’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی بات کرنے والے کیا ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا انجام بھول گئے؟ یا پھر سرخ انقلاب کے متلاشیوں کی طرح ’’سیکولرازم‘‘ کی آغوش میں پناہ لیتے ہوئے انھوں نے اپنا بیانیہ تبدیل کر دیا ہے؟ یا اسے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے بیانیے میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے اور جگہ بنانے کی کوشش سمجھا جائے؟ چند مہینے پہلے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کے بجائے ’’مذہبی نما سیکولرز‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ لیکن تب یہ فکر لاحق ہوئی تھی کہ کہیں علمی ’’خیانت‘‘ یا ’بیانیہ‘ موسم میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہوجاؤں۔
خورشید ندیم صاحب سے تعلق دوست سے بڑھ کر ایک استاد و شاگرد کا بھی ہے۔ کئی دفعہ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ہے، اور نقد و اعتراض کے ذریعہ کچھ موضوعات کو سمجھنے اور ان سے سیکھنے کی کوشش بھی ہے۔
لیکن گزشتہ کل جب انھوں نے اپنے کالم میں میں پاکستانی سیاست اور سیکولرازم کو ’’مقبول بیانیہ‘‘ قراردیتے ہوئے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تو حیرانی نہیں ہوئی بلکہ جس خدشہ کا اظہار کیا جارہا تھا ، وہ درست ثابت ہوا۔ رائے اور خیالات میں تبدیلی کا یہ عنصر جو ’’المورد‘‘ کے احباب کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے شاید کہ کہیں دوسری جگہ اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔ چاہے وہ 1973 کے آئین کے بعد مملکت کے ’’مسلمان‘‘ ہونے سے مذہبی سیاست نہ کرنے کا مشورہ دے کر بعد میں ریاست کو ’’بلامذہب‘‘ قرار دے دینا ہو یا جہاد کے اعلان و توہین رسالت و حدود کی سزائوں کو ’ریاست‘ کی اتھارٹی اور پابندی کے زمرے میں لا کر (اور اسی طرح ہونا بھی چاہیے) لیکن مسئلہ قادیانیت سمیت بعض دیگر امور کو ریاست و پارلیمنٹ کے دائرے سے نکال کر علماء و سکالرز کا معاملہ قرار دینا ہو۔ علی ہذا القیاس۔ خاکسار کو خورشید ندیم صاحب کی کئی دینی و مذہبی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا اہتمام کرنے کا موقع ملا، اور انھیں ایسے پروگرامات میں باصرار بلوایا جہاں دوسرے شرکاء کو اعتراض ہوتا تھا، کوشش یہی تھی کہ ان کی رائے کو سننے اور خیالات سے آگاہی کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ قربت کا کوئی راستہ نکل سکے۔ اس کوشش میں بسا اوقات احساس ہوتا تھا کہ کہیں احباب اور بزرگ میرے بارے میں کوئی خاص رائے قائم نہ کریں)
خورشید ندیم صاحب سے جب بھی گفت وشنید ہوئی یا ملاقاتوں اور پروگرامات میں سننے کا موقع ملا تو پاکستانی سیاست پر بات کرنے سے انہوں نے ’’تقریبا‘‘ احتراز ہی کیا، مذہبی جماعتوں کے مرکزی قائدین سے ملاقاتوں کے موقع پر ان کی گفتگو کا آغاز کچھ ایسا ہی ہوتا تھا کہ ’’میں سیاست کا نہیں بلکہ مذہب و سماجیات کا طالبعلم ہوں، اس لیے سیاست سے ہٹ کر تربیت و دعوت پر ہی بات کرسکتا ہوں‘‘ مگر مذکورہ کالم میں انھوں نے بلاول زرداری اور پاکستانی سیاست پر ’’ماہرانہ‘‘ گفتگو کی۔ (ویسے یہ بھی خوش آئند ہے کہ اسلامی سیکولرزم یا بلاول زرداری کی وجہ سے وہ سیاست کی طرف آئے اور کھل کر بات کی۔
خورشید ندیم صاحب سے پہلے ’اسلامی سیکولرازم‘ کا نعرہ جن معروف و غیر معروف چہروں کی طرف سے لگایا گیا ہے، ان سب نے اپنی نسبت بالواسطہ یا بلاواسطہ ’’المورد‘‘ یعنی جاوید احمد غامدی صاحب کی طرف کی ہے۔ اگر خورشید ندیم صاحب دبے لفظوں سے سیکولر بیانیہ کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر اسے ’اسلامی سیکولرازم‘‘ کا نام دے رہے ہیں اور کچھ اذہان کو ترغیب دینے کی بھی کوشش کررہے ہیں ، تو میری دانست کے مطابق یہ ان کی ذاتی رائے کم اور فکری سوچ و رائے ذیادہ ہے۔ اس وقت اہل مذہب کا وہ طبقہ جو سیکولرازم بیانیہ کا حامی اور بڑا وکیل نظر آتا ہے، ان میں خود جاوید غامدی صاحب اور ان کی فکر سے وابستہ افراد سب سے نمایاں ہیں۔ اس وجہ سے موصوف نے اپنے مضمون میں اسلامی بیانیہ (جسے انھوں نے سیاسی اسلام کا بیانیہ کہا ہے) کو ’’ناکارہ و نامکمل‘‘ قرار دینے کوشش کی نیز اسے ’دہشت گرد‘‘ تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بھی کہا۔
ایک طرف اسے ناکارہ سمجھتے ہیں اور مذہب کا بیانیہ علمی طور پر پیش کرنے والا انھیں پاکستان بھر میں کوئی فرد نظرنہیں آرہا تو دوسری طرف سیاست میں بیانیہ کو صرف ’دیوبند‘ تک محدود کر دیا جسے ابھی ان کا حتمی یا دوٹوک موقف قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ’یہاں‘ بھی تضاد نظر آرہا ہے۔
خلاصہ:
1 : خورشید ندیم صاحب سیکولرازم کے علمبرداروں کو ایک نیا نام و اصطلاح پیش کرنے اور اسے اسلامی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
2 : موصوف مذہبی جماعتوں کو مفلوج و اپاہج سمجتھے ہوئے مذہب کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے نا اہل سمجھتے ہیں۔
3 : وہ لوگ جو دینی و مذہبی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مذہب وسیاست کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں انھیں ایک نئی راہ دکھاتے ہوئے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کے سایہ میں پناہ لینے پر آمادہ کرتے ہیں۔
4 : ایک لحاظ سے اپنی سوچ اور فکر کے سرخیل کو مذہب کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے اہل اور موزوں سمجھتے ہوئے ان کےلیے ’’اعتماد سازی ‘‘ اور " ذھن سازی " کر رہے ہیں۔ واللہ اعلم
تبصرہ لکھیے