مجھ سمیت پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والا ہر ڈاکٹر آجکل بڑا خوش ہے۔ مریض جونسا مرضی آئے،جس مرضی مرض سے آئے،اسے کوئی بھی مسئلہ ہو تو دوائی وہی لکھ کر دینی ہے جو اندر فارمیسی سے مل رہی ہے۔ ایمرجنسی میں بھی فرسٹ ایڈ دیکر،شارٹ ایڈمیشن کیبعد مریض سے کہنا ہے کہ گھر کھانے والی دوائی او پی ڈی کی فارمیسی سے ملے گی ۔
اب اس پریکٹس کا ایک یہ فائدہ ہے کہ اب او پی ڈی میں زیادہ رش نہیں پڑتا،فارمیسی میں جو دوا پڑی ہے ،وہ چھاپہ مارو اور سکون کرو۔ اب حالات یہ ہو گئے ہیں کہ مریض آ کر یہی کہتا ہے کہ اس دوائی سے فرق نہیں پڑ رہا،آپ تبدیل کر دیں،فارمیسی کی لسٹ سامنے لگی ہوتی ہے،آپ وہی لکھ کر دے رہے ہوتے ہیں جو اندر سے مل رہی ہوتی ہے،اب مریض قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں بتائیں گے اور نا ہی کمپلین نہیں کریں گے،آپ باہر سے دوائی لکھ دیں،لیکن کوئی بھی ڈاکٹر رسک لینے کو تیار نہیں ۔
ڈاکٹرز تو حکومت پنجاب کے دلی مشکور ہیں کہ اس نے اتنی سختی کی،پہلے مریض کی گھنٹوں بات سنوں، اسکی دیکھ بھال کرو،دوائی کا انتظام کرو اور بعد میں یہی قوم کمپلین کر دیتی تھی۔ اب یہ عوام کمپلین کرے تو کرے کہا؟ ڈاکٹر وہی لکھ رہا جو اندر میسر ہے اور اب یہی عوام منتوں ترلوں پر آ گئی لیکن کوئی ڈاکٹر انکی خاطر اپنی نوکری خطرے میں ڈالنے کو تیار نہیں ۔
ایسے ہی ایک مریض کو دوا لکھ کر دی،کہتا یہ دوا میں استعمال کر رہا ہوں،اتنا فرق نہیں پڑ رہا،آپ باہر سے لکھ کر دیں،میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔
آگے سے ڈاکٹر صاحب عقلمند تھے،انہوں نے او پی ڈی انچارج ڈی ایم ایس کے کمرے بھیج دیا کہ انہوں سے لکھوا لاؤ کہ میں شکایت نہیں کروں گا تو میں دوائی لکھ دوں گا،وہ مریض وہاں گیا، تھوڑی دیر بعد آ کر کہتا کہ کوئی بھی میری بات کو ماننے کو تیار نہیں اور فارمیسی والی دوائی لیکر ہی چلا گیا۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا،حکومت کے اس اقدام سے نقصان الٹا مریضوں کا ہی ہونا ہے،وہی ہو رہا۔ انہی پاکستانی مریضوں نے کمپلینز کر کر کے،ڈاکٹرز کو اتنا متنفر کر دیا ہے،کہ جو ڈاکٹر پہلے آؤٹ آف دا واے جا کر مریض کی بہتری کے لئے جو اقدامات اٹھاتے تھے،اب ایسا کچھ نہیں ہو رہا اور نا ہی کوئی ڈاکٹر اپنی نوکری خطرے میں ڈالنا چاہتا ہے وہ بھی اس نا شکری قوم کے لئے ۔
اب مریض جانے یا سرکار جانے ۔ ڈاکٹر اس نورا کشتی سے باہر نکل آیا ہے۔ جو ہے،وہ لکھو! اگر مریض نہیں مطمئن،تو اسے ہسپتال انتظامیہ کے پاس بھیج دو اور خود سکون کرو۔ اب اس سب کے دوران، پرائیویٹ سیکٹر ہسپتالوں کی چاندی ہو گئی ہے،او پی ڈی چیک اپ کے لئے فیس میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا گیا ہے اور میڈیکل سٹورز والوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ مریض ان کے پاس جا کر اپنی علامات بتاتا ہے اور فارمیسی والا اپنے من پسندیدہ مہنگے برانڈز والی دوائی لکھ کر سکون سے نوٹ بنا رہا ہے ، جب آپ گراؤنڈ رائیلٹییز کو اگنور کر کے،راتوں رات نئی پالیسی عائد کر دیں گے تو عام آدمی ایسے ہی رلے گا جیسا رل رہا ہے۔
اس کا آسان حل یہ ہے محکمہ صحت پنجاب سارے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر اس سنجیدہ مسئلے کے حل کے لئے ایک جامع پالیسی کا نفاز کرے،جس سے عوام الناس کا بھلا ہو،لیکن کوئی بھی فریق دوسرے کیساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور یہی رونا ہے۔



تبصرہ لکھیے