مولوی کی تنخواہ کے بارے میں مت پوچھیے جناب! آج کے زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ سستی ہے تو وہ ہے مولوی کی ذات اقدس، عالم ہو، حافظ بھی ہو، قرات بھی اچھی ہو، تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتا ہو. اور تنخواہ کتنی؟ بس حسب لیاقت وہی پانچ ہزار، مولوی اگر امام ہو تو اس کی ذات اور ہی سستی جو چاہے دوچار باتیں سنا دے، الیکشن میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دے تو امام نے رشوت لی ہوگی، نہیں دے تو گھمنڈ آگیا ہے، ہمارے مخالف نے خرید لیا ہوگا.
زنا کے خلاف جمعہ میں بول دیا تو نوجوان ناراض، رشوت خوری کے خلاف زبان کھولی تو سرکاری افسران چراغ پا، سود کی حرمت پر لب کشائی کی تو سرمایہ کار نے آستینیں چڑھائیں، فرض نماز کی اہمیت بتلائی تو آٹھ ( جمعہ ) کے نمازی ناراض، شراب نوشی کو چھیڑا تو ساقیان میخانہ کی دھمکی، نماز تھوڑی طویل ہوگئی تو امام صاحب سوجاتے ہیں، جلدی پڑھی تو مولانا ہڑبڑانے ہوئے ہیں، سیاست میں حصہ نہیں لیا تو مولوی ناکارہ ہے، انہیں کچھ نہیں آتا، اور اگر حصہ لے لیا تو دیکھو بک گیا ہوگا، میرے انگنے میں تیرا کیا کام ہے؟
چندہ کرکے بچوں کو پڑھائے تو بھیک منگا ہے، اپنی تجارت کرے تو علم کو ضائع کردیا، سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں گیا تو دیکھو سرکاری لقمہ خور بن گیا، مدرسہ میں پانچ ہزار پر کام کرے تو ارے اس کو بیٹی کون دے گا، موٹر سائیکل پر سوار ہو تو ضرور اس نے گھپلہ کیا ہوگا، پیدل چلے تو پھٹیچر ہے، غلط باتوں پر ٹوکے تو دقیانوس اور کٹرپنتھ ہے؛ نہ ٹوکے تو ساری خرابیوں کا ذمہ دار ہے، قیامت کی بات کرے تو ترقی کا دشمن، دنیا کی بات کرے تو دنیا داری آگئی.
بےچارے مولوی صاحب کو تقریر بھی سوچ کر کرنی پڑتی ہے کہ نہ جانے کون سی خرابی ہمارے سامعین میں ہو اور ان کو کچھ برا لگ جائے، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہم تنخواہ تو دیتے ہیں پانچ ہزار اور ہر پسماندگی اور کمزوریوں کا ٹھیکرا پھوڑتے ہیں مولوی کے سر، لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، آئی پی ایس افسران نے اپنی محنت سے اپنے ہی جیسا ایک بھی فرد بنانے کی ذمہ داری آج تک نہیں لی لیکن سینکڑوں اور ہزاروں افراد کو کم از کم اپنے جیسا بنادینے والے علمائے کرام کو امت کی ساری خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے.
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جن صاحب کی باتوں کا معمولی اثر ان کی بیگم پر بھی ظاہر نہیں ہوتا، جن کے غصے سے ان کے صاحبزادے بھی نہیں ڈرتے، وہ بھی مولویوں اور اماموں پر آنکھ غراتے نظر آئیں گے. اب قارئین ہی بتائیں کہ مولوی کی ان مشکلات کا حل کیا ہو؟
اکیسوی صدی کا سب سے مظلوم انسان
:
مسجد کا امام، مدرسے کا مدرس، مکتب کا قاری، حفظ قران کا استاد، اور مسجد کا موذن، یہ وہ لوگ ہیں جو اکیسوی صدی میں سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔۔۔۔۔۔ ان پر ظلم، صرف حکومت، ریاست، اہل خیر اور عوام نہیں نہیں کیا بلکہ مسجد کمیٹی کے ہڈ حرام ممبران، مدارس و جامعات کے بڑی توند والے مہتممین ، دینی سیاسی جماعتوں کے بہروپیا لیڈر وقائدین، دینی رفاہی اداروں کے حرام خوروں نے مل کر اس طبقے پر ظلم کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مختصر سی تحریر، بیچار مولوی کے حوالے سے محمد عمیر اقبال نے تحریر کی ہے۔۔۔۔پلیز دل سے پڑھیے گا، جعلی تقویٰ کی چادر اوڑھ کر اور نام نہاد مسلمانیت اور اکابرکی اندھی بلکہ گندھی تقلید کی عینک لگا کر نہیں پڑھنا۔۔۔۔۔۔بہر صورت
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