جی ہاں! ظلم ہے اور اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ سیاست میں جرائم پیشہ ہیں ان سے چھٹکارا چاہیے۔ نئی پولیس چاہیے، نئی عدلیہ چاہیے‘ سیاسی جماعتوں کی تشکیل نو۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ بھارت سے مگر پاکستان کا کیا موازنہ۔
بھارتی اخبارات دیکھے جائیں تو شاید کچھ اور تفصیلات مل جائیں۔ تفصیلات سے مگر کیا حاصل۔ چھوٹی سی کہانی ہے مگر عبرت کی ایک پوری دنیا۔ اڑیسہ کے سرکاری ہسپتال میں دانا ماجھی کی بیوی نے دم توڑ دیا۔ روپیہ نہ تھا کہ ایمبولینس کا کرایہ ادا کر سکتا۔ کمبل میں نعش لپیٹ کر اس نے کندھے پر رکھی اور اپنے گائوں کی طرف چلا۔ سولہ کلومیٹر تک چلتا رہا تاآنکہ ایک ٹی وی چینل کو خبر ہوئی۔ انہوں نے گاڑی کا بندوبست کیا مگر اس سے پہلے فلم بنانے میں کوتاہی نہ کی۔چھوٹی سی کمسن بیٹی اس کے ساتھ روتی ہوئی بھاگتی جاتی تھی۔
یہ ہے بے درد بھارت کا اصل مکروہ چہرہ‘ ہمارے بعض لیڈراور دانشور جس کی مدح کرتے مرے جاتے ہیں۔ ہندوستان جاتے تو لوٹ کر آنے پر طرح طرح کی طلسمی کہانیاں سناتے ہیں۔ فکری بِھک منگے اور کھوکھلے۔ اس معاشرے کے باطن میں کم ہی جھانکتے ہیں جو آج کی دنیا میں‘ واحد بت پرست سماج ہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ ہمارے وزیراعظم اور وہ میڈیا گروپ بھی جو سب سے بڑا ہونے کا دعویدار ہے۔ ایک اعتبار سے پورا میڈیا ہی‘ خبرنامے مکمل نہیں ہوتے اگر کسی بھارتی فلم یا اداکارہ کاجلوہ نہ ہو۔
47 سال قبل 1969ء میں صحافت سے وابستہ ہونے کے لیے لاہور آیا تو تلخ تبصرے اکثر سننے میں آتے۔ ہندوئوں نے لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال بنایا‘ گنگا رام ہسپتال تعمیر کیا‘ مسلمانوں نے کیا کیا؟ پاکستان وجود میں آیا تو اس خطے میں فی کس آمدنی 80 ڈالر تھی اور بھارت میں 180 ڈالر۔ مسلمان غریب تھے۔ کاروبار سے وہ کبھی وابستہ ہی نہ تھے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان صدیوں پہلے انہوں نے بھلا دیا تھا کہ رزق کے دس میں سے نو حصے تجارت میں رکھے گئے۔ کاشتکاری کو انہوں نے شعار کیا یا سپاہ گری اور دوسری نوکریوں کو۔ نتیجہ اس کے سوا کیا نکلتا۔
قائداعظمؒ کے سارے قول سچے ہوئے۔ بار بار انہوں نے کہا تھا : پاکستان لامحدود وسائل کی سرزمین ہے۔ مسلمان کی سرشت میں آزادی ہے۔ ترکی اور ملائشیا کی طرح مواقع فراہم ہوں تو وہ کرشمے کر دکھاتا ہے۔ شرط وہی ہے کہ اجتماعی حیات میں ابدی اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ پاکستان جب تک مکمل طور پر شورش اور بدعنوان حکمرانوں کی گرفت میں نہ آ گیا‘ بھارت کے مقابلے میں اس کی شرح نمو زیادہ رہی۔ بعض اوقات دو سے تین گنا تک۔ 1988ء تک ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھلتے پھولتے رہے‘ تاآنکہ ہم نے اس جمہوریت کا مزہ چکھا‘ جس کے کرتا دھرتا سیاست کے نام پر تجارت کرتے رہے۔ لوٹ لوٹ کر ملک کی دولت ملک سے باہر بھیجتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف۔ اس اثنا میں بھارت نے جواہر لعل نہرو کے سوشلزم سے نجات پائی اور آزاد منڈی کی نعمت کا ادراک کر لیا۔ نوکر شاہی کی گرفت ڈھیلی کر دی گئی اور دوسرے ملکوں کے ساتھ لین دین کے دروازے کھول دیے۔
