برادرم اختر عباس بلا کے قلم کار ہیں، ان کے قلم میں کاٹ بھی غضب کی ہے اور جو نکتہ وہ ڈھونڈ کر سامنے لیتے ہیں، اکثر اوقات وہ بھی کمال کا ہوتا ہے۔ ان کی ایک مختصر سی تحریر دیکھی جس نے ہلا کر رکھ دیا۔ گزشتہ روز تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن اور ترجمان القرآن کے نائب مدیر مسلم سجاد انتقال کر گئے تھے۔ مسلم سجاد جماعت اسلامی کے ممتاز دانشور رہنما خرم مراد کے چھوٹے بھائی تھے۔ منشورات جیسا خوبصورت کتابیں شائع کرنے والا ادارہ مسلم سجاد ہی نے قائم کیا تھا۔ وہ ترجمان القرآن کے بھی روح رواں تھے۔
اختر عباس ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے گئے اور وہاں بعض نامی گرامی شخصیات کی قبروں کی جو حالت انہوںنے دیکھی ، اہل دنیا نے اپنے ان بڑوں کوجس طرح بھلا دیا، اس نے اختر عباس کو شدید کرب سے دوچار کیا۔ رات گئے انہوںنے اپنے جذبات، محسوسات کو ایک نوحہ کی شکل دی، سچ تو یہ ہے کہ ہر صاحب دل جس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو بات انہوں نے کی، اس نے مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا، دل سے گویا لہو سا رسنے لگا۔ اختر عباس لکھتے ہیں:
’’رات کے اس پہر بھی آج دوپہر کے ان لمحوں اور پلوں کے ساتھ ہوں جو جناب مسلم سجاد کے جنازے اور پھر قبر کی تلاش میں مجھ پر بیت گئے۔ بارش تھی کہ کہے آج ہی برسنا ہے اور میں ان کی قبر ڈھونڈتا کریم بلاک کے قبرستان پہنچا۔ طارق محمود ایشیا والے بھی وہیں ملے۔ قبر پر پہنچے تو سرخ پھول اور محبت سے سرخ ہوئی آنکھوں والا ان کا بیٹا ملا۔ تعزیت میں طارق صاحب، عمران ظہور غازی اور ایوب منیر سے ہی کروں گا، دوستی ہم میں سانجھی تھی۔ یہاں سے چلا تو بارش کے قطروں سے آنکھیں کھل نہ رہی تھیں، برادر عبدالغفار عزیز نے بتایا کہ یہاں خلیل حامدی اور اسعد گیلانی کی بھی قبریں ہیں، ڈھونڈھنے لگے ناکام رہے. ایسے میں ایک قبر نے رلا دیا، یہ میاں طفیل صاحب کی تھی، لکھا تھا جانشین سید مودودی۔ بڑی بڑی گھاس تھی، جانے کوئی کب سے نہیں آیا۔گاڑی میں آ کر بیٹھا تو اکیلا تھا اور پوری گاڑی میری چیخوں سے بھری تھی، میں ایسی بےنامی موت نہیں چاہتا، کس سے کہوں کہ ایسی جگہ دفنانا جو آسانی سے مل جایا کرے، جس پر آوارہ جنگلی گھاس نہ ہو، پھول ہوں. مسلم سجاد صاحب کے تو بیٹے ہیں، فاتحہ پڑھ کر واپس دبئی چلے جائیں گے. ممکن ہے انہوں نے کسی سے وعدہ بھی لے رکھا ہو، کچھ روز تو میں بھی روز جائوں گا مگر پیارو میں کس سے کہوں کس سے وعدہ لوں؟ میرے ہاں تو اپنا کوئی بیٹا بھی نہیں۔ خدا کی قسم میں کسی ویران قبر، کسی ٹوٹی قبر کا رزق نہیں ہونا چاہتا۔ مگر میں اپنی یہ آرزو کس سے کہوں؟ رات کے اس پہر میں سونا چاہتا ہوں پر یقین کے بنا نیند بھی کب آتی ہے ۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کا حال کم و بیش یہی ہونے جا رہا ہے۔ اس سے اگرچہ ہم بے خبر ہیں، دنیا کے لمحات ہم دوستوں کے ساتھ گزارتے، محفلیں آراستہ کرتے اور دل خوش کن ساعتوں سے رس کشید کرتے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی قبریں، جہاں پر بڑھی ہوئی گھاس، کتبے کے مٹتے حروف اور شکستہ تعویز ہمارے پیاروں کی راہ تکتے رہیں گے، وقت کا تیز رفتار ریلا جنہیں شاید ہمیں یاد کرنے کی فرصت ہی نہ دے۔ محرم، عید پر کوئی جھانک جائے تو الگ بات ہے۔
