ہم بطور قوم عمومی طور پر حد سے زیادہ رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور جب بات ہو معاشرے کے سب سے حساس حصے اور ہم سب کی کمزوری، ہمارے بچوں کی تو اس پر شدید ردِعمل سامنے آنا ایک فطری بات ہے۔ اس بلا تصدیق ردعمل کی بنیادی وجہ میڈیا اور ہمارے اپنے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے ہر طرف بچوں کو اغوا کرنے والے گینگ دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومتی اداروں اور پولیس کی تمام تر تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسا کوئی ایک بھی منظم گروہ وجود نہیں رکھتا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس کے باوجود، صرف ریٹنگ کے حصول کے لیے عوام کو خوفزدہ کرنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے اور گزشتہ تین ہفتوں میں میڈیا بچوں کے اغوا سے متعلق 70 ایسے واقعات نشر کر چکا ہے جو تحقیق کرنے پر جھوٹے ثابت ہوئے، بلاتحقیق کوئی بھی خبر صرف ’’Breaking News‘‘ کے چکر میں چلا دینا صحافتی اقدار کے سراسرمنافی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں عوام میں بھی افواہیں پھیلانے کا رحجان بہت زور پکڑ چکا ہے اور تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور سنگاپور کے اغوا شدہ بچوں کی تصاویر پاکستانی بچے ظاہرکر کے جذباتی تبصروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے عوام میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ کے احساسات کو فروغ دیا ہے جو کہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام غم و غصے کی کیفیت میں پنجاب میں 20 کے قریب معصوم شہریوں کو صرف شک کی بنیاد پہ زد و کوب کر چکے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ عوام کے سڑکوں پر عدالتیں لگانے کے نتیجے میں تشدد کا نشانے بننے والے ان متاثرین میں خواتین، بچے اور فاترالعقل افراد بھی شامل ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسے واقعات میں انھی بچوں کے والد، والدہ اور رشتے دار بھی تشدد کا نشانہ بنے جن کے اغوا کے شبہ پر تشدد کیا گیا۔ رواں ہفتے ملتان میں اسی ظلم و ستم کا شکار ایک خاتون عوامی عدالت سے کھائے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ پنجاب سے نکل کراب یہ ’’ٹرینڈ‘‘ سندھ میں جا پہنچا ہے، خدا سندھ سمیت ملکِ پاکستان کے حال پر رحم کرے۔
دوسری طرف بچوں کے اغوا کے ساتھ منسلک کی جانے والی اعضاء کی تجارت کی باتیں طبی ماہرین کے مطابق درست نہیں ہیں کیونکہ عملی طور پر ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک تو بچوں کے اعضا منتقلی کے لiے mature نہیں ہوتے، پھر ٹشو میچنگ بھی ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے بغیر اعضاء کی پیوند کاری ممکن نہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ عمل انتہائی ماہر سرجنز کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اور اس عمل کے لیے اس قدر ماڈرن ٹیکنالوجی سے مزین ہسپتال درکار ہیں کہ پاکستان میں صرف دو سے تین ایسے جدید ادارے قائم کیے جا سکے ہیں۔ یہ بات بھی زبانِ زدِ عام ہے کہ اعضاء نکال کر محفوظ کر لیے جاتے ہیں اور بیرون ملک بھیج دیے جاتے ہیں، اس بات میں بھی کوئی سچائی نظر نہیں آتی کیونکہ انسانی اعضاء کو جسم سے الگ کر کے زیادہ وقت کے لیے قابلِ استعمال رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
