چھوٹے میاں صاحب ایک بے چین روح ہیں. اکثر ہوا کے گھوڑے پر سوار دگڑ دگڑ کرتے نظر آتے ہیں. مصروف اتنے کہ مسکرانے کی فرصت بھی نہیں پاتے. ابھی بھی چھوٹے میاں صاحب اپنا روایتی کوٹ پہنے بذریعہ ہیلی کاپٹر جنوبی پنجاب کے کسی گائوں کی طرف محو سفر ہیں، جہاں اُنھیں کسی یتیم بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کے چند ٹسوے بہانے ہیں، اور کچھ جونیئر پولیس اہلکاروں کو معطل کرنا ہے. ہیلی کاپٹر میں میاں صاحب کے علاوہ کچھ مشیر اور درباری صحافی بھی موجود ہیں.
نیند کی کمی اور تھکاوٹ کی زیادتی کی وجہ سے میاں صاحب کی آنکھیں بند ہو رہی ہیں اور سر ہچکولے کھا رہا ہے. جلد ہی میاں صاحب گہری نیند میں چلے جاتے ہیں. باہر بیٹھ کے درباریوں اور خوشامدیوں کے منہ دیکھنے سے بہتر ہے کہ ہم بھی چھوٹے میاں صاحب کے خواب میں جا کے دیکھیں کہ اندر کیا سین چل رہا ہے. آپ میرا ہاتھ تھامے رکھیں اور آنکھیں، دونوں ہاتھوں کی مھٹیاں بند نیز دائیں والی ٹانگ ہلانے سے پرہیز کیجے گا، ورنہ منتر الٹا بھی پڑ سکتا ہے.
اب ہم میاں صاحب کے خواب میں ہیں. ہم فضاوٴں میں اُڑ رہے ہیں. میاں صاحب کے یہ لمبے لمبے پر نکل آئے ہیں اور پورا جسم شاہین کی شکل اختیار کر چکا ہے. میاں صاحب کسی پرندے کی طرح ہی اپنے پروں کو حرکت دیتے ہوئے نیچے موجود شہر کا بغور جائزہ لے رہے ہیں.
یہ کون سا شہر ہے میاں؟ پیرس لگتا ہے، کیا پیرس میں بھی چوبرجی ہے؟ اور وہ بانس سا تو بالکل مینار پاکستان کی طرح کا لگ رہا ہے. شہر میں ہر طرف پُل ہی پُل اور فلائی اوور، انڈر پاسیز کا جال بچھا نظر آ رہا ہے. جن پر ان گنت رنگ برنگی دوڑتی میٹروز یہاں سے سانپوں کی طرح نظر آ رہی ہیں. شہر بہت ہی صاف ستھرا اور خوبصورت لگ رہا ہے. لگتا ہے میاں صاحب لینڈنگ کی تیاری کر رہے ہیں کیوں کہ انھوں نے اپنے پروں کو حرکت دینا بند کر دی ہے. جلد ہی ہم شہر کے بیچوں بیچ ایک نہر کے کنارے بحفاظت اترنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. نہر میں پانی کے بجائے ایک طرف دودھ اور دوسری طرف شہد بہہ رہی ہے. میاں صاحب چلو بھر کر باری باری دونوں کی کوالٹی چیک کرتے ہیں اور مطمئن ہو کر آگے بڑھ جاتے ہیں.
شہر کا امن مثالی لگ رہا ہے. سامنے سے ایک نوجوان نوٹوں کی گڈیاں لاپرواہی سے اچھالتا چلا آ رہا ہے. چھوٹے میاں صاحب انگلی کے اشارے سے نوجوان کو روکتے ہیں اور اس سے نوٹ لے کر چیک کرتے ہیں، بڑے نوٹوں پر بڑے میاں صاحب کی اور چھوٹے نوٹوں پر چھوٹے میاں صاحب کی تصویریں لگی ہوئی ہیں. پچاس روپے کے نوٹ پر حمزہ شہباز اور دس روپے والے نوٹ پر مریم نواز کی. میاں صاحب مطمئن ہو کر نوجوان کو جانے کی اجازت دے دیتے ہیں.
منظر بدلتا ہے، میاں صاحب سٹیج پر موجود ہیں، سامنے انسانوں کا ایک سمندر موجود ہے جو میاں صاحب کی تقریر کا منتظر ہے. ڈائس پر ایک مشین سی پڑی ہے جس میں سے ایک مائک کا سر نظر آ رہا ہے. میاں صاحب تقریر شروع کرتے ہیں، مجمع کا جوش خروش عروج پر ہے، زندہ باد کے نعروں اور تالیوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی. میاں صاحب ہر فقرے کے اختتام پر مائک کو ایک جانپڑ رسید کرتے ہیں جس سے مائک دور جا گرتا ہے اور مشین میں سے ایک نیا مائک برآمد ہو جاتا ہے.
منظر بدلتا ہے، میاں صاحب ایک تھانے میں انسپکڑ کی وردی میں ملبوس لوگوں کے مسائل سُن رہے ہیں، پیچھے دیوار پر بڑے میاں صاحب کی تصویر ٹنگی ہے. منظر بدلتا ہے، چھوٹے میاں صاحب پٹواری کے حلیے میں لوگوں کو رجسڑوں میں سے زمینوں کی فرد نکال نکال کر دے رہے ہیں. منظر بدلتا ہے، میاں صاحب کنڈیکٹر کی یونی فورم میں گولڈن ییلو میزائل ٹرین کے ٹکٹ کاٹ کر دے رہے ہیں. منظر بدلتا ہے، میاں صاحب لانگ شوز پہنے گندے پانی میں گھسے ہوئے ہیں اور وائپر سے پانی نکال رہے ہیں. منظر بدلتا ہے، یہ کسی شادی ہال کا منظر ہے جس میں دلہا دلہن اور کچھ خاص مہمان نکاح کی تقریب میں شریک ہیں، دولہا کے چہرے پر سہرا ہے. اس منظر میں میاں صاحب نظر نہیں آ رہے. منظر بدلتا ہے، یہ کسی عروسی خواب گاہ کا منظر ہے، بیڈ پر دلہن گھونگٹ نکالے بیٹھی ہے، کمرے کا دروازہ کھلتا ہے، میاں صاحب شیروانی کے بٹن کھولتے کمرے میں داخل ہوتے ہیں، ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہے. میرا خیال ہے کہ اب ہم میاں صاحب کے خواب سے نکل کر واپس ہیلی کاپٹر میں چلتے ہیں.
تبصرہ لکھیے