ورنہ چشمِ آہو رکھنے والی نازک اندام مغل شہزادیاں اس شہر میں کیوں قیام کرتیں. اور اس وقتا جمنا بھی سچ میں دریا کی صورت میں بہتا تھا، اب وہ گندے پانی کے ایک بڑے سے نالے کے علاوہ کچھ نہیں ہے. ہندو دیو مالائی میں گنگا جمنا پر سبقت لے گئی اور جمنا کا حال بھی اب آگرہ کی پرانی عمارتوں کی طرح ہے. دوسری جانب گنگا سکّوں کے چڑھاوے، سونے کی زیورات، سہروں کے پھول، مندروں کے شکستہ بتوں کے ٹکڑے اپنے اندر روزانہ سموتی ہے.
گنگا پر بنے ٹرین کے بریج پر ہم نے اہلِ وطن کی یہ وارفتگی کبھی دیکھی تھی کہ جوں ہی ٹرین گنگا کے کے اوپر سے گزرتی ہے، پوری بوگی میں اشلوک گونجنے لگتے ہیں. منتیں مانگی جانے لگتی ہیں، چھن چھن کی آواز سے لوگوں کی جیبوں سے سکّے نکلتے ہیں اور گنگا برد کردیے جاتے ہیں، خوشخال طبقہ سونے چاندی کے زیورات بھی گنگا کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے، لگن کے سہرے اور پھول بھی اسی گنگا میں اس عقیدے کے تحت ڈال دیے جاتے ہیں کہ نوبیاہتا جوڑے پر گنگا میّا کی رحمتیں نازل ہوں گی اور اس کا آشیرواد حاصل ہوگا. اس کے برعکس اگر ٹرین جمنا کے اوپر سے گزر رہی ہو تو مسافروں پر کوئی خاص تاثر نہیں ہوتا. گٹکا کھاتے لوگ جمنا میں تھوک رہے ہیں، شاپر وغیرہ پھینک دیے جاتے ہیں حتّٰی کہ ٹرین کا باتھ روم بھی معمول کے مطابق استعمال ہوتا رہتا ہے.
یہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا مختصر خلاصہ ہے.
آگرہ آنے والے ٹورسٹ پہلے تاج محل دیکھتے ہیں لیکن ہم نے پہلے آگرہ کا قلعہ دیکھنے کی ٹھانی جو تزکِ بابری سے لے کر فتاوی عالمگیری تک کے مکمل دور کا احاطہ کرتا ہے.
ایک رکشا میں بیٹھے تو وہ ڈرائیور اپنی عادت سے مجبور ہو کر کمیشن کی ہوس میں ہمیں ایک اسٹور لے گیا جہاں ہماری خریداری پر اسے کمیشن ملنا طے تھا. اس سرکاری اسٹور میں شیشے میں محفوظ منی تاج محل دیکھا جس کی موجودہ قیمت تیس لاکھ ہندوستانی روپے ہے. شاپ کیپر نے سارے لائٹ بند کیے اور اس منی تاج محل میں ایک سفید بلب روشن کیا اور کہنے لگا.
’’چاندنی رات میں تاج محل کچھ اس طرح نظر آتا ہے.‘‘
ہم مبہوت ہو کر رہ گئے. ماڈل کے اندر روشن بلب کی روشنی اور باہر اندھیرے میں یہ منی تاج محل سفید ریڈیم کی طرح روشن تھا.
کچھ دیر کے بعد لائٹس دوبارہ روشن ہوئے تو دیکھا کہ کاؤنٹر پر چھوٹے چھوٹے تاج محل کے نمونے رکھے ہیں جو مختلف قیمتوں اور مختلف سائز میں دستیاب تھے. ان کی خاصیت یہی تھی کہ اندر لائٹ روشن کرنے پر وہ سفید سے دودھیا ہوجاتے ہیں. ایک تاج محل اٹھا کر اس کے نیچے سے موبائل کا فلیش کیمرہ چلایا تو یوں معلوم ہو کہ تاج پر ایک بجلی چمکی ہو اور وہ ایک لمحے کے لیے روشن ہوگیا.
