دو آسکر ایوارڈ جیتنے والی ہالی وڈ کی فلم ”سپاٹ لائٹ“ 2002ء میں امریکہ میں منظر عام پر آنے والے، پادریوں کے تہلکہ خیز سکینڈل کو دوبارہ ”سپاٹ لائیٹ“ میں لے آئی ہے۔
14 سال قبل امریکی شہر بوسٹن کے ایک مقامی جریدے ”بوسٹن گلوب“ کی ”سپاٹ لائٹ“ کے نام سے جانی جانے والی تفتیشی صحافیوں کی ٹیم نے نہایت عرق ریزی سے شواہد اکٹھے کر کے یہ ہولناک انکشاف کیا تھا کہ کیتھولک چرچ کے متعدد پادری تشویشناک حد تک بچوں کے ساتھ جنسی بد فعلی جیسے قبیح ترین فعل میں مبتلا ہیں۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ چرچ کے کرتا دھرتا نہ صرف یہ کہ ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کر رہے، بلکہ الٹا انہیں تمام ممکن حربوں سے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔
فلم کے اخلاقی پہلو سے قطع نظر، کہ یہ تو چرچ کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں، مجھ جیسے کم فہم پر ”سیکولرز“ کے ایک بالکل نئے مفہوم کا انکشاف ہوا۔ اس مفہوم کو انگریزی کا ایک مقولہ نہایت فصاحت سے بیان کرتا ہے:
”You scrath my back, I scratch yours“
یعنی تم میرے (ناجائز) مفادات کا تحفظ کرو اور میں تمھارے۔
”ڈارک ایجز“ کے ردعمل میں مغرب نے چرچ سے آزادی تو حاصل کر لی اور اسے امور ریاست سے بےدخل بھی کر دیا، پر انہیں اندازہ ہوا کہ عوام کو کسی ایک نکتے پر متحد کرنے اور اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے مذہب سے مؤثر نعرہ اور کوئی نہیں۔ بالخصوص، جنگ میں جھونکنے کے لیے لبرلز کے پاس تو کوئی پرکشش”انسینٹِو“ ہے ہی نہیں۔
پر عوام کے اس روحانی جذبے کو لگام میں رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ چرچ کو محدود پیمانے پر لامحدود آزادی دی جائے۔
(جس کا سب سے بڑا مظہر ویٹی کن کی ریاست ہے)
اور یہی حقیقت اس فلم میں دکھائی گئی ہے کہ کس طرح ریاستی اور قانونی مشینری اس شیطانی فعل کو تقدس کی چادر میں لپیٹ کر ”قالین کے نیچے چھپانے“ (Hiding under the carpet) میں چرچ کی مدد کرتی رہی ہے۔ ویسے تو مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے، پر اگر یہ ریاست کے مفاد کا خیال رکھے تو سرکاری پروٹوکول دینے میں کیا حرج ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر حکومت کا پسندیدہ، یہ صدیوں پرانا کھیل ہمارے ہاں بھی نہایت شاطرانہ چالاکی اور کامیابی سے کھیلا جاتا رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو قادیانیت، پرویزیت، صوفی ازم (دکانداری والا) اور اب غامدیت کا پھر سے مطالعہ کر لیں۔
تبصرہ لکھیے