ہوم << ایم کیو ایم کا بحران، بلدیاتی انتخاب کا آخری مرحلہ - عبدالجبار ناصر

ایم کیو ایم کا بحران، بلدیاتی انتخاب کا آخری مرحلہ - عبدالجبار ناصر

People gather near a national flag during a ceremony to celebrate the country's 69th Independence Day at the mausoleum of Muhammad Ali Jinnah in Karachi, Pakistan, August 14, 2015. Jinnah is generally regarded as the founder of Pakistan. REUTERS/Akhtar Soomro

عبدالجبار ناصر متحدہ قومی موومنٹ کے قائدکی 22اگست کو ملک کے خلاف نفرت واشتعال انگیز تقریر نے جہاں پر خود متحدہ کو بحرانی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے، وہیں پر عوامی حلقوں میں بھی شدید اشتعال ہے۔ مبصرین کے مطابق متحدہ کے قائد نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں اپنی تقریر کے دوران ملک کے حوالے سے جو زبان استعمال کی ہے، وہ یقینا ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہے اور متحدہ کے اندر شدید خلفشار اور بے چینی کا باعث بھی بن رہی ہے، یہی وجہ ہے 23اگست کو ایم کیوایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے درجنوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں نہ صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ اور اس کے نتیجے میں میڈیا کے اداروں پر ہونے والے حملوں کی مذمت کی بلکہ لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ آئندہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد یا کسی اور کو اس طرح کی زبان یا اقدام کے لیے متحدہ کا فورم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بظاہر ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کا یہ اعلان عملاً الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار ہے، اور ایم کیو ایم میں اس طرح کا قدم اس کی30 سالہ سیاسی زندگی میں پہلی مرتبہ اٹھایاگیا ہے۔ ماضی میں درجنوں بار ایم کیوایم کے قائد قیادت سے خود ہی دستبرداری اور واپسی کا اعلان تو کرچکے ہیں، لیکن پاکستان کی قیادت کی جانب سے پہلی بار ایم کیوایم قائد کو اس طرح کے شدید ردعمل کا سامنا ہوا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس اور اس کے بعد موقف کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے پارٹی کی 30سالہ حکمت عملی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور قائد کی تقریر منفی اثرات اور عوامی رد عمل سے پارٹی کو بچانے کی کوشش کی ہے اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ پارٹی کے بانی اور قائد الطاف حسین ہیں لیکن اس وقت قانونی طورپر ایم کیوایم ڈاکٹر فاروق ستار کے نام رجسٹرڈ ہے، اس لیے قانونی محاذ پر ڈاکٹر فاروق ستار کی پوزیشن مستحکم ہے۔ ایم کیو ایم کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کا اقدام عوامی غصے کو کم کرنے کی کوشش ہے اور پارٹی کا مکمل کنٹرول اب بھی الطاف حسین کے پاس ہے۔ دوسری جانب ایم کیوایم کے بیشتر قائدین کا کہنا ہے کہ ہم ہر چیز برداشت کرسکتے ہیں لیکن ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے. یہی وجہ ہے کہ عملًا لندن سے ہدایت لینے کا عمل ترک کر دیا ہے تاہم موجودہ صورتحال میں ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے حامیوں کے لیے یہ آسان ہدف نہیں ہوگا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پارٹی میں اب بھی الطاف حسین کی گرفت کافی مضبوط ہے۔
اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ کراچی اور لندن کی قیادت نے اپنی اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی تو ایم کیوایم میں گروپ بندی ہوگی، فی الحال تو الطاف حسین کی جانب سے اپنی تقریر پر معافی نامے کے اجراء اور تمام اختیارات ڈاکٹر فاروق ستار کے سپرد کرنے کے اعلان نے تقسیم کے عمل کو ضرور روک لیا ہے، لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ کچھ رہنمائوں کا ردعمل اور کچھ کی خاموشی اسی بات کی دلیل ہے۔ اس ضمن میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عامر لیاقت کی پریس کانفرنس میں موجودگی کے باوجود دو گھنٹوں کے بعد پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان اور اب سخت موقف بھی اہم ہے. بعض مبصرین کے مطابق ڈاکٹر عامر لیاقت کو ایم کیو ایم میں اہم ذمہ داری ملنے کی امید تھی مگر ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے پارٹی پر عملاً کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب یہ بظاہر مشکل تھا، اس لیے وہ الگ ہوئے، جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان مردہ باد نعرے کا دفاع نہیں کرسکتے تھے، اور اب انھیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے خلاف نعروں نے ایم کیوایم کو ملکی سیاست میں ایک مرتبہ پھر صفر پر لاکھڑا کیا ہے، ایم کیوایم کے پاکستان میں موجود قائدین کو مشکلات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے، تاہم بیشتر رہنماؤں کی جانب سے بروقت اظہار لاتعلقی نے کشیدگی کوکسی حدتک کم کر دیا ہے۔ ایم کیوایم کے اندر یہ بحرانی کیفیت بلدیاتی سربراہوں کے انتخاب سے ایک دن قبل پیدا ہوئی مگر بلدیاتی نمائندوں پر اس کی گرفت مضبوط رہی اور ایم کیوایم نے سندھ کے شہری علاقوں میں کامیابی حاصل کرنے کی روایت برقرار رکھی ہے، اس عمل میں ایم کیو ایم کے دعوے کے مطابق ایک بھی نمائندے نے بغاوت نہیں کی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں کراچی کے ضلع غربی میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے مل کر مسلم لیگ (ن) سمیت 6جماعتی اتحاد کوشکست سے دوچار کر کے بڑا اپ سیٹ کیا جو بعد میں ووٹ مسترد ہونے سے ن لیگی امیدوار کی کامیابی میں بدل گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع غربی میں مسلم لیگ (ن) کے آصف خان چیئرمین اور تحریک انصاف کے عزیز اللہ خان آفریدی ’’کراچی اتحاد ‘‘کے امیدوار تھے اور ووٹوں کی گنتی تک دونوں ایک ساتھ تھے، جبکہ ن لیگ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم میں تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنماء اور عمران اسماعیل نے ڈیل کرائی تھی. یہ خبریں ایک ہفتہ قبل بھی میڈیا کی زینت بنی تھیں تاہم تحریک انصاف کراچی کے میڈیا کوارڈینٹر دواخان صابر نے اس کی تردید کی تھی۔ کراچی کا یہ واحد ضلع تھا جہاں پر اپوزیشن جماعتیں نہ صرف متحد نظر آرہی تھیں بلکہ انہیں عددی برتری بھی حاصل تھی،67 رکنی ایوان میں ایم کیوایم کے 32 اور ان کے مخالفین کی تعداد 35 تھی لیکن نتائج کے مطابق ایم کیوایم کو 36 اور مخالفین کو31ووٹ ملے۔ دلچسپ صورتحال جمعرات کو اس وقت پیدا ہوئی جب 25 اگست کو نشان زدہ 24 بیلٹ پیپرز کی جانچ پڑتال کے بعد ان تمام کو خلاف قانون قرار دے کر مسترد کر دیا گیا، اس طرح ایم کیو ایم کے اظہار الدین کے36 ووٹ کم ہو کر صرف12رہ گئے اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے آصف خان کو 31 ووٹ کے ساتھ کامیاب قرار دیا گیا. یہ کامیابی دراصل تحریک انصاف کے منہ پر طمانچہ تھا جس کے 4 ارکان نے متعدد بار حلف اٹھانے کے باوجود کراچی اتحاد سے خفیہ بغاوت کی۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سندھ اور کراچی کے بعض رہنماء بھی اس سازش میں شریک تھے۔ ان رہنمائوں کے ایما پر ضلع جنوبی میں مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر سلطان بہادر نے ’’کراچی اتحاد‘‘سے الگ ہوکر ایم کیوایم کے ٹکٹ پر ضلع لیبر کونسلر کی نشست حاصل کی مگر وائس چیئرمین نہ بن سکے، ان کے اس عمل نے پارٹی کو اپنے طور پر ایک ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن چیئرمین اور 2 وائس چیئرمینوں کے عہدوں بھی محروم کر دیا تھا مگر چیئرمین کی نشست ایم کیو ایم کے امیدوار کی حماقت کی وجہ سے واپس مل گئی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے کے باوجود آخری مرحلے پر بدترین شکست کا سامنا رہا۔
مجموعی طور پر دیہی سندھ میں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کلین سویپ کیا ہے اور کراچی میں بھی 8 میں سے تین اداروں کی سربراہی حاصل کی جبکہ کراچی کے دو ڈی ایم سیز میں وائس چیئرمین کی دو نشستیں حاصل کرکے تحریک انصاف نے بھی جگہ بنالی۔
دوسری جانب ضلع شکار پور سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ فنکشنل کے منتخب رکن اور وزیراعظم کے مشیر امیتاز احمد شیخ کی پیپلزپارٹی میں شمولیت نے بھی اپوزیشن کو سخت دھچکا پہنچایاہے، امیتاز احمد شیخ کا شمار سندھ کے سرگرم سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے لیکن مسلم لیگ فنکشنل نے عملاً انہیں مفلوج کر دیا تھا اور بالآخر مجبور امتیازاحمد شیخ نے کئی برس کے انتظار کے بعد علیحدگی اختیار کی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بعض حلقوں کے دعویٰ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کراچی سے تعلق رکھنے والی بعض اہم شخصیات پیپلزپارٹی میں شامل ہورہی ہیں. اس ضمن میں سابق رکن سندھ اسمبلی عرفات اللہ خان مروت کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