’’اسے پیک کردیجیے.‘‘ میں نے شاپ کیپر کو مخاطب کیا. دو دوستوں نے بھی خریدنے کا من بنا لیا. پھر مگر مچھ کی کھال کے جوتے، انگشتری سے گزر جانے والی ساڑیاں، ایئرکنڈیشنڈ رضائیاں وغیرہ بھی دکھائی جانے لگیں.
’’یار ہم فورٹ جانے کےلیے بیٹھے تھے تو ہمیں یہاں لے آیا.‘‘ میں نے رکشا ڈرائیور سے شکوہ کیا.
’’بس بس صاحب چلتے ہیں.‘‘ اس نے دانت نکال دیے.
کچھ دور ہی چلے تھے کہ ایک مٹھائی کی دکان کے سامنے رکشا رک گیا.
’’صاحب آگرہ کے پیٹھے ساری دنیا میں مشہور ہیں. اگر لینے ہوں تو سامنے دکان میں سے لے لیجیے. دکاندار کو میرا نام بتانا وہ سستے دے دے گا.‘‘ دو معصوم سے دوست مٹھائی کی دکان میں چلے گئے.
’’دن بھر میں کتنا کمیشن بناتے ہو ٹورسٹ کو یوں شاپنگ کروا کے؟؟‘‘ میں نے رکشا ڈرائیور سے سوال کیا.
جواب میں وہ پھر دانت دکھانے لگا.
دونوں دوست بڑے بڑے شاپر تھامے چہروں پر میٹھی مسکراہٹ سجائے دکان سے نکلے.
’’اب سیدھا فورٹ چلنا ہے ہاں...‘‘ میں نے ڈرائیور سے کہ.
جواب میں وہ پھر دانت دکھاتے ہوئے کہنے لگا.
’’بس صاحب دس منٹ میں چمڑہ کی صنعت دیکھ لیں، وہاں آپ کو جیکٹ، بیلٹ، بٹوہ اور پرس وغیرہ بہت مناسب داموں میں ملیں گے. ممبئی میں آپ کو یہی چیزیں دگنی اور سہ گنی قیمت پر ملیں گی.‘‘
’’وہاں بھی تمھیں کمیشن ملتا ہے؟" میں نے سوال کیا.
’’ہاں صاحب...... میں رکشا ڈرائیور نہیں ہوں. میں مدھیہ پردیش کا ہوں، یہاں ہماری بہت بڑی بیکری تھی لیکن سرکار کی جانب سے بند کرا دی گئی کیونکہ بیکری کے اٹھنے والا دھویں سے تاج محل پیلا پڑتا تھا. صرف ہماری نہیں ساری بیکریاں بند کرادی گئیں جو تاج کے اطراف میں تھیں، تب سے گزر بسر کرنے کے لیے رکشا چلا رہا ہوں. یہ رکشا بھی میرا نہیں ہے.‘‘
وہ کہتا رہا اور میری سماعت پر ہتھوڑے برستے رہے. شاہجہاں نے مزدوروں کے ہاتھ کاٹ دیے تھے اور تاج محل نے اس شخص کو بےروزگار کردیا.
’’تم مدھیہ پردیش واپس کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘ میں نے سوال کیا.
’’بیس سال سے آگرہ میں ہوں صاحب، اب واپسی اتنی آسان نہیں.‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا.
تھوڑی دیر بعد اس نے رکشا روکتے ہوئے کہا.
’’وہ سامنے لیدر انڈسٹری ہے دکان دار کو...........‘‘
’’میں بتا دوں گا کہ ہمیں سلیم خان لایا ہے.‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے اسے جملہ مکمل نہیں کرنے دیا. جواب میں رکشا ڈرائیور بھی مسکرانے لگا.
اس کی مسکراہٹ کے سامنے تاج محل کی چمک ماند پڑ رہی تھی.
وہ مسکراہٹ جو غموں کے سمندر میں تیرتے ہوئے سلیم خان کے ہونٹوں تک پہنچ رہی تھی.
(جاری ہے)
سفرنامہ آگرہ کا پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کریں
[…] سفرنامہ آگرہ کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کریں […]