زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ہے۔ معلوم ”نصوص“ کے ساتھ ہمارا روزمرہ عملی رویہ، ان کی تشریحاتی غارت گری، اور ان کا آلاتی استعمال ہمارے انہدام شعور، نفسی گراوٹ اور نظری علوم کے خاتمے ہی پر دلالت کرتا ہے۔ ”نص“ ہمارے لیے اب ”پیکر محسوس“ کا کام کرتی ہے، اور اسے ”دیکھ“ کر بس خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس کی ہمارے ذہن سے علمی نسبتیں، نفس سے اخلاقی نسبتیں، وجود سے حق کی نسبتیں کمزور پڑ گئی ہیں، یا معدوم ہو گئی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہوئی ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے فقہ الاکبر کے تناظر میں ہم اپنے دینی عقیدے کے ساتھ جڑی ہوئی نظری علم کی روایت کو نہ سمجھتے ہیں، نہ اس کی طرف مڑ کر دیکھنے کے روادار ہیں، اور نہ ہمیں اس میں کوئی دلچسپی باقی رہی ہے۔ عہد زوال میں نظری علوم سے لاتعلقی اور پھر نفرت کی وجہ سے ہم ”عرفان“ کی طرف مائل ہو گئے۔ لیکن نظری علوم سے دشمنی کی فضا میں عرفان پر طبع آزمائی ایسے ہی ہے جیسے آدمی ہوائی جہاز کی دم سے رسی باندھ کر اس پر ”سوار“ ہو جائے۔ آغاز ہی میں جملہ معترضہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جدید تعلیم، عملی سرگرمی سے پہلے، از اول تا آخر ایک نظری مبحث ہے، اور ہم اس پر صرف وعظ کرنے یا دم کرنے پر بضد ہیں، اور زمین ہمارے پیروں تلے سے نکلتی جا رہی ہے اور آسمان سر سے ہٹتا جا رہا ہے۔ وعظ یا دم کی افادیت سے کسے انکار ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا محل نہیں ہے۔
گزارش ہے کہ جدید تعلیمی عمل تنظیمی ہے جبکہ روایتی تعلیمی عمل اخلاقی تھا۔ ”تنظیم“ (آرگنائزیشن) تو پرانے معاشرے میں بھی موجود تھی، اور نئے معاشرے میں بھی موجود ہے، لیکن ان میں نوعی فرق ہے۔ روایتی معاشرے میں ”تنظیم“ اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور حفظ مراتب کے نظام میں تشکیل پاتی تھی، جبکہ جدید تنظیم کا اصول طاقت اور پیداوار ہے۔ روایتی تنظیم میں شمولیت کا منبع فرد کے داخل میں تھا، جبکہ جدید تنظیم میں یہ فرد کے خارج میں ہے۔ جدید تنظیم کی بنیادی ترین تعریف ہی یہ ہے کہ:
Modern organization is an artificial construct set up by the power of law.
جدید تنطیم اور تنطیمی عمل اپنی پوری وجودیات اور فعلیات میں سیاسی طاقت کے تابع اور اصول پیداوار پر اساس رکھتا ہے۔ جدید تنظیم مکمل طور پر تجریدی، آلاتی اور میکانکی ہے۔ مذہبی معنوں میں ”حضور“ کا تصور انفسی ہے، لیکن ”جدید تنظیم“ سیاسی طاقت کے ”حضور“ کو آفاق میں ممکن بنا دیتی ہے۔ جدید تنظیم قواعد و ضوابط اور اختیار کی جادوئی رسیوں سے بنا ہوا جال ہے جو سانپ تو نہیں بنتیں، غیرمرئی ہو کر سارے کو لپیٹ لیتی ہیں۔ تنظیم میں ملفوف انسان اندر باہر سے بدل جاتا ہے۔ تنظیم کی شرط وجود اور شرط فعلیت چونکہ قانون ہے اس لیے یہ سیاسی فیصلے کا حاصل ہے، اور قانون طاقت کا نفاذ ضمناً ہے اور سیاسی طاقت کی توسیع اصلاً ہے۔ اگر تنظیم کی شرطِ وجود اور شرطِ فعلیت قانون ہو، تو وہ صرف دو کام کر سکتی ہے: ایک پیداوار کو کئی گنا بڑھانے کا کام اور دوسرا اختیار اور طاقت کے ارتکاز کا کام۔
اس ”دراز نفسی“ کی ضرورت صرف یہ عرض کرنے کے لیے پیش آئی کہ تنظیم میں اخلاقیات اور انسانی رشتوں کی چونکہ کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے ان کا خاتمہ بالخیر ازخود ہو جاتا ہے۔ تنظیم میں ”اخلاقی“ کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اخلاقیات کا مطلب ”ڈیوٹی“ اور ڈسپلن ہے جو تنظیم کی نئی اخلاقیات ہے۔ جدید تعلیم از اول تا آخر ایک بہت وسیع اور طویل تنظیمی عمل ہے، اور اس کے نتائج تنظیمی وجودیات کے تابع ہیں، اور اخلاقی معنوں میں ارادی نہیں ہیں، جبری ہیں۔ ہمارا روایتی تصورِ تعلیم از اول تا آخر اخلاقی ہے۔ ہمارا یہی دبدھا ہے، اور یہی اشکال ہے۔ کیا تعلیم کا کوئی بھی دینی تصور ”تنظیمی“ ہیئت میں قابل حصول ہے یا نہیں، یہ ہمارا سوال ہے۔ جدید عہد میں ہر اجتماعی سرگرمی تنظیمی ہے، اور کوئی دوسرا طریقہ دستیاب بھی نہیں۔ تنظیم کی ساری بحث میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تنظیم اب شرائط ہستی میں داخل ہے۔