درحقیقت یہ مجرمانہ سے زیادہ ایک پیچیدہ سماجی و معاشی مسئلہ ہے جس کے تدارک کے لیے بچوں کے تحفظ کی ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے جن میں گمشدہ رپورٹ کیے گئے بچوں نے خود گھر چھوڑا جبکہ حقیقتاََ اغواء ہونے والے بچوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بلاشبہ معصوم پھولوں کا کسی بھی مقصد کے لیے اغوا کیا جانا ایک قبیح عمل ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک ایسی جھوٹی کمپین چلائی گئی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے اور اس میں بلا سوچے سمجھے ہمارے میڈیا، سوشل میڈیا صارفین اور عوام کا کود جانا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ حقائق یہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی تعداد پہلے سے کم ہوئی ہے مگر تاثر یہی دیا جا رہا ہے جیسے ان واقعات میں ایک دم سے شدت آ گئی ہو۔
ساری دُنیا میں بچوں کی گمشدگی ایک سنگین مسئلہ ہے، ہمارا روایتی حریف بھارت خیر سے یہاں بھی ہم سے’’ آگے‘‘ہے۔ انڈین وزارتِ داخلہ کے مطابق بھارت میں گمشدہ بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد سالانہ ہے۔ 2013ء میں 34,244 بچوں کے مقابلے میں 2015ء میں 62,988 بچوں کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا، جو تین سال کے دوران بچوں کی گمشدگی میں 84% اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی آبادی کے تناسب کو جواز بنائیں تو ہمیں چین کی مثال مدنظر رکھنی چاہیے جو کہ آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور چینی سرکاری ذرائع کے مطابق گمشدہ بچوں کی تعداد 10,000 سالانہ کے قریب ہے۔ گمشدہ بچوں سے متعلق جرمن گورنمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی جاتی ہے، اسی طرح اِٹلی میں ہر سال پولیس کو گمشدہ بچوں سے متعلق 3000 سے زائد درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ اس وقت حکام کے مطابق برطانیہ میں 226، جنوبی کوریا میں 196 جبکہ کینیڈا میں 153بچے لا پتہ ہیں۔ اور تو اور دُنیا کی سُپر پاور امریکہ، جس کی ہم بات بات پہ مثال دیتے نہیں تھکتے، بھی اس گھمبیر مسئلے کا شکار ہے اور یہاں لاپتہ بچوں سے متعلق کی جانے والی رپورٹس کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ امریکی وفاقی ادارہ برائے تحقیقات (FIA)کے مطابق نیشنل کرائم اِنفارمیشن سنٹر میں2015ء میں گمشدہ بچوں سے متعلق 4,60,699 اندراج ہوئے، اسی طرح 2014ء میں یہ تعداد 4,66,949 تھی۔
یہ معلومات شاید ہمارے ان دوستوں کے لیے شاید ایک دھچکا ثابت ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ’’انّی‘‘ پڑی ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2011-2016 کے دوران پاکستان میں کُل 6793 بچوں کی گمشدگی رپورٹ کی گئی جس میں سے 6692 بچے تلاش کر لیے گئے یا وہ خود واپس گھر آگئے۔ یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 98% بچے واپس مل گئے ہیں اور101بچے ابھی تک ایسے ہیں جن کا سُراغ نہیں لگایا جا سکا۔ 2015ء میں اغوا برائے تاوان کے 23 کیسز سامنے آئے جن میں 24 بچوں کو اغوا کیا گیا، ان میں سے21 بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا۔ اس سال جولائی کے مہینے تک ایسے 4 کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور تمام 4 اغوا شدگان کو بازیاب کرا لیا گیا۔ اگر تنقیدی عینک ذرا دیر کے لیے اتار کر ان اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ کارکردگی بہترین قرار دی جا سکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی کا نفاذ عمل میں لائے۔ اداروں کے مابین معلومات کی تبدیلی کا نظام بہترکیا جائے اور عوامی آگاہی کی مہم چلائی جائے تاکہ عوام کو خوف، ہیجان اور پریشانی کی کیفیت سے نکالا جا سکے۔ معصوم شہریوں کو بلا تحقیق و تصدیق اغوا کار قرار دے کر تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی جاری رہنی چاہیے تاکہ لوگ اس کی آڑ میں ایک دوسرے سے اپنی ذاتی دُشمنیوں اور عداوتوں کا بدلہ نہ لیتے رہیں اور امنِ عامہ کی صورتحال میں بگاڑ کا باعث نہ بنیں۔ قانون کو قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں میں ہی ہونا چاہیے نہ کہ عوام کے۔
تبصرہ لکھیے