ابھی کچھ دیر قبل جناب مسلم سجاد صاحب، نائب مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے انتقال کی خبر ملی تو ایسا لگا کہ میرا کوئی بہت قریبی رشتے دار مجھ سے بچھڑ گیا ہے. ان کا سراپا نگاہوں میں گھوم رہا ہے اور یادیں ہیں کہ امڈی چلی آرہی ہیں. میں خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن جذبات ہیں کہ قابو میں نہیں آرہے ہیں.
جون 2012ء کے دوسرے ہفتے میں محترم مولانا سید جلال الدین عمری، امیر جماعت اسلامی ہند کی مصاحبت میں لاہور جانا ہوا تو مسلم سجاد صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی، لیکن وہ اتنی محبت، اپنائیت اور بے تکلفی سے ملے کہ لگتا تھا، بہت پرانی ملاقات ہے اور برسوں سے وہ مجھے جانتے ہیں. یہ بات صحیح بھی تھی کیوں کہ ہمارا باہم غائبانہ تعارف برسوں سے تھا.
اس سفر میں کراچی، حیدرآباد اور اسلام آباد بھی جانا ہوا. واپسی میں پھر لاہور میں دو دن قیام رہا. اس عرصہ میں مسلم صاحب سے بار بار ملاقات ہوتی رہی. ترجمان القرآن اور منشورات کے دفتر میں، مسجد میں، مہمان خانہ میں، راستے میں چلتے پھرتے، انھوں نے اصرار کرکے گھر پر دعوت بھی کی. خاموشی، عزلت نشینی اور مردم بیزاری میرے مزاج کا خاصّہ ہے، لیکن مسلم صاحب اسے میرا قصور ماننے کے بجائے اس کا الزام دوسروں پر دھرتے تھے. ایک بار کہنے لگے: ”لوگ آپ کو لِفٹ ہی نہیں دے رہے ہیں. آئندہ آپ تنہا آئیے گا، تب آپ کی قاعدہ سے عزت افزائی ہوگی.“
واپسی پر میں نے سفر نامہ لکھا اور محترم امیر جماعت کے خطابات مرتب کیے، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ”خطباتِ پاکستان“ کے نام سے شائع ہوئے تو مسلم صاحب نے یہ کتاب منگوائی اور ’منشورات‘ لاہور سے بھی شائع کی.
2013ء میں برادر محترم ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کے ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک سمینار میں شرکت کا موقع ملا. مسلم سجاد صاحب کو خبر لگ گئی تو انھوں نے اسلام آباد آکر ملاقات کی اور خاصا وقت ساتھ میں گزارا. 2014ء میں ایک بار پھر محترم امیر جماعت کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع عام میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تو اس موقع پر بھی مسلم صاحب کے ساتھ بارہا ملاقاتیں رہیں.
مسلم سجاد صاحب میری تحریروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بہت ہمت افزائی کے کلمات سے نوازتے تھے. انھوں نے متعدد بار لکھا کہ میں ترجمان القرآن کے لیے مضامین بھیجوں. ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی میں ’رسائل و مسائل‘ کالم کے تحت شائع ہونے والے فقہی سوالات کے، میرے بہت سے جوابات انھوں نے ترجمان میں شائع کیے. شامی اخوان المسلمون کی خونیں سرگزشت پر مشتمل ہبہ الدباغ کی کتاب’5منٹ‘ انھوں نے منشورات سے شائع کی. میں نے اس کا خلاصہ ایک مضمون کی شکل میں لکھا، جو زندگی نو میں شائع ہوا تو اسے منگا کر انھوں نے ’اردو ڈائجسٹ‘ میں شائع کروایا.
سہ ماہی تحقیقات اسلامی کے بعض مضامین انھیں پسند آتے تو فوراً ان کا میل آتا کہ ان کی ان پیج فائل بھیجیے، انھیں ترجمان میں شائع کرنا ہے. ابھی حال میں مشہور اخوانی خاتون رہنما زینب الغزالي پر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے ہم نے ایک کتاب شائع کی توان کا خط آیا کہ اسے ہم بھی شائع کرنا چاہتے ہیں، اس کی ان پیج فائل بھیج دیجیے.
مسلم سجاد صاحب سے میری جب بھی ملاقات ہوئی انھوں نے مجھے ایک لفافہ تھمایا، جس میں میرے ان مضامین کا معاوضہ ہوتا تھا جو وہ ترجمان میں شائع کرتے تھے. انھوں نے مجھ سے بارہا کہا کہ آپ کی بہت سی کتابیں پاکستان میں چھپ رہی ہیں، ان کی رائلٹی کیوں نہیں طلب کرتے؟ اس موضوع پر میری خاموشی انھیں بہت ناگوار گزرتی تھی. ایک بار منشورات کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ ہماری مطبوعات میں سے جتنی کتابیں آپ پسند کریں، لے لیں. میں نے کچھ کتابیں منتخب کیں تو اصرار کے باوجود ان کی قیمت نہیں لی.
مسلم سجاد صاحب مرحوم انجینئر خرم مراد مرحوم کے بھائی تھے. ان کے انتقال کے بعد ان کی بہت سی تقریریں، دروس قرآن، دروس حدیث انھوں نے نقل اور مدوّن کرواکے کتابی صورت میں شائع کیے. وہ چاہتے تھے کہ مرحوم کی کتابیں ہندوستان میں مرکزی مکتبہ اسلامی شائع کرے. انھوں نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ اس کی کوئی رائلٹی وہ اور مرحوم کی بیوہ نہیں چاہتے، لیکن مکتبہ سے ان کے اطمینان کے مطابق رسپانس نہ ہوا تو انھوں نے ایک ایگریمنٹ کے مطابق منشورات انڈیا کو حقِ اشاعت دے دیا.
مسلم صاحب راقم سے کتنا تعلقِ خاطر رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر عید میں وہ ڈاک سے عید کارڈ بھیجتے تھے. لاہور سے کوئی بھی آتا، وہ منشورات سے شائع ہونے والی کوئی نئی کتاب ضرور بھیجتے. ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے چند سطری خط ضرور لکھتے.
مسلم سجاد صاحب کی وفات سے میں اپنے ایک مشفق و محب سرپرست سے محروم ہوگیا. اللہ تعالی ان کی حسنات کو قبول فرمائے، ان کی زلّات سے درگزر فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے، ان کے متعلقین اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے. آمین یا رب العالمین
تبصرہ لکھیے