600x314

آئینے کا مکالمہ اور صحافت کی اصل پہچان – سلمان احمد قریشی

اخبارات اور سوشل میڈیا پر شیخوپورہ اور گوجرانوالا پریس کلبز میں اختلافات اور گروپنگ کی خبریں عام تھیں اسی دوران اوکاڑہ پریس کلب ایک مرتبہ پھر سیل ہوگیا۔اگر چہ پریس کلب عدالتی فیصلہ پر ڈی سیل بھی ہوجاٰئے گا لیکن یہ سوال موجود رہے گا کہ پریس کلب سیل کیوں کیاجاتا ہے؟

کیا انتظامیہ ایکشن لینے میں جلدبازی کرتی ہے یا ہم حالات کو اس نہج تک لے جاتے ہیں کہ یہ فیصلہ لینا مجبوری بن جاتا ہے۔اوکاڑہ پریس کلب کی رجسٹریشن بھی منسوخ ہو چکی ہے اورکلب میں تنازعہ گزشتہ آٹھ سال سے جاری ہے۔ اختلافات اتنے شدت اختیار کر چکے ہیں کہ مقدمات کے اندراج کے بعد کلب کے آئینی معاملات کو لے کر مختلف کیسز عدالتوں کے در و دیوار پر دستک دے رہے ہیں۔ لیکن اصل المیہ قانونی پیچیدگی نہیں بلکہ وہ رویے ہیں جو اس ماحول کو مزید مکدر کر رہے ہیں۔ ایسے رویے کہ جن میں طنز، طعن اور فقرے بازی کرنے والے وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا صحافت سے کبھی کوئی تعلق نہ رہا، نہ ہی سماج میں وہ اپنی کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔

آج کل فیک شناختوں کے پیچھے چھپے ہوئے افراد سوشل میڈیا پر اپنی غلاظت انڈیلنے میں مصروف ہیں۔ ان کی رائے کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اندھی گلی میں بیٹھ کر سورج کی روشنی پر تبصرہ کرے۔ جب روشنی دیکھنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو تبصرہ محض شور و غوغا بن جاتا ہے۔ صاحبِ کردار انسان کبھی دوسروں کی عزت اچھالنے کے لیے نقاب نہیں اوڑھتا۔ لیکن احساسِ جرم ہی ان چہروں کو مجبوری میں نقاب پہننے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی رویہ ہماری سیاست میں بھی نمایاں ہے۔ کچھ کردار ایسے ہیں جو برسوں سے اپنے آقاؤں کی چاپلوسی میں جتے ہوئے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ وہ آقا بھی انہیں کبھی دل سے تسلیم نہیں کرتے۔

وہ بکتے ہیں، بھونکتے ہیں، مگر پذیرائی نہیں پاتے۔ ان کی حیثیت کبوتر خانے میں قید اس پرندے جیسی ہے جو چاہے جتنا پر پھڑپھڑائے، آزاد فضاؤں میں پرواز کے قابل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ سب جانتے بوجھتے بھی اس معاملے میں پارٹی بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی سوچ سطحی اور بصیرت وقتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی مثال شاہ ڈولے کے چوہوں سے کم نہیں جو اپنے دماغی خلا کے باعث ہمیشہ دوسروں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ایک اور ٹولہ ایسا ہے جو صحافت کرنا نہیں چاہتا، مگر ”صحافی” کہلوانے کا خواہش مند ہے۔ یہ اسٹیج پر کھڑے پرفارمرز ہیں جو فلمی ہیروئن کے پیچھے آہو آہو کرتے ناچتے ہیں۔

یہ شور و غوغا مچاتے ہیں، کچھ کو معمولی معاوضہ نصیب ہوتا ہے، کچھ کو پہچان بھی نہیں ملتی۔ مگر تالیوں کے سراب میں یہ رقص ختم نہیں ہوتا۔ یہ پرفارمنس ایسی ہے جیسے لوہار کی بھٹی کے سامنے بجنے والی دھونکنی،شور بہت مگر خود روشنی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اس سارے شور شرابے اور الزام تراشی کے پیچھے اصل مقصد ناجائز قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں، مگر صحافت کے مستقبل کا فیصلہ صرف عدالتوں کے کمرے میں نہیں نکل سکتا۔ صحافی برادری کو اجتماعی بصیرت سے یہ طے کرنا ہوگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کالی بھیڑوں کو صفوں سے الگ کیا جائے جو صحافت کی آڑ میں کاروبار کرتے ہیں، جن کا کریمنل ریکارڈ داغدار ہے، اور جو ذاتی مفادات کے اسیر ہو کر اس کھیل کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

اہم سوال یہی ہے کہ پریس کلب کب کب سیل ہوا۔۔؟ ان ادوار میں قیادت کا دعویٰ کس نے کیا۔۔؟ ناجائز طریقے کس نے اپنائے۔۔؟ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو جواب ایک ہی نام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پورا شہر جانتا ہے کہ اس تنازعے کی جڑ کہاں ہے اور کس کے مفادات اس کھیل سے جڑے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اگر صحافی برادری نے اپنی صفوں کو صاف نہ کیا تو یہ کھیل کبھی ختم نہ ہوگا۔اب وقت ہے کہ اس کردار کو سماج کے آئینے میں دکھایا جائے۔ کبھی کبھی معاشرے کی خاموشی سب سے کاری وار کرتی ہے۔ بائیکاٹ کی ضرب تلوار سے زیادہ گہری ہوتی ہے، کیونکہ وہ سماجی سطح پر عزت و وقار کو چھین لیتی ہے۔

صحافت کا وقار اسی وقت بحال ہوگا جب رہبری اور راہزنی کے درمیان لکیر کھینچ دی جائے۔ ورنہ پریس کلب کا دروازہ ہمیشہ عدالتوں کی چابیوں کا محتاج رہے گا۔ یہ صورت حال ہمیں ایک پرانی حکایت یاد دلاتی ہے۔ ایک گاؤں میں کنویں کا پانی خراب ہو گیا۔ لوگ ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے کہ زہر کس نے گھولا۔ شور بڑھتا گیا، مگر پانی صاف نہ ہوا۔ آخر کار گاؤں کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے کنویں کو خالی کرو، پھر نئے پانی سے بھرو۔ تب جا کے پیاس بجھی۔ آج صحافت کا کنواں بھی اسی حکایت کی یاد دلاتا ہے۔ جب تک زہر گھولنے والوں کو الگ نہیں کیا جاتا، یہ پیاس بجھنے والی نہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ صحافت اپنی اصل پہچان دوبارہ تلاش کرے۔ فیک شناختوں، ذاتی مفادات، اور سطحی پرفارمنس سے ہٹ کر اصل مشن یاد کرے۔ ورنہ آنے والی نسلیں یہ سوال ضرور اٹھائیں گی کہ جب صحافت امتحان میں تھی تو حقیقی صحافی کہاں تھے؟

مصنف کے بارے میں

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment