مغرب کو اسلام کے بڑھتے اور پھیلتے اثر انگیز نرم انقلاب کی چبھن محسوس ہونی شروع ہوگئی ہے۔ اسی لیے اب جمہوریت اور اپنی اقدار کے نام پر شخصی ٓازادی کی نئی تشریحات بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ حجاب پر قدغن اس کی نمایاں مثال ہے، یعنی اب عوام یا دوسرے معنوں میں ریاست فیصلہ کرے گی کہ میں کیا لباس پہنوں؟
فرانس کی تنگ نظری تو اور عروج پر جا پہنچی جب وہاں کے عقلمندوں نے ساحل سمندر کا ڈریس کوڈ جاری کر دیا اور بتا دیا کہ کیا نہیں پہنناہے! شاباش ہے اس ذہنیت پر اور اس سے زیادہ شاباش ہے پاکستان میں مغربی نظریات کے اندھے مقلّدین اور این جی اوز پر کہ انسانی اور عورت کے حقوق کے نام پر واویلا کرنے کے لیے پاکستان میں خوردبین ہے کہ آنکھ سے نہیں ہٹتی لیکن جیسی انسان کی تذلیل یورپ کے جدید معاشرے میں ہو رہی ہے، اس پر ان کو ذرا ملال نہیں! شاید امداد کی قوت کا ہمیں اندازہ نہیں۔
تو مغرب سے سوال ہے کہ جناب اس بنیاد پر کہ کوئی طرز حیات ریاست کو پسند نہیں یا کچھ آپ کی اقدار کے خلاف ہے، آپ جب چاہیں کسی کا لباس قانون کی چھتری تلے اتروا سکتے ہیں، تو پھر اس اصول کو ایک بین الاقوامی اصول نہ بنا دیا جائے تاکہ ہر ریاست ایک قدم آگے بڑھ کر زیادہ عرق ریزی سے اپنی اقدار کی حفاظت کے پیرائے خود متعیّن کرے! کیا آپ ہمیں بھی ایسا کرنے کی اجازت دیں گے یا اقدار صرف آپ کی ہی برتر ہیں۔
اگر پاکستان کی ریاست اپنے مقتدر اعلیٰ (اللہ)کی ہدایت کی روشنی میں ستر کا شرعی قانون نافذ کرکے اسکرٹ اور تمام نیم عریاں لباس پر پابندی لگا دے تو آپ چیں بہ چیں تو نہ ہوں گے؟ ہمارا مطلب ہے کہ آپ کے نظریات کی ترویج کرنے والے جو آپ نے ہمارے درمیان رکھے ہوئے ہیں، کیا ان کو آپ یہ ڈائرکشن دے دیں گے کہ وہ ویسے ہی خاموش رہیں جیسے کہ فرانس میں ساحل سمندر پر پولیس کے ذریعے کپڑے اتروانے پر سب بیچارے اندھے، بہرے اور گونگے بن گئے تھے۔
دوستو، مغرب کے جدید نظریات سراب ہیں، تعصب پر مبنی ہیں۔ مغرب ہر معاملے میں دوہرے معیار پر عمل کرتا ہے، خواہ امن ہو یا جنگ، اولیّت اس کے مفاد اور نظریات کا تحفظ ہے۔ مغرب اسلام سے خوف زدہ ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ان کی ریاستیں کمزور نظریاتی بنیادوں پر ہیں۔ ہمیں بھی احساس کمتری سے نکل کر اپنی اقدار کا تحفظ کرنا چاہیے، خواہ مغرب کے دلدادہ کتنا ہی شور کریں۔
کیا ہم میں ایسی سکت اور جرات ہے؟ یا ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تبصرہ لکھیے