اختر عباس کی بات پڑھ کر مجھے طاہر بھیا یاد آئے۔ آپ بھی ان کا قصہ سن لیجیے۔ طاہر بھیا داتا دربارکے قریب ایک دکان میں رہتے تھے، داتا صاحب سے بہت محبت تھی، طاہر بھیا دوسروں کو کھانا کھلا کر بہت خوش ہوتے، جو تھوڑی بہت کمائی ہوتی، اس سے گوشت خریدتے، بھنا ہوا سالن بناتے اور پھر دوستوں کی ضیافت کر ڈالتے، انہیں کھلا کر خوش ہوتے، خود دیگچی میں لگا مسالہ روٹی سے لگا کر کھا لیتے کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کی دو خواہشیں تھیں، ایک وہ چاہتے تھے کہ داتا دربار کے قریب ہی مدفون ہوں، دوسر انہیں اندھیرے سے ڈر لگتا تھا، خواہش تھی کہ قبر پر روشنی رہے، اجالا اور رونق رہے۔ انتقال کے بعد رب تعالیٰ نے ان کی دونوں خواہشیں پوری کر دیں۔ جس دکان میں رہتے تھے، اس کے مالک نے اسی جگہ پر ان کی قبر بنانے کی اجازت دے دی ، آج وہاں ایک چھوٹا سا مزار ہے، جس پر ہر وقت ہائی وولٹ بلب جلتے رہتے ہیں، دیگ چڑھی رہتی ہے اور دل والے وہاں دیگیں پکاتے، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ کئی سال ہوتے ہیں، ایک صاحب کے ساتھ داتا دربار فاتحہ کے لیے گیا۔ انہوں نے مجھے یہ قصہ سنایاتھا۔ داتا صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر ہٹے تو دیکھا کہ ان صاحب کے ہاتھ میں ایک شاپر ہے، جس میں کچھ پھول ہیں۔ کہنے لگے کہ کوئی نوجوان آیا اور میرے ہاتھ میں یہ شاپر پکڑا گیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ صاحب مزار کی طرف سے ہیں کہ ان کی جانب سے طاہر بھیا کی قبر پر چڑھا دیے جائیں۔ ایسا ہی کیا گیا۔ میں رشک سے طاہر بھیا کی قبر کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کھانا کھلانے اور ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنے کی سعی کرنے والے شخص کی دعا کی کیسی قبولیت بخشی۔
تو بھائی اختر عباس رب تعالیٰ نے کسی کو بیٹے دیے ہیں یا نہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ آج کل بیٹوں کو تو اپنا کیرئیر بنانے کا ایسا جنون سوار ہے کہ ان کے پاس تو زندہ والدین کے لیے وقت نہیں، بیٹیاں چلو کسی وقت جانے والوں کو یاد کر کے دو آنسو تو ٹپکا لیں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ رب تعالیٰ مہربان ہوجائے اور پھر دنیا کی طرح مرنے کے بعد کے اندھیرے بھی دور ہوجائیں۔ ہم آپ سب کو یہی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے، زندگی میں بھی عزت ملے گی اور مرنے کے بعد بھی اور ان شااللہ روز حشر بھی عزت والوں میں کھڑے کیے جائیں گے، جہاں سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔
تبصرہ لکھیے