”تنظیمی ڈھانچہ“ بہت بامعنی ترکیب ہے اور جدید تنطیم کو مکمل طور پر بیان کرتی ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ اپنا کام میکانکی طریقے سے کرتا ہے اور ساتھ کھڑکھڑاتا بھی رہتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ طاقت اور بالائی اختیار سے حرکت کرتا ہے، یہ موجود ہوتا ہے، محسوس بھی ہوتا ہے، سمجھ میں بھی آتا ہے لیکن نظر نہیں آتا۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں ہڈیاں وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ ہڈی کی طرح پتھرایا ہوا آدمی ہڈیوں کی جگہ نصب ہوتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں انسان دوستی، دلداری، خیرخواہی، اخلاقیات بھی اسی طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے جیسے اصلی ڈھانچے میں ہوتی ہے!
سوال یہ ہے کہ تنظیم کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ گزارش ہے کہ پانی میں ایک بڑے پتھر کو پھینکا جائے تو پانی کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی پتھر گرنے کے بعد پانی اپنی ترتیب بدلے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں مشین کے داخل ہوتے ہی انسانی رشتوں کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی بھی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی انسانی معاشرے کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ ایسے روایتی رشتوں پر باقی رہ سکے، جن کی اساس اخلاقی ہو۔ انسانوں کے باہمی تعامل میں اخلاقی رویے اور رشتے اہم ہوتے ہیں اور تنظیمی رشتوں کی ضرورت نہیں پڑتی، جبکہ مشین سے تعامل تنظیمی رشتوں کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ مشین ایک ایسی ”تنظیم“ ہے جو نظر آتی ہے، اور ”تنظیم“ ایک ایسی مشین ہے جو نظر نہیں آتی۔ تنظیمی رشتے اور مشین لازم و ملزوم ہیں۔ انسان کے تنظیمی رشتوں کی بنیاد طاقت اور پیداوار کے اصول ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔
اگر ہم تھوڑا سا غور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہمارے روایتی معاشرے میں تعلیم کا پیڑڈائم استاد اور شاگرد کا اخلاقی رشتہ تھا، جو پوری تہذیب کا گہوراہ بھی تھا۔ اس کی کچھ جھلکیاں آج بھی نظر آتی ہیں لیکن نادر کالمعدوم ہیں۔ روایتی معاشرے میں بچوں کی تعلیم معاشی ارتکاز کا طریقۂ کار اور اسناد کا پیداواری عمل نہیں تھا۔ جدید اور روایتی تعلیم کے تناظر میں ہمارے ہاں سب سے عام بحث نصاب کی ہے جو ہماری ساری بد نصیبیوں اور فکری نارسائیوں کا خلاصہ بھی ہے۔ جب تک ہم جدید تعلیم کو اس کے اپنے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم کسی طرح کی تبدیلی لانے کے قابل بھی نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ جدید تعلیمی ادارہ بھی ایک تنظیم ہی ہے جسے اصول پیداوار پر بنایا گیا ہے، اور اس کے تمام اہداف مقداری ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔
یہاں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ہم صرف صورت حال کا تجزیہ پیش کر رہے ہیں، کوئی فیصلہ وغیرہ نہیں دے رہے۔ اپنی مجموعی صورت حال کے بارے میں ہم عمومی طور پر غیر مطمئن ہیں، اور اس کا تجزیہ کسی اطمینان بخش حل کے لیے ضروری ہے۔
دوسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے
[…] پہلی قسط یہاں ملاحظہ کیجیے […]