پاکستان کی کاروباری قوت کو پہلے بھٹو نے کچلا‘ پھر ان کی اولاد اور شریف خاندان نے۔ بینک‘ انشورنس کمپنیاں اور بڑی بڑی صنعتیں قومیائی گئیں۔ صرف بینکوں کو اچک لینے سے ملک کو 25ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ سماجی انصاف ‘جی ہاں انصاف ضروری تھا۔ اللہ کی زمین پر عدل سے بڑی کوئی سعادت نہیں‘ جہاں اس کے بادل برستے ہیں آسودگی کی فصل وہیں اگتی ہے۔ بھٹو نے عام آدمی کو آواز عطا کی۔ سیاست میں اس کے کردار کو فروغ دیا۔ مگر یہ کیوں ضروری تھا کہ کاروباری طبقے کی کمر توڑ دی جائے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائے بغیر کوئی معاشرہ آسودہ نہیں ہو سکتا۔ اس پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جیسا کہ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے کمال اختصار اور کمال بلاغت سے‘ مالک بن اشتر کے نام اپنے خط میں اشارہ کیا ہے۔
عرب کبھی تجارت کے سب اسرار سے آشنا تھے۔ ان میں سے ایک سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہا کہ مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر وہ گھوڑے پالنا چاہتا ہے ۔ فرمایا: ضرور‘ مگر مدینہ کا چارہ تم استعمال نہیں کر سکتے۔ اس نے احتجاج کیا اور اپنے حق کے لیے وہ احتجاج کرنے والے لوگ تھے۔ فرمایا: چارہ محدود ہے‘ ایک آدھ گھوڑا پالنے والا بیچارہ کیا کرے گا؟
بس اتنی سی ضرورت ہوتی ہے ‘کاروبار ہو یا سیاست‘ صنعت یا سرکاری و نجی دفاتر‘ نگرانی کے ایک چُست نظام کی۔ آزادی ہی میں صلاحیت پوری طرح جلوہ گر ہوتی ہے۔ آدمی میں مگر غلبے کی جبلت پائی جاتی ہے۔ بے مہار ہونے کی اسے اجازت نہ ملنی چاہیے۔ اس نکتے کا جس معاشرے نے ادراک کر لیا‘ کوئی چیزاس کے فروغ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مکمل آزادی اور پورا ڈسپلن‘ قانون کی حکمرانی‘ ایسی پولیس اور عدالتوں کے ذریعے جو حکمرانوں کے آلہ کار نہ ہوں۔
بے شمار الجھنوں اور پیچیدگیوں کے باوجود‘ جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ اقتدارپتھر دلوں کے قبضہ قدرت میں ہے‘ پاکستانی معاشرہ‘ بھارتی سماج سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہزاروں بھارتی کسان ہر سال خودکشی کرتے ہیں کہ قرض نہیں چکا سکتے اور بھوک مٹا نہیں سکتے۔ ہزارہا بھارتی عورتیں جنم لینے سے پہلے اپنے بچوں کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں شرح آمدنی بڑھ جانے کے باوجود دس کروڑ سے زیادہ بھارتی شہری فٹ پاتھوں پر پڑے ہیں۔ وہیں جنم لیتے‘ وہیں پروان چڑھتے اور وہیں مر جاتے ہیں۔ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا‘ ڈاک کا کوئی پتہ نہیں ہوتا‘ درحقیقت کوئی رشتہ اور ناتہ ہی نہیں۔ صرف دہلی میں ہر روز اوسطاً پچیس افراد بھوک سے مر تے ہیں۔ کیا پاکستان میں اس کا تصور بھی کیا جاسکتاہے۔ بہت سے مظلوم اور دکھی ہیں۔
