ہوم << ڈانسنگ پلیگ - علی عبداللہ

ڈانسنگ پلیگ - علی عبداللہ

1518ء میں موجودہ فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں ٹریفیا نامی عورت اچانک گلیوں میں ناچنے لگی۔ یہ کوئی فن یا خوشی کا رقص نہ تھا، بلکہ ایک ایسا جنون تھا جس نے درجنوں، پھر سینکڑوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ ناچتے گئے، گرنے کے باوجود اٹھتے رہے، حتیٰ کہ کئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

یہ تاریخ کا مشہور ڈانسنگ پلیگ (Dancing Plague) تھا؛ اجتماعی لاشعور کا ایک خوفناک مظہر۔ لی بان نے ہجوم کی نفسیات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہجوم میں فرد اپنی ذمہ داری بھول جاتا ہے۔ کوئی بھی ایک رویہ یا عمل تیزی سے سب میں پھیلتا چلا جاتا ہے اور اجتماعی یقین فرد کی عقل پر غالب آ جاتا ہے۔ اسی نفسیات کا سامنا آج بھی ہم کر رہے ہیں- ہزاروں میل اور پانچ صدیوں بعد ہم آج بھی ایک نئے پلیگ کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ڈانسز، بے مقصد ٹرینڈز اور لامتناہی اسکرولنگ دراصل اسی اجتماعی جنون کی ڈیجیٹل شکل ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وقت ضائع ہو رہا ہے، لیکن "ہجوم" ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم رک نہ پائیں-

ہندو دھرم میں شیو کے رقص کے دو انداز ہیں؛ ایک تخریبی اور دوسرا سرشٹی یا سرور والا- یعنی ردرو ٹانڈ، تباہی، جنون اور بربادی کا نام ہے- جب کہ آنند ٹانڈ سکون، سرور اور تخلیق کا باعث ہے- موجودہ دور میں ہمارا سوشل میڈیا رقص دراصل "ردرو ٹانڈ" ہے جو افراتفری، ذہنی تھکن، اور تخلیقی موت کا باعث ہے- لیکن اگر ہم شعور کو قابو میں لائیں تو یہ "آنند ٹانڈ" بھی بن سکتا ہے جو علم، آگہی اور مثبت تخلیق سے منسوب ہے- لہذا ڈانسنگ پلیگ کو محض ایک ماضی کا قصہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسے آج کا آئینہ بھی سمجھنا چاہیے- اگر ہم نے اپنے شعور کو قابو میں نہ رکھا تو مستقبل کی نسلیں صرف لاشعور کی غلام بن کر رہ جائیں گی۔

Comments

Avatar photo

علی عبداللہ

علی عبداللہ پیشے کے لحاظ سے آئی ٹی ٹرینر ہیں۔ دو دریاؤں کی سرزمین جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتب بینی اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے۔ ادب، تاریخ، مذہب اور ٹیکنالوجی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں. مختلف ویب سائٹس اور قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔

Click here to post a comment