مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کی تشکیلِ نو،آج مسلم سماج کو درپیش سب سے اہم فکری مسئلہ ہے۔
ہم ایک مدت سے اس کے لیے صدا لگا رہے ہیں۔پاکستان میں اس کی تفہیم نہیں ہو سکی۔اگر ہوئی ہے تو تونس میں۔راشد غنوشی بلا شبہ 'پوسٹ اسلام ازم‘ کی سب سے توانا آواز ہیں جنہوں نے اس بات کا ادراک کیا۔چند ماہ پہلے بھی میں نے اس جانب توجہ دلائی تھی۔حسبِ توقع کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا کہ ہمارے ہاں سنجیدہ مباحث کی روایت ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکی۔اگر کسی نے تبصرہ کیابھی تواس کی گہرائی کو سمجھے بغیر۔بات پہلے بھی واضح تھی مگر اب راشد غنوشی صاحب نے، ایک بار پھر، بغیر کسی ابہام کے، یہ بات دواور دوچار کی طرح بیان کر دی ہے۔میں جو باتیں دو عشروں سے لکھ رہا ہوں، مجھے اپنی ایک ایک بات کی صدائے بازگشت راشد غنوشی کے مضامین اور خطبات میں سنائی دے رہی ہے۔
راشد غنوشی تیونس کی اسلامی تحریک'النہضہ‘ کے فکری قائد ہیں۔1970ء کی دہائی میں برپا ہونے والی یہ تحریک اُسی فکر کی نمائندہ تھی جسے آج 'سیاسی اسلام‘ کہا جا تا ہے۔مئی2016 ء کے سالانہ اجتماع میں، اس تحریک نے نئے دور کا آغاز کیا اور'سیاسی اسلام‘ سے اعلانیہ اظہارِ برأت کیا۔ 'فارن افیئرز‘ کے تازہ شمارے (ستمبر اکتوبر)میں راشد غنوشی کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔اس میں انہوں نے اس فیصلے کاپس منظر بیان کیا اور یہ بھی بتایاہے کہ اس تشکیلِ نو کی نوعیت کیا ہے۔
غنوشی کا کہنا ہے کہ اب وہ کوئی 'اسلامسٹ تحریک‘نہیں ہیں۔ان کی نئی شناخت'مسلم ڈیموکریٹس‘ ہے۔'النہضہ‘ اب 'اسلام ازم‘ کی شناخت کو قبول نہیں کرتی(The party no longer accepts the label of "Islamism")۔ہمارا مقصد مذہبی اور سیاسی دائروں کو جدا کر نا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کو مذہب کی نمائندگی کا دعوے دار نہیں ہونا چاہیے۔مذہبی سرگرمیوں کو سماج کے ایسے ادارے منظم کریں جو غیر جانب دار ہوں۔ سادہ لفظوں میں مذہب کو سیاست میں فریق نہیں بننا چاہیے۔مسجد کو تقسیم کا نہیں، وحدت کا مرکز ہو نا چاہیے۔ایک خطیب یاامام مسجد کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہو۔اسے دینی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی بہتر طور پر ادا کر سکے۔
راشد غنوشی کے نزدیک مذہب اور سیاست کی یہ جدائی اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت عوام کا مذہبی استحصال نہ کر سکے۔اس سے مذہبی اداروں کی آزادانہ حیثیت بحال ہو گی اور مذہب سیاست کے حصار سے نکل آئے گا۔اس علیحدگی سے، انتہا پسندی سے نمٹنا بھی آسان ہو جائے گا۔اس فکری تبدیلی کاپس منظر بیان کرتے ہوئے،غنوشی یہ کہتے ہیں کہ النہضہ نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر تیونس کو ایک جمہوری مملکت بنانے کی کوشش کی۔سیاسی وحدت کے لیے اقتدار کو قربان کیا۔اب ہم نے ملک کو ایک نیا آئین دے دیا ہے جس میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔اس متفقہ آئین کے لیے النہضہ اس مطالبے سے بھی دست بردار ہوگئی کہ شریعت کو بطورماخذِ قانون تسلیم کیا جا ئے۔
اب تیونس ایک جمہوری ملک ہے۔آئین مذہبی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔اس لیے تیونس میں کسی مذہبی سیاست کی ضرورت نہیں۔ دعوتِ دین اورآخرت کا انذاراب ہمارے مقاصد میں شامل نہیں۔اس کام کو غیر سیاسی انداز میں منظم ہو نا چاہیے۔بطور سیاسی جماعت ہماری دلچسپی روز مرہ معاملات سے ہے۔یہ عوام کی بھلائی اورخو ش حالی کے کام ہیں جو ہمیں کر نے ہیں۔اس کے لیے ضرورت ہے کہ 'پرجوش کیپیٹل ازم‘ (Compassionate Capitalism)کے وژن کے تحت معاشی مکالمہ کیا جائے۔اسی طرح گورننس اور کرپشن جیسے مسائل کو حل کیا جا ئے۔راشد غنوشی کے نزدیک اس جمہوریت کو کامیاب بنانے کے لیے سماجی تبدیلی ناگزیر ہے۔اس ضمن میں وہ خواتین کے کردار کی بطورِ خاص بات کرتے ہیں،جن کی سیاسی،سماجی اور معاشی عمل میں موثرشرکت کے بغیر ،جمہوریت نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔
راشد غنوشی اور النہضہ نے سوچا، غور وفکرکیا ،اپنا احتساب کیا اور برسوں کی ریاضت کے بعد،اپنے طرزِ عمل ہی کونہیں،فکر کو بھی تبدیل کیا۔اس وقت شاید تیونس مشرقِ وسطیٰ کاواحد ملک ہے جو کسی سیاسی و معاشی اضطراب کے بغیر ایک نئی راہ پر چل نکلا ہے اور یہ معاشرہ بڑی حد تک اس فساد سے محفوظ ہے جو پورے خطے میں برپا ہے۔اس کا کریڈٹ 'النہضہ‘ کو جاتا ہے۔اس کے پاس بھی یہ متبادل مو جود تھا کہ وہ ریاست اور مخالف سیاسی جماعتوں سے مخاصمت اورتصادم کا راستہ اختیار کر تی۔اس نے ایسا نہیں کیا۔اپنے لیے نئے راستے تلاش کیے، بنیادی امور پر مفاہمت کی اور اس کے ساتھ ملک اور عوام کے جان و مال کوبھی محفوظ بنایا۔
ہم اس ملک میں برسوں سے یہ صدا لگار ہے ہیں۔استادِمحترم جاوید احمد غامدی صاحب نے کئی سال پہلے لکھا تھاکہ دعوت،علمی تحقیقی اور سیاسی کاموں کو الگ الگ منظم ہو نا چاہیے۔ کم وبیش بیس سال پہلے، ایک نو خیز لکھائی کے طور پر، میں نے یہ مقدمہ اپنی پہلی کتاب'اسلام اور پاکستان‘ میں پیش کیا۔اس کے ابواب ماہنامہ 'اشراق‘ میں شائع ہو چکے تھے۔جب یہ مضمون شائع ہوا تو ہمارے بزرگ نعیم صدیقی مرحوم نے اس پر شدید تنقید کی اور اسے بربادی کا راستہ قرار دیا۔میں گاہے گاہے اس قصہ پارینہ کو اپنے کالموں میں دہراتا رہا جب حالات نے اس کے لیے کوئی شہادت فراہم کی۔مثال کے طور پرمیں نے بار لکھا کہ 1973ء کے آئین کی موجودگی میں،پاکستان میں مذہبی سیاست کی ضرورت باقی نہیں رہی۔اس سے مذہبی استحصال وجود میں آتا ہے۔
ناقدین نے اسے دین و سیاست کی جدائی قرار دیا۔آج کل اسے سیکولرازم سے منسوب کیا جا تا ہے۔دراصل یہ نہ دین اور سیاست کی جدائی ہے اورنہ سیکولرازم۔یہ ایک طرف نئی فکری تعبیر ہے اور دوسری طرف نئے لائحہ عمل کی دعوت ہے۔تعبیر اور لائحہ عمل دونوں حالات کے تابع ہو تے ہیں۔نئے حقائق تفہیمِ نو کے متقاضی ہوتے ہیں۔جو بات راشد غنوشی جیسے اہلِ فکر نے سمجھی وہ دنیا میں آنے والی جمہوری تبدیلی ہے۔انسانی فکر میں آنے والی یہ ایسی ہی ایک تبدیلی ہے جیسی سائنس کی دنیا میں نئے ذرائع ابلاغ کی آمد۔انٹر نیٹ نے جس طرح ابلاغ کی دنیا کو بدل دیا، اسی طرح جمہوریت نے انسانی تہذیب کو ایک نئے رخ پر ڈال دیاہے۔آزادیٔ رائے کے کلچر نے دنیا کو فطرت سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔خدا کا قانونِ آزمائش بھی اگر کسی عہد میں پوری طرح ظہور کرتا ہے تووہ آزادی فکر وعمل کا عہد ہے۔اسلام کی دعوت بھی اگر پھیل سکتی ہے تو جمہوری ماحول میں۔
یہی نہیں،نئے سیاسی ، سماجی ا ور معاشی اداروں کی تشکیل نے بھی انسانی سماج کو یکسرتبدیل کر دیا ہے۔کسی فکر کی بقا کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کونئی تبدیلیوں سے ہم آہنگ بنائے۔النہضہ نے یہ بات جان لی ہے کہ فکری تبدیلی کا تعلق ریاست سے نہیں ،سماج سے ہوتا ہے۔انہوں نے مذہب کا راستہ نہیں چھوڑا۔انہوں نے یہ جانا ہے کہ مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا جائے تاکہ وہ فطری انداز میں پنپ سکے۔جب وہ ریاست سے متعلق ہو گا تو ریاست اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے گی۔اس بات کا شعور تیونس سے زیادہ پاکستان کے مکینوں کو ہوناچاہیے جو مذہب کے سیاسی اور ریاستی استعمال کے نتائج تین دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔
یہ لازم نہیں کہ ہم راشد غنوشی صاحب کے ہر نتیجہ فکر سے اتفاق کریں۔تاہم میرا خیال ہے کہ انہوں نے نئی تبدیلیوں کا درست ادراک کیا ہے۔اگر عالمِ اسلام کی دوسری اسلامی تحریکوں نے راشد غنوشی صاحب کی طرح ،اپنے فکر اورحکمتِ عملی کی تشکیلِ نو نہ کی تو ان سے وابستہ نو جوانوں کی فطری منزل داعش جیسی تنظیمیں ہیں۔ النہضہ نے اپنے نو جوانوں کو اس خطرے سے محفوظ کر لیا ہے۔
تیونس افریقہ کاملک ھے.