مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے وطن عزیز کے حالات اور سیاست ایک اہم اور نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ آئندہ کیا ہوگا اور ہماری سیاست کیا رخ اختیار کرے گی فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ حکومت کی معاملات پر گرفت اس قدر کمزور ہے کہ نہ ہاتھ باگ پہ ہے نہ پائوں ہے رکاب میں۔ اسی صورتحال کو سمجھتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کابل یونیورسٹی پر حملے کے لئے پاکستان کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے جنرل راحیل شریف کو فون کیا ہے اور گلہ کیا ہے۔ افغان صدر نے وزیر اعظم کوزحمت دینا گوارہ نہیں کیا۔ کوئٹہ سانحے کے بعد بھی جب افغانستان کی جانب انگلیاں اٹھیں تو پاکستان کے آرمی چیف نے ہی افغان صدر اور افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ کو فون کئے تھے۔ اس بیان بازی اور انداز ڈپلومیسی سے بین الاقوامی سطح پر یوں تاثر ابھررہا ہے جیسے افغان ایجنسیوں نے کوئٹہ میں وکلاء اور شہریوں کا قتل عام کروایا اور اب کابل یونیورسٹی میں طلباء اور دوسرے افغان شہریوں کو نشانہ بنا کر بدلہ چکا دیا گیا ہے۔
دونوں طرف سے بار بار یہ بیانات جاری ہوتے ہیں اور یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ ہم اپنی زمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن بیانات کی سیاہی خشک ہونے سے قبل زمین استعمال ہوجاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دونوں ممالک میں کچھ عناصر حکومتی کنٹرول سے ماوراء اور آزاد ہیں اور وہ حکومتی یقین دہانیوں کو پامال کرتے ہوئے من مانی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان عناصر کو’’را‘‘ کی سرپرستی حاصل ہے جو پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دہشت گردی میں مصروف رکھناچاہتی ہے تاکہ پاکستان کشمیر کی تحریک آزادی کی کھل کر حمایت نہ کرسکے اور نہ ہی پاکستان کے جہادی کشمیری حریت پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرسکیں۔ مطلب یہ کہ یہ قوتیں افغانستان اور اندرونی دہشت گردی میں پھنس کر رہ جائیں۔
ایم کیو ایم کے جلسے میں بذریعہ الطاف حسین پاکستان مخالف نعرے لگوانے میں بھی یہی حکمت عملی کار فرما تھی۔ بھارت پاکستان کو فقط یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں تو بھارت بھی پاکستان میں پاکستان مخالف نعرے لگوا سکتا ہے۔ ایک لحاظ سے اچھا ہوا کہ پاکستان دشمن بے نقاب ہوگئے، ان پر جو پردہ پڑا تھا وہ اٹھ گیا۔ میں کبھی کبھی حیرت سے سنتا اور پڑھتا ہوں کہ الطاف حسین کی پاکستان دشمنی اور نفرت عیاں ہونے کے باوجود لکھاری، سیاستدان اور میڈیا کے تجزیہ نگار ابھی تک الطاف بھائی کی رٹ لگارہے ہیں۔ کیا پاکستان سے نفرت کرنے والا اور پاکستان کو توڑنے کے ارادے برملا ظاہر کرنے والا آپ کا بھائی ہے؟ ڈاکٹر فاروق ستار کا تو وہ’’گاڈ فادر‘‘ ہے، قائد اور ذہنی رہنما ہے وہ الطاف حسین کو الطاف بھائی کہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن دوسرے حضرات کس رشتے کے حوالے سے الطاف حسین کو الطاف بھائی کہتے اور لکھتے ہیں؟ کیا میر جعفر و صادق کو بھی آپ جعفر بھائی اور صادق بھائی کہیں گے؟ مودی کو بھی مودی بھائی کہہ لیجئے کہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
تاریخ کا شعور اور فہم بتاتا ہے کہ ایم کیو ایم ہو یا فاروق ستار یا وسیم اختر یا ان کے باقی قریبی ساتھی، ان سب کی ذہنی تربیت اور پرورش الطاف حسین نے کی ہے۔ جو باتیں الطاف حسین کئی دہائیوں سے اندرون خانہ کہہ رہے تھے وہ اب’’ہز ماسٹرز وائس‘‘ نے برملا کہلوادیں۔ انسان یا تو خوف خدا کے تحت سچ بولتا ہے یا شراب کے نشے میں۔