دکھوںکا مداوا چاہیے‘ اندمال چاہیے۔ جاگیرداروں کے جبر سے انہیں نجات دلانی چاہیے۔ اورنج ٹرینوں اورجنگلہ بسوں پر سرمایہ برباد کرنے کے بجائے ، ایسے منصوبوں پر لگانا چاہیے جن سے ملازمتیں پیدا ہوں۔ اس جورو ستم کے باوجود جس کے ہم سب ذمہ دار ہیں، بھارت سے پاکستان کا کیا مقابلہ؟کسی بھوکے کو اورکہیں کھانا میسر نہ ہو تو داتاگنج بخشؒ، عبداللہ شاہ غازیؒ اور بری سرکارؒ کے مزارپر لازماً ہو گا۔ شوکت خانم ہسپتال عجب شان سے سر اٹھائے کھڑا ہے‘ گنگا رام جس کے ایک کونے میں سما جائے۔ ایک کے بعد دوسرا۔جنرل خداداد مرحوم کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے۔ نوے فیصد مریضوں کا مفت علاج کرنے والے الشفا ہسپتال کی سات سے زیادہ شاخیں کام کر رہی ہیں۔
لاہور کے ہسپتالوںمیں ہر مریض اوراس کے لواحقین کو بہترین کھانا مفت ملتا ہے۔ پورے احترام کے ساتھ ۔ اپنی غربت اور بیماری کو ہم بہت روتے ہیں۔ بجا کہ لمبے دانتوں والے ستمگر بہت ہیں۔ مگر تیسری دنیا میں کہیں اور بھی کوئی ایدھی فائونڈیشن پائی جاتی ہے۔ کہیں اور بھی کوئی اخوت پائی جاتی ہے، کوئی بھی شہری جس سے بلا سود قرض حاصل کر سکے۔ انسانی خدمت پرنوبل انعام اگر حقدار ہی کو دیا جاتا تو عبدالستارایدھی اورڈاکٹر امجد ثاقب کو بہت پہلے مل چکا ہوتا؛ اگرچہ اس سے وہ بے نیاز ہیں۔
بیس برس ہوتے ہیں،ڈاکٹر شعیب سڈل سے میں نے کہا: پاکستانی ہرسال 70 ارب روپے خیرات کرتے ہیں۔ پولیس افسر کی نگاہ سماج کی خرابیوں پر زیادہ ہوتی ہے۔ بولے: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عرض کیا: آغا خان فائونڈیشن کا جائزہ ہے۔ بعد کے برسوں میں تصدیق ہوتی گئی۔ اب یہ کم ازکم دس گنا ہے۔ بعد کے مطالعوں سے معلوم ہوا کہ دوسری اقوام کے مقابلے میں اہل پاکستان دوگنا زیادہ خیرات کرنے والے لوگ ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کے طفیل ، ان کے ایک کروڑ سے زیادہ غریب رشتہ دار قوت لایموت پاتے ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ رمضان المبارک میں دو کروڑ پاکستانیوں کے لیے افطار کا بندوبست ہوتا ہے۔
تیس برس ہوتے ہیں ممتاز بھارتی دانشور خشونت سنگھ نے لکھا تھا: پاکستان میں ڈرائیور کو ''بیٹا‘‘ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ تقریبات میں وہی کھانا اسے دیا جاتا ہے جو دوسرے مہمانوں کو۔ بھارت سے پاکستان کا کیا مقابلہ۔
جی ہاں! ظلم ہے اور اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ سیاست میں جرائم پیشہ ہیں ان سے چھٹکارا چاہیے۔ نئی پولیس چاہیے، نئی عدلیہ چاہیے‘ سیاسی جماعتوں کی تشکیل نو۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ بھارت سے مگر پاکستان کا کیا موازنہ۔
تبصرہ لکھیے