سچ کی ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے نمک حلالی سچ۔ کبھی کبھی کروڑوں پونڈ کا کھایا ہوا نمک حلال کرنے کے لئے بھی سچ بولنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار سمجھدار انسان ہیں انہوں نے ایم کیو ایم پر پابندی سے بچنے کے لئے، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی میں نشستیں بچانے کے لئے فوراً پینترا بدلا اور ڈپٹی کنوینر نے اپنے آپ کو اپنے مستقل سربراہ، سیاسی و روحانی مرشد اور پارٹی کے ڈکٹیٹر سے خود کو الگ کرلیا۔ یہ حالات کا تقاضا تھا نہ کہ قلبی تبدیلی۔ چینی کہاوت ہے کہ جب طوفان آئے تو لچکدار شاخ کی مانند جھک جائو اور جب طوفان گزر جائے تو اپنی اصلی حالت میں آجائو۔ سیاست تہہ در تہہ منافقت اور مصلحت کا کھیل ہوتا ہے۔ نہ جانے کس کے مشورے پر’’مائنس ون‘‘ کے فارمولے پر بظاہر عمل ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس پارٹی کی سینیٹ، قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی میں اتنی نشستیں ہوں، اس پارٹی کی حکمرانوں کو بھی ضرورت ہوتی ہے اور خاص طور پر جب کچھ مخالف سیاسی پارٹیاں سڑکوں پر احتجاج کررہی ہوںاور حکمرانی کے لئے خطرہ بن رہی ہوں تو ایسے میں اتنی منظم سیاسی قوت کو پابندی کا نشانہ بنانے کی بجائے اس سے درپردہ مفاہمت زیادہ مفید ہوتی ہے۔
پاکستانی سیاست کی یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مہاجروں کی ایک بڑی تعداد پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی آباد ہوئی۔ یقین کیجئے کہ ان صوبوں میں مہاجر اور مقامی کی پہچان مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ سب پاکستانی اور بھائی بھائی ہیں۔ مہاجر اور غیر مہاجر کا کبھی کسی کو خیال تک نہیں آیا۔ پاکستان بنا تو بیوروکریسی، تجارت، بینکنگ غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں مہاجر نمایاں تھے بلکہ حکومت پہ غالب تھے۔ بھٹو حکومت نے کوٹہ سسٹم رائج کیا تو الطاف حسین نے لسانی بنیادوں پر معاشرے کو مستقل طور پر تقسیم کرکے معاشرتی زندگی کے بہتے دریا میں زہر گھول دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ شاید تلخی کم ہوجاتی اور نئے اور پرانے سندھی آپس میں سمجھوتہ کرلیتے لیکن الطاف حسین نے سیاست کی دکان چمکانے کے لئے نفرت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے انتقام میں بدل دیا۔
مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور لوٹ مار، سرکاری املاک پر قبضے اور میرٹ کی پامالی اسی انتقام کی حکمت عملی کا حصہ تھیں۔ طویل عرصے تک شہر یرغمال بنارہا، حکومت بے بس رہی اور لوگوں نے جانیں بچانے کے لئے ہجرت شروع کردی۔ اب بھی اگر بہادری سے انکوائریاں کی جائیں تو ایسے ایسے جرائم کا سراغ ملے گا جن کے تصور سے انسان کانپ جاتا ہے۔
طویل المدتی نقطہ نظر سے نفرت کی لکیروں کو مٹا کر اور لسانی سیاست کو ختم کرکے سارے گروہوں کو پاکستانی دھارے میں ضم کرنا ضروری ہے جس طرح پنجاب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوچکا ہے۔ الطاف حسین کے پیدا کردہ نفرت کے جزیروں کو جو کراچی اور حیدر آباد کے کچھ علاقوں تک محدود ہیں قومی دھارے میں لانا قومی مفاد کا تقاضا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ لسانی اور مقامی سیاسی پارٹیوں کو یہ صورت کبھی بھی قبول نہیں ہوتی کیونکہ قومی دھارے میں آنے سے ان کا ووٹ بینک ختم ہوجاتا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ ایم کیو ایم کراچی حیدر آباد سے باہر ملک کے دوسرے حصوں میں جڑیں نہ پکڑ سکی اور نہ ہی اے این پی قومی پارٹی بن سکی۔
اے این پی کبھی نیپ ہوتی تھی لیکن چونکہ غفار خان سے لے کر ولی خان تک سبھی نے پختونوں کی سیاست کی اور اسی تعصب یا رشتے کو سیاست کی بنیاد بنایا چنانچہ سابق صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں سے باہر ان کی جگہ نہ بن سکی۔ انگریز مصنف ڈائی ورجر کی کتاب’’سیاسی پارٹیاں ‘‘ایک تحقیقی مطالعہ ہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ لسانی، مقامی ،قبائلی وغیرہ قسم کی سیاسی پارٹیاں کبھی بھی قومی پارٹیاں نہیں بن سکتیں کیونکہ اس سے ان کی سیاسی بنیاد یا ووٹ بینک ختم ہوجاتا ہے۔ ان کی سیاست کی بنیاد ہی’’نفرت یا تعصب‘‘ پر ہوتی ہے۔ اس لئے خیال ذہن سے نکال دیجئے کہ کبھی ایم کیو ایم قومی پارٹی بنے گی یا قومی دھارے میں آئے گی یا الطاف حسین سے پوری طرح رشتہ توڑ ے گی۔ ہمارے پاس کوئی ایسی بصیرت افروز اور مقناطیسی قیاد ت نہیں جو معاشرتی تقسیم اور نفرت کی اس لکیر کو مٹا کر سب کو قوم کا حصہ بنالے جس طرح قائد اعظم کی قیادت میں ہوا تھا۔
تبصرہ لکھیے